لیجئے، جناب، 25 والی فہرست میں سے دو اور گئے۔ مثبت پیشرفت ہے۔ خیر، شاہد خاقان عباسی کے عمر بھر کے لیے نااہل پانے سے مسلم لیگ دنیا کی واحد پارٹی بن گئی ہے جس کے دو وزرائے اعظم یکے بعد دیگرے مشرف بہ انصاف ہو گئے۔ کتنا بڑا اعزاز ہے۔ اب فہرست میں 23 نام باقی ہیں جبکہ الیکشن میں 25، 26 دن باقی ہیں۔ روز کا ایک بھی نمٹایا جائے تب بھی دو دن بچ جائیں گے یعنی خالی جائیں گے اور اگر روز ان کے دو دو یا تین تین بھگتائے جائیں تو فہرست آدھے راستے ہی میں تمام ہو جائے گی۔ پھر نئی بنانا پڑے گی اور کیا پتہ بن بھی چکی ہو۔ کسی دل جلے نے تبصرہ کیا، کوئی نہ کوئی ہے جو چودھری نثار کاراستہ صاف کرنا چاہتا تھا۔ ایک اور جنم جلے نے کہا، کوئی نہ کوئی ہے جو شاہد خاقان عباسی کو اسمبلی میں نہیں دیکھنا چاہتا۔ تیسرے نے کہا، کوئی نہ کوئی ہے جو چاہتا ہے کہ عمران خان آسانی سے اسلام آباد والی سیٹ جیت لیں۔ تینوں نے بعدازاں اس نکتے پر اتفاق کیا کہ کوئی نہ کوئی تو ہے جو ساری ڈوریاں ہلا رہا ہے۔ ٭٭٭٭٭ تاحیات نااہل شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ الیکشن کو متنازعہ بنایا جارہا ہے۔ یہ بیان دے کر عباسی صاحب نے اپنی سخن فہمی کی صلاحیت کا مشکوک ہونا ثابت کردیا ہے۔ متنازعہ نہیں حضور، انتخابات کو شفاف بنایا جارہا ہے۔ کیا آپ کو شفاف انتخابات پسند نہیں ہیں؟ بہرحال، انتخابات شفاف تو ہیں پر آئیڈیل حد تک شفاف نہیں۔ شفاف انتخابات آئیڈیل حد تک شفاف تبھی ہو سکتے ہیں جب صرف صادق و امین حضرات الیکشن میں شریک ہوں، دوجا کوئی نہ ہو اور صادق و امین تو بس دو تین جماعتیں ہی ہیں مثلاً سرفہرست تحریک انصاف ہے، پھر سنجرانی ماڈل ہے، اس کے بعد کراچی کی شادباد پارٹی ہے۔ مقابلہ دراصل ان تینوں جماعتوں ہی میں ہوتا تو کیاہی اچھا ہوتا، سہ فریقی صادق و امین، انتخابات شفاف برانڈ۔ ایک نئی تاریخ رقم ہو جاتی۔ خیر، اب بھی جو تاریخ بن رہی ہے، اس کا رنگ بھی خوب سنہرا ہے۔ ٭٭٭٭٭ ویسے وقت ابھی ہاتھ سے نہیں نکلا۔ قومی مفاد سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ بعض محب وطن حلقوں کی اس تجویز پر عمل کرنے کا جواز بھی موجود ہے اور حالات بھی کہ انتخابات پر وقت اور سرمایہ ضائع کرنے کے بجائے کیوں نہ ایک قومی مفاداتی ریفرنڈم کرا لیا جائے۔ انتخابات سے قوم تقسیم ہوتی ہے اورتاریخ بتاتی ہے کہ ریفرنڈم سے قوم متحد ہوتی ہے۔ ریفرنڈم ایک سوال، بس ایک سوال پر مشتمل ہو۔ ووٹر سے پوچھا جائے کہ کیا وہ محب وطن ہے؟ اگر ہے تو پرچی پر مہر لگا دے ورنہ پولنگ سٹیشن پر آنے کی زحمت نہ کرے۔ فارمولا وہی ضیاء الحق والا ہو۔ یعنی اگر آپ محب وطن ہیں تو عمران خان 5 سال کے لیے وزیراعظم، یقین کیجئے سوفیصد رزلٹ آئے گا قوم تقسیم نہ ہو گی اور سارے اہداف بس اس ایک پرچی سے حاصل ہو جائیں گے۔ غیر محب وطن افراد کو صحرائے گوبی وغیرہ کی راہ دکھائی جا سکتی ہے۔ ٭٭٭٭٭ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے لوئر دیر میں خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اعلان کیا ہے کہ پختونخوا کا کلچر بدلنے والوں کا راستہ روکیں گے۔ یہی بات چند دن پہلے مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی کہی تھی۔ اشارہ ان کا سراج الحق کے سابق اتحادی جماعت کے کلچر کی طرف تھا اور اغلب ہے کہ اشارہ سراج الحق کا بھی اسی طرف ہے۔ فضل الرحمن یہ بات کہیں کہ وہ ایسا کلچر نافذ نہیں ہونے دیں گے تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن سراج الحق تو پورے پانچ سال ان کے شانہ بشانہ ہم سفر بلکہ ہم خیمہ رہے ہیں، وہ ایسی بات کیوں کر رہے ہیں؟ شاید پانچ سال وہ عین الیقین کے مرحلے طے کرتے رہے اور اب پانچ سال کے بعد وہ حق الیقین کی منزل پر پہنچ گئے ہیں کہ وہ کلچر مضر صحت ہے۔ اچھی بات ہے، حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے اچھی طرح جانچ پڑتال کرلینی چاہیے، جماعت اسلامی کی اچھی جانچ پڑتال مکمل ہونے میں پانچ سال لگ گئے جو کچھ اتنی زیادہ مدت بھی نہیں۔ ٭٭٭٭٭ ایک معروف چینل پر مبصر صاحب میانوالی میں خان صاحب کے جلسے کی حاضری ’’حسب توقع‘‘ نہ ہونے کی وجہ یہ بیان فرما رہے تھے کہ پارٹی میں تنظیمی اختلاف چل رہے ہیں، اس لیے لوگ کم آئے۔ جلسہ اچھا نہ ہونے کی یہ اچھی وجہ بتائی۔ بہرحال، اس سے ’’اچھا‘‘ لطیفہ یوں ہوا کہ جلسے کی جو ویڈیو تحریک کے حضرات نے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی، اس میں خان صاحب نے کوئی اور ہی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ یہ لائن دار شرٹ تھی اور جلسے میں خان صاحب نے سفید کرتا پہن رکھا تھا۔ فلمی گانوں میں ہیرو، ہیروئن کے کپڑے بار بار تبدیل ہوتے تو بہت دیکھے لیکن جلسے کی قمیض بدلی کا یہ پہلا مشاہدہ تھا۔ یہ عقدہ یوں حل ہوا کہ تحریک کے میڈیا سیل والوں نے دو سال پرانے جلسے کی ویڈیو نئی بنا کر اپ لوڈ کردی لیکن جلد بازی میں ’’شرٹ‘‘ پر دھیان نہ دے سکے۔ ٭٭٭٭٭ شہبازشریف نے کراچی کا دورہ کیا اور جانے انجانے میں کراچی والوں کی دل آزاری کا سبب بن گئے۔ کرانچی اور پان کھانے کی عادت کا ذکر حالانکہ انہوں نے محض ازراہ مزاح کیا تھا۔ شہبازشریف نے عمر بھر حس مزاح کا مظاہرہ کرنے سے پرہیز ہی کیا ہے، ایک دن اور کرلیتے تو یہ صورتحال نہ ہوتی۔ بات اتنی زیادہ محسوس کرنے والی نہیں تھی لیکن کراچی کے لوگ ایک عرصے سے اتنے دکھی ہیں کہ زود رنجی بڑھ گئی ہے۔ اس کا ایک اندازہ کل ہی ایک ٹی وی ویڈیو سے ہوا۔ رپورٹر پانی کی قلت پر کسی رہائشی کالونی میں سوال جواب کر رہا تھا۔ ایک بڑے میاں خود کو گالیاں دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے، کیا کریں، ہمارے ماتھے پر ’’مہاجر‘‘ کا ٹھپہ لگا ہوا ہے اس لیے ہمارا پانی بھی بند کردیا جاتا ہے۔ بات شاید ایسی نہیں لیکن جب عشرے گزر جائیں اور اچھوتوں جیسا سلوک ہی ہوتا رہے تو پھر محسوسات ایسے ہی ہو جایا کرتے ہیں۔ ملک پر بالادست طبقات کی نظر کرم کراچی پر 1965ء سے ہے جب ان لوگوں نے فاطمہ جناح کو ووٹ دیئے تھے۔ ایوب کے بعد ضیاء الحق بھی مہاجر دشمنی میں انتہا کو چلے گئے اور غوث علی شاہ کے ذریعے شہر کو تباہ کرڈالا۔ ان سے پہلے بھٹو نے شہر میں لسانی فسادات بھڑکائے۔ پرویز مشرف نے ’’مہاجر نوازی‘‘ کے نام پر مہاجر کشی کی، ان سے پہلے بینظیر بھٹو نے نصیراللہ بابر کے ذریعے جو کیا، وہ تاریخ کا شاید سب سے خونریز باب ہے اور اب کمال کی لانڈری ظلم کا نیا مرکز بن گئی ہے ۔ ان کی مردم شماری مصنوعی طور پر کم کردی گئی ہے، ان کے لیے اتنی سزا کیا کافی نہیں؟ کراچی میں مسلم لیگ کے لیے زیادہ نہ سہی، کچھ گنجائش تو نکل ہی سکتی ہے۔ شہبازشریف صاحب اگلا دورہ فرمائیں تو کراچی کی مقامی قیادت سے مشورہ کرنے کی زحمت فرمالیں۔