اس خطے کی تاریخ گواہ ہے کہ علماء کرام یہاں برپا ہونے والی ہر اس تحریک کا ہراول دستہ رہے ہیں۔ 1857ء کی جنگ آزادی ،تحریک مجاہدین، مجاہدین حر، تحریک محمودحسن اور قیام پاکستان کے دوران ہونے والی تمام سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے توعلماء کرام نے ان تحریکوں میںعبقری رول نبھایا۔ انگریزسامراج سے ہندوستان کی تحریک آزادی میں علما ء کرام کا کردار انتہائی اہمیت رکھتا ہے جبکہ مدارس اسلامیہ بھی ان کے شانہ بشانہ شامل تھے۔ 1857ء کی تحریک کو علما نے جہاد کا نام دیا تھا،1857 میں علامہ فضل حق خیر آبادی، مولانا لیاقت اللہ الہٰ آبادی، مولانا احمد اللہ مدراسی نے فتویٰ جہاد دیا اور اس کی خوب تشہیر پورے ہندوستان میں کی گئی جس سے مسلمانوںمیں آزادی کی لہر دوڑ گئی۔ علماء کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں نے بھی اس جنگ آزادی میں دل و جان سے حصہ لیا اور انتہائی درجہ کی تکلیفیں برداشت کیں اور ہزاروں علماء کو انگریزوں نے جوش انتقام میں پھانسی پر لٹکا دیا اور علماء نے بڑے عزم و حوصلہ سے مسکراتے ہوئے پھانسی کے پھندوں کو قبول کیا ۔ جنگِ آزادی کے دوران اور شکست کے بعد گرفتار یوں کے وقت طرح طرح کی مصیبتیں اٹھائیں اور صابر و شاکر رہے اورحق وصداقت کی بالادستی کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی پیچھے نہ ہٹے۔ مگرمجموعی طور پرمقبوضہ جموںوکشمیرکے علماء اپنے وعظ، خطبات اورتقاریرمیںعلماء کرام کے اس جاندار اور شاندار، سرفروشانہ کردار اور جرات مندانہ کارناموں کا بہت ہی کم تذکرہ کرتے ہیں ۔ شائد یہی وجہ ہے مقبوضہ کشمیر کے علماء کرام مجموعی طور پر تحریک آزادی کشمیر میں تادم تحریرکوئی جانداراورشاندار کردار نبھانے سے قاصر رہے ۔جب 1947ء میںہندوسامراج کشمیر پرمسلط ہوا توکشمیرکے علماء کرام نے اپنے اسلاف کی تاریخ پڑھی نہیں یاپڑھ کراسے جان بوجھ کر نظر اندازکردیا۔گزشتہ تین دہائیوں سے بھارت لگاتار مقبوضہ جموںوکشمیرمیں اسلام اور مسلمانوں کو ہر ممکن طریقے سے اپنا ہدف بنا چکا ہے۔ مسلم اکثریتی علاقہ جموںوکشمیرمیں اسلامی تشخص کو ختم کرنے کی مہم میں زبردست شدت آئی ہوئی ہے۔ لیکن اگراب بھی جموںوکشمیرکے علماء کرام خاموش رہے تو یہ ایک ایسا جرم ہوگا کہ تاریخ انہیں یہ جرم معاف نہیں کرے گی ۔ ہمیں مقبوضہ جموںو کشمیر کے علماء کرام سے ہمیشہ یہی شکوہ رہا کہ وہ سامنے آکراس تحریک کی باگ وڈورکیوں نہیں سنھبالتے لیکن ان معروضات کی طرف علماء مقبوضہ کشمیر نے کوئی التفات نہ کیا۔ ا لبتہ شکر ہے کہ اب کچھ بلیغ اشارے مل رہے ہیں کہ جن سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ جاگ اٹھے ہیں۔ 23 ستمبر2022ء کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں علماء کشمیر کے مشترکہ پلیٹ فارم’’ متحدہ مجلس علما ء ‘‘ کا سری نگر میں ایک غیر معمولی اجلاس سرکردہ عالم دین اور مجلس کے نائب امیر مولانا محمد رحمت اللہ میر کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں متفقہ طور پرمقبوضہ جموںوکشمیر میںہندوتوا ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوششوں کی شدید مذمت کی گئی اور ایک منظم منصوبے کے تحت جموں وکشمیر کی مسلم شناخت ، انفرادیت اور تشخص کو تبدیل کرنے کو نہایت سختی سے مستردکردیا گیا۔ متحدہ مجلس علما ء کے نمائندہ اجلاس میں قابض گورنر انتظامیہ اورمحکمہ تعلیم کو متنبہہ کیاگیا کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے تعلیمی اداروں اور علمی مراکز میں مسلمان طلباء سے،یوگا، بھجن ،پاٹ پڑھانے ،سوریا نمسکار کہلوانے اوراس نوع کے دیگر تمام غیر اسلامی سرگرمیوں سے باز رہیں کیونکہ یہ تمام امور اسلامی عقائد اور دینی افکار و نظریات کے خلاف ہیں اس لئے مسلمانان کشمیر کیلئے ناقابل قبول ہیں۔ اجلاس میں والدین پر زوردیا گیا ہے کہ وہ ہرصورت اپنے ایمان کو بچائیں اورا گر سرکاری سکولوں میں ان کے بچوں کو زبردستی غیر اسلامی سرگرمیوں کیلئے مجبور کیا جاتا ہے تو وہ اپنے بچوںکو ان سکولوں سے نکال کر پرائیوٹ سکولوں میں داخل کرائیں۔اجلاس میں اسلامیان جموںوکشمیر کے مسلمان اساتذہ کو خبردار کیاگیاکہ وہ از خود یا جبری ، شعوری یاغیرشعوری طور پر غیراسلامی کاموں کاحصہ دار بن کر مقبوضہ جموںوکشمیر میں ہندوتوا ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوششوں سے کلی طور پراجتناب برتیں اورکسی بھی طور پر بھارت کی طرف سے ایک منظم منصوبے کاحصہ نہ بنیں۔ اجلاس میں واضح طور پر اسلامیان جموں و کشمیر کو پیغام دیاگیاکہ ایمان اور اسلام ہر چیز پر مقدم ہے ۔ مسلم اکثریتی علاقے جموںو کشمیرکے تعلیمی اداروں میں ہندو عقیدے کو پھیلا کر دہلی کی سنگھ پریوار اسلامیان کشمیرکوکھلے عام یہ پیغام دے رہی ہے کہ وہ مقبوضہ جموںوکشمیرمیں ’’ہندوتوا‘‘ایجنڈے کی تکمیل کو اپنی قومی پالیسی کاجزء نہیں بلکہ اس کل سمجھتی ہے۔سلام ہو ان پاکبازوں کو کہ جنہوں نے مقبوضہ کشمیر میں مسلّح جدوجہد کا آغاز ہی اس خوف سے کیا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ جب بھارت کشمیری مسلمانوں کو ’’رام رام‘‘ پڑھائے گا۔ ان فکری پاکبازوں میں ناصر الاسلام شہید پیش پیش تھے۔ مقبوضہ جموںو کشمیر پر دہلی کی مسلط کردہ گورنر انتظامیہ محکمہ تعلیم اوراس کے لبرل فاشسٹ جس ہندوانہ برانڈ کو مقبوضہ جموںوکشمیرکے تعلیمی اداروں میں لا رہے ہیں وہ انتہائی شرمناک اوربزدلانہ فعل ہے۔ واضح رہے کہ مقبوضہ جموںوکشمیرکے تعلیمی ادراوں میں حالیہ ایام سے جو سرگرمیاں ہو رہی ہیں وہ مسلم اکثریتی خطے میں کھلم کھلا کفریہ نظریات کی ترویج ہے جو’’تعلیمی جارحیت‘‘ کہلاتی ہے۔اس جارحیت کامطلب ومقصد کشمیر کی نئی پود کے ذہنوں پر کفریات اورنجسیات مسلط کرنا ہے۔صاف دکھائی دے رہا ہے کہ جب تک کشمیرجبری طور پر بھارتی غلامی میں ہے تب تک یہ بھارت کی ایسی شکار گاہ بنا رہے گا۔ جہاں بھارت شکار کرتا رہے گا۔ یہ بھارت کی ایک ایسی شکار گاہ ہے کہ جہاں فرضی جھڑپوں میں نوجوانوں کو قتل کرنے پر بھارتی بزدل فوج کو ’’بہادری‘‘کے تغمے اور ترقیاں اور انعامات ملتے ہیں تو بھلا محکمہ تعلیم سے وابستہ آخر تمغوں اور ترقیوں کی دوڑ میں پیچھے کیوں رہیں؟ وہ بھی مردہ ضمیر تو ہیں۔ایسے میں متحدہ مجلس علماء کا خودبخود ایک ایسے جرات مندانہ اور بہادرانہ کردار کا تعین ہو رہا ہے کہ جو اسے نبھانا ہی پڑے گا اوراس کے اداکرنے سے اب کوئی حیلہ چلے گا اورنہ ہی کوئی خودساختہ بہانہ کام آئے گا۔کیونکہ کئی علماء کرام حالیہ ایام میں جیل جا چکے ہیں اوران کی گرفتاری کے وقت بھارتی فوج اورسفاک پولیس نے یہ نہیں دیکھا کہ یہ علماء کس مکتب فکراورمسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