تحریک انصاف کراچی کے صدر نے کہا ہے کہ متحدہ پر جو الزامات لگائے تھے ان پر قائم ہوں‘ اس کے ساتھ اتحاد مجبوری میں کیا‘ ہمیں اپنے نمبر پورے کرنے تھے۔مجبوری بڑی جابر شے ہے۔ کسی کو بھی اپنا جدّ امجد ماننا پڑتا ہے حساب کتاب میں تھوڑی کسر رہ گئی۔ مطلب یہ کہ 25کی رات دس بجے کے بعد جو سونامی چلی‘ وہ کہیں ایک آدھ گھنٹہ پہلے چل جاتی تو یہ مجبوری نہ ہوتی‘ نمبر اپنے طور پر ہی پورے ہو جاتے۔ گلہ بنتا ہے لیکن آپ کریں گے نہیں۔ ویسے یہ مجبوری متحدہ والوں کی بھی ہے۔ انہیں نمبر پورے کرنے کی نہیں‘ کسی اور شے کی مجبوری ہے بلکہ اشیا کی۔ جو سمجھوتہ دونوں جماعتوں کا ہوا ہے ایک تجزیے کے مطابق وہ محض کاغذی خانہ پری ہے ورنہ متحدہ کو ملا کچھ بھی نہیں اور مل سکتا بھی نہیں کہ متحدہ کو اگر کچھ مل سکتا تھا تو وہ صوبائی حکومت سے۔ وہ چاہتی تو سندھ حکومت سے اتحاد کر سکتی تھی لیکن یہ فائدہ مند اس لیے نہیں ہوتا کہ سندھ حکومت کو نمبر پورے کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یعنی اس کی کوئی مجبوری نہیں تھی وہ متحدہ کو خوش آمدید کہتی اور بس۔ تحریک انصاف کی مجبوریاں دور کرنے کو فرشتے قطار اندر قطار حاضر ہیں۔ متحدہ لاوارث ہے اور مجبور قومی موومنٹ بن کر رہ گئی ہے۔ ٭٭٭٭٭ وفاق سے سندھ کو کچھ بھی ملنے والا نہیں ہے۔ اس کی ایک بڑی شکایت اپنے افراد کے لاپتہ ہونے کی ہے اس کا مطالبہ ہے کہ مزید کو لاپتہ نہ کیا جائے، جو لاپتہ ہو چکے ہیں انہیں واپس کیا جائے اور یہ کہ آدھی رات کی دستک کا سلسلہ بند کیا جائے۔ کراچی میں صورتحال خوف کی ایسی ہے کہ آدھی رات کو کسی کے گھر سچ مچ کا مہمان چلا جائے اور دستک دے تو بھی عورتیں نیم بے ہوش ہو جاتی ہیں۔ بڑے دم سادھ لیتے ہیں اور بچے رونے لگتے ہیں اور جب پتہ چلتا ہے کہ یہ تو مہمان آیا ہے‘ پھر جان میں جان آتی ہے‘ سب مہمان سے گلے مل کر روتے ہیں‘ خوشی سے۔ یہ مطالبات جائز ہیں یا ناجائز اس کا تو پتہ نہیں لیکن پتہ ہے کہ یہ شعبہ وفاق کے ماتحت ہے نہ صوبے کے۔ سچ پوچھیے تو ساراکراچی آفاق کے دائرے میں آتا ہے سو آفاقی مخلوق کی آماجگاہ ہے۔ متحدہ جائے تو جائے کہاں۔ وفاق میں نئی آنے والے عمرانی حکومت سے اس کو ذرا سی امید ضرور ہے کہ اس بار وفاق کا آفاق سے رشتہ ہے‘ شاید شنوائی ہو جائے کوئی لچک مل جائے۔ دوسری صورت میں کئی شکنجے تیار ہیں۔ ٭٭٭٭٭ کسی پنجابی کی متحدہ سے ہمدردی آسان بات نہیں۔ 1965ء کے صدارتی انتخابات میں مہاجروں نے ایوب خاں کے بجائے فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا۔مہاجر کو غدار کہو تو لوگ فوراً یقین کر لیتے ہیں۔ بہت برس ہو گئے جب جناح پور کا نقشہ سامنے آیا تھا اور جیسے ہی سامنے آیا سب لوگوں نے اعتبار کر لیا کسی نے نہیں سوچا۔ جناح پاکستان کے بانی‘ حضرت قائد اعظم کا نام ہے۔ جو لوگ جناح کے پاکستان کو توڑنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے الگ ملک کا نام جناح کیوں رکھیں گے یہ تو ایسے ہی ہوا جیسے مقبوضہ کشمیر کے لوگ آزاد ہونے کے بعد اپنے ملک کا نام مودی آباد رکھ دیں۔ پھر کچھ برس بعد خبر آئی کہ جناح پور کا نقشہ فراڈ تھا‘ متحدہ کے خلاف آپریشن کے لیے کی گئی جعلسازی تھا تو کوئی نہیں بولا۔ حالانکہ جب جناح پور کا نقشہ سامنے آیا تو سب بولے تھے‘ بڑی مشکل سے اور بہت دیر سے چپ ہوئے تھے۔ یہاں کی یہی ریت ہے۔ ٭٭٭٭٭ کہا جاتا تھا کہ لندن والے بھائی صاحب کو مائنس کر دو‘ باقی سب ٹھیک ہے‘ قبول ہے۔ ایسا کر کے دیکھ لیا لیکن ڈھاک کے وہی تین پات۔ کہا گیا کہ متحدہ میں یہ بھتہ خوروں کی فہرست ہے‘ یہ ٹارگٹ کلروں کی اور یہ چائنا کٹنگ والوں کی۔ یہ سارے فہرستوں والے پھر کمال لانڈری میں چلے گئے۔ دھل دھلا کر نتھر گئے۔ متحدہ کی خطا پھر بھی معاف نہ ہوئی۔ یہ کمال لانڈری والا معاملہ اپنی جگہ المیہ لطیفہ ہے۔ متحدہ کو تو غداری کی سزا ملی۔ کمال لانڈری کو کس بات کی ملی؟ کیا عہد وفا نبھانے کی؟ چلیے جو ہوا سو ہوا کراچی والے بھی کیا یاد کریں گے کہ جن امیدواروں کا انہوں نے کبھی چہرہ دیکھا تھا نہ نام سنا تھا، وہ تیرہ سیٹوں پر جیت گئے۔ ٭٭٭٭٭ گورنر پنجاب نے کہا ہے کہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ دھاندلی صرف ہوئی نہیں۔ ہوتی ہوئی نظر بھی آئی۔ یعنی جو محاورہ تحریک انصاف سے وابستہ تھا‘ اس کی پیوندکاری دھاندلی سے کر دی گئی۔ ممکن ہے نئی لغت میں دھاندلی اور انصاف باہم مترادف لفظ ہوں۔ یہ تو ہوئی اصولی بحث‘ عملی حقیقت یہ ہے کہ گورنر موصوف کا دعویٰ غلط ہے۔ پولنگ ایجنٹ تو گنتی کے وقت پولنگ سٹیشنوں سے نکال دیے گئے تھے وہ دھاندلی ہوتے کیسے دیکھ سکتے تھے۔ ان پولنگ ایجنٹوں کی کوئی گواہی‘ اگر کبھی ‘ بالفرض محال ان سے گواہی لینے کا وقت آیا‘ قبول کی ہی نہیں جا سکتی اس لیے کہ جو شے ان کی آنکھوں کے سامنے ہوئی ہی نہیں‘ اس کی گواہی وہ کیسے دیں گے اور چونکہ یہ گواہی قابل قبول ہی نہیں تو بات پھر اصول کی طرف آ جائے گی اور اصول یہ ہے کہ دھاندلی ہوئی ہی نہیں۔ یہ شفاف الیکشن تھے جن کی شفافیت کی گواہی کچرا کنڈیاں‘ سکولوں کے کلاس روم اور دوسری ناقابل بیان جگہیں دے رہی ہیں۔ ٭٭٭٭٭ اپنے دیس میں تو جو ہو رہا ہے‘ سبھی دیکھ رہے ہیں۔ پریس کچھ نہیں دکھا رہا لیکن زبان خلق نقارہ خدا ہے جسے سننے پر ہر کوئی مجبور ہے۔ پڑوسی ملک ایران میں بھی ایک تبدیلی آئی ہے۔ سال گزشتہ کے آخر میں جو مظاہرے ہوئے تھے اور پھر کچل دیے گئے تھے وہ ایک بار پھر شروع ہو گئے ہیں۔ اس بار ان کے شرکاء کی تعداد بھی زیادہ ہے اور ان میں اشتعال بھی بڑھ کر ہے۔ یہ دارالحکومت تہران ‘ مذہبی دارالحکومت قم‘ اصفہان‘ شیراز‘ کرج سمیت تمام بڑے شہروں میں ہو رہے ہیں۔ مظاہروں کی پچھلی سیریز میں خامنہ ای کا نام لیے بغیر ان کے خلاف نعرے لگتے تھے یعنی آمر مردہ باد‘ اس بار ’’تبدیلی‘‘ یہ آئی ہے کہ ان کا نام سرعام لیا جا رہا ہے اور ان سے استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ مظاہرین کو خود حکومت کے اندر سے بھی حمایت حاصل ہے۔ معاشی تنگی ریال کی قیمت خیال و خواب سے بھی زیادہ گر گئی ہے۔5اگست 2018ء کو ایک ڈالر 44ہزار 134ریال کا تھا۔ حکومت کے پاس معیشت کو معمولی سا سنبھالا دینے کی بھی سکت نہیں ہے۔ معیشت کا سارا خون نچوڑ دیا گیا ہے اور اوپر سے نئی امریکی پابندیاں لگ رہی ہیں۔ بما کسبت ایدیکم۔ خدا ہمارے ایرانی بھائیوں کی مدد کرے۔ زمین دن بدن سخت‘ آسمان دم بدم دور ہوتا جا رہا ہے۔