طارق چودھری نے پتے کی بات کی۔ کہا ’’ایک جنگ بتا دیں جو کسی ریاست نے مضبوط معیشت اورخوشحالی کی بنا پر جیتی ہو‘‘ مشتاق چودھری کے اعزاز میں برادرم حفیظ اللہ نیازی نے عشائیہ کا اہتمام کیا تھا اور مخدوم جاوید ہاشمی و مجیب الرحمن شامی سمیت طارق چودھری ‘ میاں خالد اور مشتاق چودھری کے بیشتراحباب شریک محفل تھے۔ دگرگوںپاکستانی معیشت اور بھارتی جارحیت کے خطرات ایک ساتھ زیر بحث تھے۔ ان دنوں بھارتی شردھالو اور عمران مخالف حلقے ایک ہی بات شد ومد سے کہہ رہے ہیں کہ اگر خدانخواستہ جنگ چھڑ گئی پاکستان کا کیا بنے گا جس کا تجارتی خسارہ پریشان کن ہے اور معاشی بدحالی ضرب المثل‘ طارق چودھری بحث کا حصہ بنے نہ کسی سے الجھے‘ میرے قریب آئے اور سادگی سے جملہ اچھال کر چپ سادھ لئے۔ افغانستان کی مثال تازہ ہے ایک صدی میں تین سپر پاورز کو شکست دے کر افغان عوام نے مسلمانوں اور پاکستانیوں کو باور کرایا ہے کہ اپنے زمانے کی اقتصادی ومعاشی طور پر مضبوط‘ عسکری و دفاعی حوالے سے ناقابل تسخیر اور سفارتی و سیاسی میدان میں قابل رشک سپر پاورز برطانیہ ‘ سوویت یونین اور امریکہ کو محض صادق نظریے کی قوت‘ بہتر حکمت عملی مضبوط عزم و حوصلے اور ایمانی جذبے سے شکست دی جا سکتی ہے۔ امریکہ تو اکیلا بھی نہ تھا‘ پینتالیس ممالک کے مالیاتی وسائل‘ تکنیکی مہارت اور جدید دفاعی سامان حرب کو افغانستان کے کوہ و دمن میں خاک چاٹنی پڑی ؎ فضائے بدر پیدا ‘کر فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی امریکہ اور طالبان کے مابین براہ راست مذاکرات شروع ہوئے تو کسی کو اس خبر پر یقین نہ آیا۔ امریکہ کیا ‘ایک ایسے گروہ سے مذاکرات کرے گا جس کے عمامہ پوشوں کو انگریزی آتی ہے نہ سفارت کاری؟ امریکی شاطر ہی نہیں ذہین اور چرب دماغ ہیں اور عالمی مہارت مسلمہ‘اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل ‘ تجربہ کار اور چرب زبان امریکی سفارت کاروں کے روبروجن کی قیادت زلمے خلیل زاد کر رہا ہے طالبان کے روزٹک پائیں گے؟کون سی بات منوائیں گے؟ مذاکرات سے بھاگیں گے یا امریکی شرائط پر صلح کریں گے۔ مگر ہوا کیا؟ طالبان نے یہ تک منوا لیا کہ افغانستان کا نیا نام امارات اسلامی افغانستان ہو گا اور اشرف غنی وغیرہ امریکی کٹھ پتلیوں سے مذاکرات امریکی پسپائی کے معاہدہ پر اتفاق رائے کے بعد ہو ں گے‘ معاہدہ سے قبل سیز فائر کی شرط بھی طالبان نہیں مانے اور اشرف غنی‘ افغان حکومت کو مذاکرات میں شریک تک نہیں کیا۔ ایک قلیل گروہ امریکہ سمیت پینتالیس ممالک کی فوج‘ ٹیکنالوجی اور تباہ کن عسکری قوت پر غالب آیا مگر کیسے؟ قرآن مجید میں رہنمائی یوں ملتی ہے۔’’