متحدہ عرب امارات کے بعد بحرین کے اسرائیل کوتسلیم کرنے پرنیتن یاہو اسرائیلیوں ’’یہود‘‘کے لیے اہم کامیابی قراردے رہا ہے۔بنیامن نیتن یاہوکاکہناہے کہ وہ اس لائحہِ عمل پر یقین رکھتاہے جسے 1920ء کی دہائی میں(iran wall)کہا جاتا تھا۔ اس کے تحت اسرائیلیوں کا خیال تھا کہ اسرائیل کو اس قدر مضبوط بنا دیا جائے کہ زن اورزرکے ساتھ مگن رہنے والے عربوں کے پاس کوئی اور چارہ نہ ہو، سوائے اس کے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کر لیں۔ متحدہ امارات کے بعد بحرین کے اسرائیل کوتسلیم کرنے سے عربوں کا وہ طویل اتفاق رائے ٹوٹ گیا ہے جس کے مطابق اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات کی قیمت فلسطین کی آزادی تھی اور اب اسرائیل عرب ریاستوں کے ساتھ نئے تعلقات مضبوط کر رہا ہے جبکہ فلسطینی اب بھی مشرقی یروشلم میں اور مغربی کنارے پر اسرائیل قبضے میں مظلومیت کا شکار ہیں اور غزہ میں گویا کھلے قید خانے میں جی رہے ہیں۔متحدہ عرب امارات کے بعد بحرین کے اسرائیل کے ساتھ ہوئے معاہدے میں شامل ہونے سے اب فلسطینیوں کی بے کسی اورانکی بے بسی میں سوگنا اضافہ ہوگا۔مبصرین کاخیال ہے کہ دونوں عرب ریاستوں کااسرائیل کوتسلیم کرناسعودی عرب کی توثیق کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ سعودی عرب ہی تھا جس نے عرب امن معاہدہ تحریر کیا تھا اور فلسطین کی آزادی کا مطالبہ کیا تھا۔واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات کی ڈگرپرنہ چلنے کاسعودی عرب باضابطہ طورپراعلان کرچکاہے لیکن امریکی صدر سعودی قیادت سے پرامید دکھائی دے رہے ہیں کہ وہ بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرلے گی۔مبصرین کاخیال ہے کہ حرمین الشریفین کے خادم ہونے کی حیثیت سے شاہ سلمان کو کافی اثر و رسوخ حاصل ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ اچانک اسرائیل کو تسلیم کر لیں۔لیکن ان کے بیٹے اور جان نشین محمد بن سلمان شاید اس معاملے میں کم ہچکچاہٹ محسوس کریں گے۔ مظلوم مسلمانوں کے تئیںاعدائے دین توتھے ہی سفاک اورخون کے پیاسی مگرالمیہ یہ ہے کہ مسلمان حکومتیں اورصاحبان منبرومحراب بھی مظلوم مسلمانوں کی چیخوں اورآہوں سے بے نیاز ہوچکے ہیں۔ ان کے ہاںاب تو کعبہ اور بت خانہ کا فرق بھی مٹتا جارہا ہے، مجاور حرم بھی صنم خانوں کا دیوانہ ہے، اور صنم پرور لوگ حرم کی تقدیس بیان کرتے ہیں، اب مزاج یہ بنتا جارہا ہے کہ کعبہ توہے ہی قائم لیکن بت خانہ بھی بنے ، وہ سنگ سے شیشہ اور شیشے سے سنگ بنانا چاہتے ہیں، اب سب کچھ افسانہ ہے، اک درد ہے، اور قصہ مختصر ہے، ایمان سے بغاوت کا اور ایمان کے نام پر گرم بازاری ہے ۔ہر طرف دیوانے بک رہے ہیں، سرعام یوسف کی بولی لگ رہی ہے، خریداروں کا ہجوم ہے، اب واقعتا ایسا لگتا ہے کہ آنسوئوں کی قیمت فوت ہورہی ہے، اور محبت کی داستان روٹھتی جارہی ہے، حق و باطل گڈ مڈ ہورہے ہیں، اور اقدار و نیک نامی پر ہوس رانی کا غلاف چڑھ گیا۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ محض عبداللہ اورعبدالرحمان نام رکھنے اور مسلمان ناموں سے پکارنے سے ایک مسلمان حقیقی مسلمان نہیں کہلایاجاسکتا۔ آج کے مسلمان حکمرانوں کے چہرے مہرے ایک نئی ہیئت میں سامنے آچکے ہیں،یوں ان کی غلامی کا ڈھنگ بدل گیا۔انہیںقرون اولیٰ کے مسلم حکمرانوں کے ساتھ قطعاََ کوئی لاحقہ ،تشبیہ اورعلائق نہیں ۔آج کے مسلم حکمران فصل گل کا راز نہیں جانتے، وہ سرنہاں سے بے بہر ہیں، وہ قوت ایمانی سے بے پرواہ ہیں، انسانیت کی مدار سے بے خبرہیں،انکی مدہوشی کاعالم یہ ہے کہ ان کے ایمان پر پر ضرب پڑرہی ہے لیکن انہیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہے،زر،زن اور ہوس کا مجموعہ اب ان کا مطمع حیات ہے، قرن اول کو اپنا آئیدیل ماننے والے اور اپنی زندگی کو انہیں کے نقش قدم پر ڈالنے والے اب اس شاخ گل کی تلاش میں رہتے ہیں، جہاں پر ان کی خواہشات کا آشیانہ بنتا ہو، جہاں سے ان کی مرضیات بروئے کار لائی جاتی ہوں،سحروشام وہ اللہ سے پکارتے ہیں کہ پھر سے وہ لوگ پیدا ہوں جو آنسوئوں کی مے بنائیں اور زخموں سے پیمانہ۔یہ وہ دورتھاکہ جب لوگوں کے سینوں میں دل ہوا کرتے تھے، قرن اولیٰ ہو یا اس کے بعد بھی کئی صدیاں ہوں،غمخواری اورغمگساری کا لا متناہی اور ٹھاتھے مارتے سمندر کی طرح جذبہ موجودتھا۔ زندگی کی شرینی اور تاز گی سے لبریزتھی، دنیا پر اسلام کی بساط بچھاکرتی تھی، فتح و کامرانی کے جھنڈے گاڑے جارہے تھے۔ وہ ان دھنوںکو پھر سے چھیڑنے کی تمنااورآرزوکررہے ہیں جن سے ان کے کان آشنا تھے، ان طیور کے نغمے اب بھی کانوں میں رس گھول دینے کی طاقت رکھتے ہیں،یہ مدھرسر آج کے زمانے کی چوٹ سے شکستہ حالوں ، ٹوٹے دلوں پر مرہم کاکام دینے کی ہمت رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیت گئے زمانے بھلے ہی نہ آسکیں لیکن پیمانوں کو جوڑا جا سکتا ہے، انہیں دنیا کے ہجوم میں لایا جا سکتا ہے، بدلتے رنگ کوچلتاکیاجاسکتا ہے، زمانے کے قیل وقال، چال، ڈھال اوررفتار کو بدلا جا سکتا ہے، اسلام کا شجرہ طیبہ ہمیشہ سایہ دار ہے، یہ وہ آب حیات ہے جوہمیشہ شیریں اورذائقہ مند ہے، یہ ہمیشہ پیاس بجھاتارہاہے اورقیامت تک اسی پوزیشن میں ہے۔ 13 اگست 2020ء کومتحدہ عرب امارات نے ایک مشترکہ بیان کے ذریعے اسرائیل سے معمول کے تعلقات استوار کرنے کا اعلان کر کے دنیا کو حیران کر دیا اور یوں وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والا پہلا عرب ملک بن گیاجبکہ 15ستمبر2020ء کوبحرین نے اسرائیل کوتسلیم کرکے اپنی گردن جھکاکردوسرے نمبرپر آگیا۔واضح رہے کہ اسرائیل اور خلیجی ملکوں کے درمیان پس پردہ تعاون کئی سال سے چل رہا تھا جس کا نقطہ عروج رواں سال جنوری میں امریکہ کے مشرق وسطی امن منصوبے کی صورت میں سامنے آنا تھا جس کو خلیجی ممالک کی حمایت حاصل تھی لیکن سرکاری ذرائع اور ذرائع ابلاغ نے خلیجی ملکوں اور اسرائیل کے درمیان پس پردہ تعلقات کو منظر عام پر لانے سے عام طور پر گریز کیے رکھا۔لیکن اب متحدہ عرب امارات اوربحرین کا اسرائیل کوتسلیم کیاجانااوران کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کا اعلان ہونامشرق وسطیٰ میں واضح طور پر ایک بہت بڑی تبدیلی کا عکاس ہے جس سے عرب ریاستوں کوذلت اوررسوائی کے سواکچھ نہیں ملنا۔