بھارت کی دعوت پر پاکستانی وفد 27 جنوری سے یکم فروری تک دریائے چناب پر متنازعہ بھارتی ڈیموں کا دورہ کرے گا۔ بھارتی آبی جارحیت روکنے کے لیے ٹھوس موثر حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے بھارت دریائے چناب کے بہائو میں سے ساڑھے تین لاکھ ایکڑ فٹ پانی پہلے ہی روک چکا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو چناب کا 1.7 ملین ایکڑ فٹ سے زیادہ پانی ذخیرہ کرنے کی اجازت نہیں‘ مگر بھارت نہ صرف برسا ڈیم ہائیڈرو پراجیکٹ منصوبے کے تحت ہی 2.2 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ بلکہ 12ویں پانچ سالہ منصوبے کے ذریعے دریائے چناب پر 10 نئے منصوبے شروع کرنے جارہا ہے۔ بدقسمتی سے ماضی میں ہماری حکومتوں نے بھارتی آبی جارحیت روکنے کے اقدامات تو کیا کرنے تھے ‘الٹاپاکستان میں آبی ذخائر کے منصوبوںکو ہی سیاسی مفادات کے لیے متنازعہ بنایا جاتا رہا ہے۔ پاکستان جب بھارتی آبی جارحیت کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھاتا ہے تو بھارت پاکستان کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ جواز تراشنا ہے کہ پاکستان کے پاس کیونکہ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں اس لیے بھارت اس پانی کو استعمال کررہا ہے۔ دوسرے ماضی میں بھارت سے آبی تنازعات پر مذاکرات کے لیے جووفود تشکیل دیئے جاتے رہے۔ وہ بھی آبی امور سے نابلد تھے۔ بہتر ہوگا حکومت اس بار آبی ماہرین کی ٹیم کو وفد میں شامل کرے ‘جو بھارت کے دورہ کے دوران پاکستانی مفادات کا تحفظ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