عمران خان نے اعتراف کیا ہے کہ انکی حکومت احتساب کرنے میں نا کام رہی ہے۔ اس ضمن میں ظاہر ہے انہوں نے شہباز شریف، میاں نواز شریف اور ان کے درجنوں پارٹی ورکرز کی رہائی کا تذکرہ کیا۔ یہ سب سنگین مالی بدعنوانیوں کے جرم میں ملوث پائے گئے۔ کچھ پر فرد جرم بھی لگی لیکن نہ صرف سب کے سب جیل سے رہا ہوئے بلکہ میاں صاحب کو تو ملک سے باہر ہی بھیج دیا گیا۔ لا قانونیت کی اس داستان کو سنانے کے بعد وزیر اعظم پرعزم انداز میں بولے کے انکی حکومت پانچ سال پورے کرے گی اور یہ کہ انکے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بدستور استوار ہیں۔ دو روز قبل ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس کر کے ایک بار پھر اپنے ادارے کی سیاست میں مداخلت کی دھند کو صاف کرنے کی کوشش کی اور یہ عندیہ دیا کہ انکے ادارے کی کسی کے ساتھ ڈیل نہیں ہو رہی۔ یہ ہے پاکستان کی کل سیاست: پانچ سال مکمل کرنا، ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی مداخلت کا رونا رونا، احتساب کے کلچر کی بے مائگی پر ماتم کرنا، حکومت اور ملٹری کے درمیان تعلقات کی ڈور کی مضبوطی یا کمزوری سے متعلق لوگوں میں آگاہی پیدا کرنا اور ملٹریو اپوزیشن کے درمیان ڈیل پر چہ مگوئیاں کرنا۔ پچھہتر سال سے ہر حکومت انہیں باتوں کے ہیر پھیر میں رہی ہے۔ جس کے نتیجے میں یا تو ان کا وقت وضاحتیں دیتے گزر گیا یا عدالتوں کے چکر کاٹتے۔ ہماری عدالتیں حکومت وقت کے خلاف کارروائیاں کرنے میں خاص مہارت رکھتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران ان کے آدھے سے زیادہ وزرا پانچ سال عدالتوں کا چکر کاٹتے رہے۔ اسی طرح پی ایم ایل این کی حکومت جسٹس ثاقب نثار کی گرفت میں ایسی آئی کہ جب تک میاں نواز شریف کو نا اہل ثابت نہیں کر دیا جان نہیں چھٹی۔ پی ٹی آئی کی حکومت اس گرداب سے ابھی تک محفوظ ہے۔ معاملہ صرف یہ ہے کہ بے ایمانی میں ملوث پی ٹی آئی کے عناصرکی پہنچ اوج ثریا تک ہے اوروہاں عدالتوں کے پر جلتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان یہ کہہ کر سبکدوش ہو جائیں گے کہ انکی حکومت احتساب کے پہیے کو چلانے میں ناکام رہی۔ پی ٹی آئی کا بیانیہ تو شروع سے آخر تک کرپشن کو مٹانے اور اس میں ملوث شخصیات کو سزا دینے پر مشتمل تھا۔ بحیثیت اپوزیشن لیڈر عمران خان اقتدار میں آکر نوے دن میں کرپشن ختم کر نے کی باتیں کرتے۔ ترکیب کا علم عمران کے پاس بھی نہیں تھا یا شائد وہ یہ سمجھتے تھے کہ جب ایک مخلص اور ایماندار شخص ملک کے سب سے بڑے عہدے پر فائز ہوگا تو نچلی سطح پر انصاف دینے اور فراہم کرنے کا سلسلہ اپنے آپ شروع ہو جائے گا اور یوں اس سوتے سے پورا ملک سیراب ہو کر پاکستان کو ایک نیا پاکستان بننے کا شرف عطا کریں گا۔ لیکن اب تو وزیر اعظم خود کہہ رہے ہیں کہ احتساب کا عمل پچھہتر سال پرانی ڈگر پرگامزن ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ سیاست دانوں کو سزا نہیں دی جاسکتی۔ شائد اس کی وجہ سیاست دانوں، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، صنعت کاروں اوربیوروکریسی کا وہ گٹھ جوڑ ہے جہاں سب ایک دوسرے کے کانے ہیں۔ اگر عمران خان واقعی اس قدر مجبور ہیں کہ چاہتے ہوئے بھی انصاف قائم نہیں کر سکتے تو وہ ایک کام تو کر ہی سکتے ہیں۔ اپنی صفوں سے ان تمام لوگوں کو باہر نکال دیں جن کے جرائم سامنے آ چکے۔ بہت سے وزرا نے بغیر ہوم ورک کئے ملک کو ایسا نقصان پہنچایا کہ ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ اب اسے معصومیت کہیں یا نااہلی جب وزیر اعظم کہتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت مضبوط ہونے لگتی ہے تو ڈالر مہنگا ہو جاتا ہے۔ اتنا حساب تو اکنامکس جانے بغیر بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب ملک میں امپورٹ بڑھے گی تو ڈالر کی قیمت ڈیمانڈ اور سپلائی کے اصول کے تحت اوپر جائے گی۔ اس وقت حال یہ ہے کہ گندم، چینی، گیس، کھاد جیسی چیزیں در آمد کی جارہی ہیں۔ جن پر اربوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ ملک جن اشیا کو پیدا کرنے کا اہل ہے، نہ صرف اہل ، بلکہ تھوڑی کوشش کریں تو انہیں ایکسپورٹ کرنے کی بھی قابلیت پیدا کر سکتا ہے، انہیں درآمد کیا جارہا ہے۔ فواد چوہدری کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وزیر اعظم کو کابینہ اجلاس میں غلط اعدادو شمار دکھائے جاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں غلط فیصلے ہوتے ہیں اور خمیازہ مہنگائی کی صورت میں عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ لیکن ‘‘ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے‘‘ کے مترادف وزیر اعظم ان سب ہیرا پھیریوں سے انجان نظر آتے ہیں۔ سوشل سیکٹر میں یقینا حکومت نے ایسے اقدامات کئے ہیں جو مستقبل میں اکانومی پر مثبت طور سے اثر انداز ہو سکتے ہیں لیکن ان کی افادیت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ انٹر سیکٹورل ریفارمز کی پالیسی اپنائی جائے۔ اگر حکومت صحت سہولیات کی فراہمی اور انہیں سستا کرنے کی منطق پر یقین رکھتی ہے تو پھر صاف پانی کی فراہمی اور پرائمری ہیلتھ کیئر کی ترقی پر بھی ساتھ ہی کام کرنا ہوگا۔ ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان میں چالیس فیصد اموات گندا پانی پینے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اسی طرح پرائمری ہیلتھ کیئرکا سسٹم شروع ہی میں بیماریوں کا سد باب کر دیتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے حکمرانوں نے ٹرشری ہسپتالوں کی تعمیر پر ہمیشہ زور دیا ،جیسے کہ پی کے ایل آئی۔ اگر اس بات پر زور دیا جاتا کہ لوگ جگر اورگردے کے امراض میں کم سے کم مبتلا ہوں تو اربوں روپے کے یہ سفید ہاتھی کھڑ ے کرنے کی نوبت نہ آتی اور نہ ہی پرائیویٹ میڈیکل سیکٹر اپنی تمام تر بے ایمانیوں کے باوجود کامیاب ہوتا۔ ایک مخلص لیڈر کی پہچان اسکی ٹیم کی کارکردگی سے ہوتی ہے۔ صرف لیڈر مخلص ہو اور اس کی ٹیم کو ہر لال پیلا کرنے کی اجازت ہو اور پھر ان پر گرفت بھی نہ ہوتو اسے ایمانداری نہیں بلکہ کچھ اور کہا جاتا ہے۔ عمران خان یہ کہہ کر سبکدوش نہیں ہو سکتے کہ وہ احتساب کے عمل میں شفافیت لانے میں ناکام رہے۔