متحدہ مجلس عمل؟ یہ ایک سیاسی اتحاد ہے یالطائف کا کوئی مجموعہ؟ فرض کریں یہ سارے بزرگ مل کر بیٹھے ہیں اوراسلامی انقلاب لانے کے لیے مسلسل غور و فکر فرما رہے ہیں۔سب ایک جگہ اکٹھے ہوئے ہیں تا کہ اجتماعی بصیرت سے ایک لائحہ عمل بنایا جا سکے۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں ہماری کارکردگی کیا رہی اور اگلے پانچ سالوں کے لیے ہمارا ایجنڈا کیا ہے۔ چشم تصور سے دیکھیے اس نشست کے بانکپن کا عالم کیا ہو گا۔ سب سے پہلے قبلہ سراج الحق اٹھیں گے ۔ وہ جناب امیر العظیم سے کہیں گے کہ لکھو، ہم نے سب سے بڑا کام یہ کیا کہ ایک نا اہل ، بد دیانت ، کرپٹ ، لالچی، خائن حکمران کو ہم عدالت میں لے گئے ۔ہم نے اس کے خلاف مقدمہ قائم کروایا۔ ہم نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔ یہ ہماری کوششیں تھیں کہ سپریم کورٹ نے اس کے خلاف فیصلہ دیا۔ یہ ہماری جدو جہد کا نتیجہ ہے کہ آج وہ شخص نہ صادق رہا نہ امین۔وہ نا اہل ہو چکا۔ اب وہ کسی اسمبلی کا رخ تک نہیں کر سکتا۔ الحمد للہ ہم نے اعلائے کلمۃ الحق کا فریضہ انجام دیا۔ہمارا یہ کام اسلامی احکام کے عین مطابق تھا۔ہم نے دینی تقاضا سمجھ کر اس شخص کے خلاف جدو جہد کی جو بیت المال میں خیانت کا مرتکب تھا۔ اللہ ہماری اس کاوش کو کامیاب کرے اور راہ حق میں مزید استقامت عطا فرمائے۔ ادھر مولانا فضل الرحمن سینیٹر طلحہ محمود سے کہیں گے کہ لکھو ، جب جمہوریت کے دشمن ، بعض کم عقل اور متعصب لوگ نواز شریف کے خلاف محاذ بنا کر کھڑے ہو گئے تھے تو الحمد للہ ہم نے نواز شریف کا ساتھ دیا۔ ہم پہلے دن سے نواز شریف کے ساتھ تھے اور آخر تک ڈٹ کر اس کے ساتھ کھڑے رہے۔ اللہ نے ہمیں سرخرو کیا اور نواز شریف کا ساتھ دے کر ہم نے ملک میں جمہوری عمل کو مضبوط کیا۔ہم نے سازشی عناصر کا مقابلہ کیا۔ہم نے غیر مرئی قوتوں کے آلہ کاروں کا مقابلہ کیا۔ ہم سمجھتے تھے نواز شریف کے خلاف ایک گھنائونی سازش ہو رہی ہے اور اس سازش کا مقابلہ کرنا ہم پر لازم تھا۔ اللہ کا شکر ہے اس نے ہمیں سرخرو کیا۔ اللہ ہماری کاوش کو کامیاب کرے ۔ سراج الحق لکھوائیں گے ہم نے اسلام کے سنہرے اصولوں کی خاطر ہمیشہ اقتدار کو ٹھوکر ماری اور اعلی اقدار کی سیاست کی۔ ہم نواز شریف حکومت کے بھی ناقد رہے اور اس سے قبل آصف زرداری کی حکومت کے خلاف بھی آواز اٹھا کر اپنا دینی فریضہ انجام دیتے رہے۔ ادھر مولانا لکھوائیں گے کہ اللہ کے فضل سے ہم نواز شریف دور میں بھی حکومت کا حصہ تھے اور اس سے قبل آصف زرداری کے دور میں ان کی حکومت کی رونقیں بھی ہمارے دم سے تھیں۔ ہم زرداری دور میں بھی منسٹر کالونی میں قیام پزیر تھے اور نواز شریف دور میں بھی ہم نے منسٹر کالونی کو رونق بخشے رکھی۔اللہ کا شکر ہے ہم نے کسی ایک کے خلاف سازش نہیں تھی اور نہ آئندہ کسی سازش کا حصہ بنیں گے۔ میرے جیسے سادہ عوام ان دونوں بزرگوں کے ارشادات پڑھ کر سر پکڑ لیں گے کہ ہنسیں یا روئیں۔ جب انہیں کچھ سمجھ نہیں آئے گی کہ ہنسنا چاہیے یا رونا چاہیے تب وہ معاملے کی وضاحت کے لیے مولانا سے پوچھیں گے کہ اسلام میں تو عزیمت کی بڑی قدر ہے ۔آپ کے سیاسی سفر میں کہیں عزیمت نظر نہیں آ رہی۔