بارہا بڑی جماعت پر چھوٹا گروہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے غالب آیا اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘ پاکستان رقبے ‘ آبادی ‘ مالی وسائل اور عسکری قوت کے لحاظ سے بھارت کا مدمقابل نہیں مگر کشمیری عوام؟ ایک ارب آبادی طیاروں‘ ٹینکوں‘ میزائلوں اور توپوں سے مسلح نو لاکھ فوج کے مقابلے میں نہتے اور بظاہر بے یارو مددگار صرف چند ہزار‘ اسی لاکھ آبادی میں سے نصف کے قریب بھارت سے مرعوب یا کانگریس و بی جے پی کی مددگار۔ کئی عشروں سے مگر ان بے وسیلہ حریت پسندوں نے بالا دستی‘ قبول کی نہ حوصلہ ہارا۔ کئی مواقع پر نیو کلئر پاکستان کے حکمران‘ سیاستدان اور بعض جرنیل ہمت ہار بیٹھے‘ آئوٹ آف بکس حل تلاش کرنے لگے مگر عمر رسیدہ علی گیلانی بیماری اور نقاہت کے باوجود پورے قد سے کھڑا رہا۔ اس نحیف و ناتواں سیّد زادے پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت تھی‘ رسول اکرم ﷺ کا دست شفقت اور بے پایاں عزیمت ؎ پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ ہے تیرا کرم مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا نیلسن منڈیلا کی ستائیس سالہ اسیری سب کو یاد ہے علی گیلانی کی پچاس سالہ قید و بند کا کسی کو احساس تک نہیں۔ کشمیری عوام کی جدوجہد کا سبق یہ ہے کہ کوئی قوم اگر آزادی کا تہیہ کرے یا اپنی آزادی اور خود مختاری کے دفاع پر تل جائے تو وقت کی بدترین ‘ نسل پرست اور درندہ صفت نیو کلئر ریاست بھی اس کے حوصلے پست کر سکتی ہے نہ تسلط برقرار رکھنے پر قادر۔ جموں و کشمیر میں تئیس روز سے مارشل لاء نافذ ہے مگر مجال کہ کسی ایک لیڈر ‘ کارکن اور شہری نے نریندر مودی سے رحم کی بھیک مانگی ہو‘ بھارتی اقدام کو درست قرار دیا ہو۔ محبوبہ مفتی اور عمر فاروق عبداللہ جیسے بھارت نواز لیڈر بھی حریت کانفرنس کی قیادت کی پامردی سے متاثر ہو کر مشروط رہائی سے انکاری ہیں۔ کشمیری عوام کی جدوجہد میں آخری حد تک جانے کی بات سن کر بعض کم ہمت دانشور و تجزیہ کار معیشت کی زبوں حالی کا رونا رو رہے ہیں یہ قوم کے حوصلے پست کرنے کے مشن پر ہیں ورنہ جانتے ہیں کہ امریکی فوج کا افغانستان سے انخلاء مکمل ہو جانے کے بعد شائد مسئلہ کشمیر کی وہ اہمیت بھی نہ رہے جو 5اگست سے قبل تھی۔1990ء کے عشرے میں کشمیری عوام اور حریت پسندوں نے بھارتی فوج کو ناکوں چنے چبوائے اور حالات اس قدر خراب ہوئے کہ بھارتی ہندو وادی سے نقل مکانی کرنے لگے‘ زیادہ تر بھارتی دفاعی ماہرین‘ دانشوروں اور تجزیہ کاروں نے برملا کہنا شروع کر دیا کہ جموں و کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے مگر پاکستان کے حکمرانوں نے ’’پہلے تجارت پھر کشمیر‘‘ کا راگ الاپنا شروع کر دیا‘ دوستی بس چلنے لگی‘ خفیہ سفارت کاری کو فروغ ملا اور فارن فنڈڈ این جی اوز کی آمدورفت شروع ہو گئی۔ نتیجہ؟ مسئلہ کشمیر پس پشت چلا گیا اور کاروباری حکمرانوں کے وارے نیارے ہو گئے۔ بھارت نے نارملائزیشن کا بھر پور فائدہ اٹھایا ہم صرف کوئلوں کی دلالی کرتے رہے جس میں مُنہ کالا ہونا تھا سو ہو گیا۔ نریندر مودی نے حماقت کی‘ تکبر نے اس کی مت مار دی اور قدرت نے موقع دیا کہ ہم کشمیریوں کی توقعات پر پورا اتریں۔ معیشت مضبوط بنا کر بھارت کا مقابلہ کرنے کے چکر میں ہم نے کئی عشرے ضائع کر دیے معاشی بدحالی بڑھتی گئی البتہ حکمران اشرافیہ کے اثاثوں اور بنک بیلنس میں خوب اضافہ ہوا۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہم بھارت کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں؟ سوال یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ 1965ء یا 1971ء کی طرح بھارت حملہ کر دے تو ہم کمزور معیشت اور کئی گنا کم فوج و اسلحے کی بنا پر دشمن کے سامنے فی الفورہتھیار ڈال دیں گے یا مقابلہ کریں گے؟ جنگیں معیشت کے زور پر نہیں قومی غیرت کے جذبے سے لڑی اور جیتی جاتی ہیں۔ ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا تو ترقی و خوشحالی میں سلطنت بغداد اور تاتاریوں کا کوئی موازنہ نہ تھا‘ تاتاری فوج ہرے بھرے باغات دیکھ کردنگ رہ گئی مگر پھل توڑ کر کھانا چاہا تو مایوسی ہوئی کہ یہ سونے چاندی سے تیار کیے گئے مصنوعی پودے اور پھل تھے۔ معتصم بااللہ کو ہلاکو خان کے روبرو پیش کیا گیا تو شہنشاہ معظم بھوک سے نڈھال تھا‘ ہلاکو نے حکم دیا کہ بادشاہ سلامت کو پرتکلف کھانا پیش کیا جائے۔ دستر خوان پر بادشاہ نے خوانچے کا ڈھکن اٹھایا تو اس میں ہیرے جواہرات تھے ‘ ہلاکو خان نے کہا کھائو‘ معتصم بولا خشک و جامد معدنیات کیسے کھائوں ہلاکو خان نے جواب دیا’’اگر تم ان ہیروں سے اپنے سپاہیوں کے لئے تیر اور تلواریں بنا لیتے تو میں دریائے دجلہ عبور نہ کر پاتا‘‘ پاکستان معاشی طور پر زبوں حالی کا شکار مگر عسکری میدان میں بھارت کے ہم پلہ ہے‘ جذبہ جہاد مستزاد اور کشمیریوں کی استقامت لاجواب۔ اگر عمران خاں اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں ہم گجرات کے قصائی اور کشمیریوں کے قاتل نریندر مودی کے چنگل سے کشمیر آزاد نہیں کرا پائے اور امریکی ثالثی کے منتظر رہتے ہیں یا او آئی سی و سلامتی کونسل سے وفا کی امید رکھتے ہیں تو پھر ہو چکا کشمیر آزاد‘ کشمیریوں کو آزادی سے عشق ہے اور ہم کشمیری عوام کو محبت‘ وفاداری و یکجہتی کا یقین دلا رہے ہیں‘ عشق‘ محبت ‘ وفاداری میں نفع ‘ نقصان کی سوچ؟ مجھ سا جہاں میں کوئی نادان بھی نہ ہو کر کے جو عشق کہتا ہے کہ نقصان بھی نہ ہو (سعداللہ شاہ) کیا چین نے ہانگ کانگ اور میکائو مضبوط معیشت کے زور پر حاصل کیا یا مضبوط عسکری قوت کے بل بوتے پر؟