متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو تین ارب ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے۔ دوست ملک کی طرف سے یہ رقم سٹیٹ بنک آف پاکستان میں جمع کرائی جائے گی۔ اس رقم کے موصول ہونے کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر 17ارب ڈالر سے تجاوز کر جائیں گے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ تین ارب ڈالر آنے سے روپے پر دبائو کم ہو جائے گا اور آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ ڈیل کے لئے پاکستان بہتر شرائط پر بات کرنے کے قابل ہو سکے گا۔ ابو ظہبی فنڈ فار ڈویلپمنٹ کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ آئندہ چند روز میں یہ رقم پاکستان کو منتقل کر دی جائے گی۔ قبل ازیں سعودی عرب دو اقساط میں پاکستان کو ایک ارب ڈالر فراہم کر چکا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے جنوری 2019ء تک سعودی عرب کی جانب سے مزید 3ارب ڈالر پاکستان کو فراہم کر دیے جائیں گے۔ سعودی عرب نے پاکستان کے لئے 6ارب ڈالر کا فنانس پیکیج اعلان کیا تھا جس میں سے 3ارب ڈالر نقد اور 3ارب ڈالر کا تیل ادھار کی بنیاد پر فراہم کرنا شامل ہے۔ جناب عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھاتے ہی ملک کی کمزور معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کئے۔ وزراء اور پارٹی اراکین کو سادگی اختیار کرنے کی تلقین‘ خود وزیر اعظم ہائوس میں رہائش کی بجائے منسٹر کالونی میں رہائش اختیار کرنا‘ ملازموں کی فوج کو وزیر اعظم کی خدمت سے ہٹا کر دیگر کاموں پر لگانا‘ کئی ہفتے تک بیرونی دوروں سے معذرت۔ اپنے اور وزراء کے بیرونی دوروں کی صرف بوقت ضرورت اجازت جیسے فیصلوں نے ممکن ہے بہت زیادہ بچت نہ کی ہو مگر ان سے عوام کو یہ اطمینان اور اعتماد ضرور ملا کہ پی ٹی آئی حکومت قومی خزانے کو مقتدر شخصیات کے عالی شان پروٹوکول اور رہن سہن پر خرچ کرنے کی حامی نہیں۔ وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنانے کا عمل شروع ہو چکا ہے‘ ایوان صدر اور گورنر ہائوس عوام کے لئے کھول دیے گئے ہیں۔ یہ اقدامات حکمران طبقات کے چونچلوں اور سرکاری خزانے کے بے جا استعمال کو روک رہے ہیں۔ حکومت نے اپنے اراکین پر اخراجات کے سلسلے میں پابندیاں عائد کر کے عوام کو ترغیب دی ہے کہ ملک کو لاحق معاشی مشکلات کے باعث وہ بھی سادگی اور ذمہ داری کا ثبوت دیں۔ پاکستان کے معاشی بحران کو تجارتی خسارے میں اضافہ‘ زرمبادلہ ذخائر میں کمی‘ روپے کے مقابل ڈالر کی قدر میں یکا یک اضافہ اور سٹاک مارکیٹ میں شدید مندی نے تشویش ناک رخ دیا۔ اس موقع پر مصنوعی انتظامات کر کے مالیاتی مسائل کو وقتی طور پر درست کیا جا سکتا تھا۔ سب سے آسان طریقہ مزید قرض لینا تھا۔ سابق حکومتوں نے یہی کیا کہ جب ملک کو مالیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑا جھٹ سے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرض لے لیا۔ اس قرض کا بڑا حصہ حکمران طبقات پر خرچ ہوتا یا خسارے کے میگا پراجیکٹس پر استعمال کر دیا جاتا۔ اس بار حکومت کی ترجیحات میں حکمران طبقات کی جگہ عام آدمی تھا اس لئے جب آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج کے لئے مذاکرات ہوئے تو قرض کے ساتھ منسلک شرائط کو ناقابل قبول قرار دے کر آئی ایم ایف کو کوئی دوسرا پروگرام دینے کا کہا گیا۔ اس دوران حکومت نے اپنی مالی حالت کا بہتر تاثر پیش کرنے کے لئے متبادل منصوبے پر عمل جاری رکھا۔ وزیر اعظم عمران خان چند رفقاء کے ساتھ سعودی عرب گئے۔ سعودی فرماں روا شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے حسب سابق پاکستان کے لئے گرم جوشی کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے ادھار تیل اور چند ارب ڈالر پاکستان کے اکائونٹ میں رکھنے کی اپیل کی جسے برادر ملک نے تسلیم کر لیا۔ دوسری بار وزیر اعظم بین الاقوامی سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کی غرض سے سعودی عرب گئے۔ کانفرنس کے دوران ان کی متحدہ عرب امارات کی قیادت سے ملاقاتیں ہوئیں۔ کانفرنس کے بعد وزیر اعظم نے یو اے ای کا دورہ بھی کیا۔ اس دورے میں اماراتی قیادت نے سعودی عرب کی طرح پاکستان کی مدد کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ متحدہ عرب امارات کی جانب سے تین ارب ڈالر کا حالیہ اعلان اسی یقین دہانی کا نتیجہ ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے علاوہ ہمسایہ دوست ملک چین نے بھی پاکستان کی مالیاتی اور تجارتی ضروریات میں مدد کا وعدہ کیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ چین کے موقع پر ایک طرف سابق حکومت کے عہد میں کئے گئے دو طرفہ معاہدوں کا ازسر نو جائزہ لینے پر اتفاق ہوا اور دوسری طرف چین سے لئے گئے قرضوں کی واپسی کی مہلت میں اضافے کی بات کی گئی۔ مثبت امر یہ رہا کہ چینی قیادت نے پاکستان کے تحفظات کو توجہ سے سنا اور باہمی تعاون کو وسعت دینے کا فیصلہ کیا۔ دوست ممالک سے مالیاتی تعاون ملنے کے بعد پاکستان ہنگامی حالت سے نکل آیا ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کو اب فوری بحران کا سامنا نہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے تھے۔ اپوزیشن حکومت پر بدعنوانی کا الزام عائد نہیں کر سکی مگر معاشی اشاریوں میں مسلسل گراوٹ نے اسے موقع دیا کہ وہ اسے حکومت کی نااہلی قرار دے کر عوام کو بھڑکائے۔ حکومت کے خلاف مسلسل پروپیگنڈہ اب تک جاری ہے تاہم اس کے اثرات وقت کے ساتھ ساتھ کمزور پڑتے جا رہے ہیں۔ پاکستان مشکلات کا شکار ہے مشکل وقت میں جو ممالک ہمارے مددگار بن کر سامنے آ رہے ہیں ان کے لئے یقینا احترام کے جذبات پیدا ہوئے ہیں تاہم حکومت کو معاشی بحالی کے لئے برآمدات میں اضافہ جیسے دیگر ذرائع کو بھی فعال بنانا چاہئے۔