اس پر مولانا فرمائیں گے کہ ایک یہودی ایجنٹ کو جب کے پی کے پر مسلط کیا گیا تھا تو اس یہودی سازش کے خلاف میں سراپا عزیمت ہی تو تھا۔میں نے توسیاست کے تقاضوں کو ٹھوکر ماردی تھی اور دین کی سر بلندی کی خاطر اس یہودی سازش کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں اتر آیا تھا۔سادہ لوح عوام سراج الحق سے پوچھیں گے کہ اس یہودی ایجنٹ کے خلاف اگر مولانا سراپا عزیمت بن گئے تو آپ کی جدوجہد تو بہت مثالی ہو گی۔ آپ نے تو اس حکومت کی چولیں ہلا دی ہوں گی۔سراج الحق فرمائیں گے میں تو خود اس حکومت کا حصہ تھا۔ اس کی حکومت میں وزیر خزانہ میری ہی جماعت کا تھا۔اس حکومت کا اہم ستون بھی میں ہی تھا۔ میں اگر پیچھے ہٹ جاتا تو وہ حکومت دھڑام سے گر جاتی۔ اللہ کا شکر ہے میں آخر تک اس حکومت کے ساتھ کھڑا رہا اور کسی سازش کا حصہ نہ بنا۔ذرا چشم تصور سے دیکھیے سوال کرنے والے پر ان بزرگوں کے فرمودات سن کر کیا بیتے گی۔رو رو کر مر جائے گا یا ہنس ہنس کر؟ سراج الحق یقینا مجلس عمل کے ذریعے کشمیر کی آزادی کی بات بھی کرنا چاہیں گے اور ادھر عالم یہ ہے کہ فضل الرحمن صاحب برسوں سے کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے ، مراعات لیں ، وزیر کے برابر گھر لیا، لیکن کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ مقتل میں کھڑے ، پاکستانیوں سے بڑے پاکستانی سید علی گیلانی نے انہیں منصب سے ہٹانے کا مطالبہ کر دیا تھا۔سراج الحق سے اگر کسی نے پوچھ لیا سید علی گیلانی غلط تھے یا مولانا فضل الرحمن تو معلوم نہیں ان کا کیا جواب ہو۔ معلوم نہیں یہ بزرگ سادہ بہت ہیں یا چالاک بہت۔ حضرت مولانا فضل الرحمن دو حکومتوں کا حصہ رہے اور اب پھر سے انقلاب کی بات کر رہے ہیں اور سراج الحق تحریک انصاف کی حکومت کا حصہ رہے لیکن ان کے وزیر خزانہ سے جب پوچھا گیا حکومت نے بین الاقوامی اداروں سے اتنا قرض کیوں لیا تو ارشاد فرمایا کہ وہ تو پرویز خٹک نے مجھے بتائے بغیر قرض لے لیا تھا۔ ذرا تصور کیجیے کیا یہ ممکن ہے کہ وزیر اعلی وزیر خزانہ کو بتائے بغیر بین الاقوامی اداروں سے قرض لے لے اور وہ اللہ میاں کی ایسی گائے ہو کہ اسے معلوم ہی نہ ہو سکے ۔یہ تو خیر ہم سوچ ہی نہیں سکتے کہ صالحین جھوٹ بولیں ۔ انہوں نے سچ ہی کہا ہو گا انہیں علم نہیں ہو گا لیکن سوال یہ ہے کیا معلوم انسانی تاریخ میں اس سے بڑا نا اہل وزیر خزانہ بھی چشم فلک نے دیکھا ہو گا جسے یہ بھی علم نہ ہو سکے کہ وزیر اعلی نے غیر ملکی اداروں سے قرض لے لیا ہے۔ اب ارشاد تازہ یہ ہے کہ ہم اسلام کی خدمت کریں گے اور سیکولر اور دین دشمن قوتوں کا راستہ روکیں گے۔ سوال یہ ہے کہ وہ لادین سیکولر قوتیں کون سی ہیںجن کا آپ راستہ روکنا چاہتے ہیں؟ پیپلز پارٹی؟ اس کی حکومت کا بھی آپ حصہ رہے۔ مسلم لیگ( ن)؟ اس کا بکتر بند بریگیڈ بھی آپ ہی تھے۔ تحریک انصاف ؟ اس کی حکومت کا حصہ بھی آپ ہی تھے۔تو وہ لا دین قوت کون سی ہے جس کے مقابلے میں آپ دین کی خدمت کا جذبہ لے کر آئے ہیں۔یہ استحصال کب تک؟ اقتدار کا کھیل ہے تو مذہب کا سہارا کیوں؟جب پارلیمان ختم نبوت کی شق ختم کر رہی تھی اس وقت تو صرف شیخ رشید بولا تھا۔اس وقت آپ کہاں تھے؟ قوم بڑی ہو گئی ہے۔ بزرگ بھی اب بڑے ہو جائیں۔