ہم میں کون مجرم ہے اور کون بے گناہ و بے قصور ہے۔ اس کا فیصلہ کون کرے؟ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ اس نوعیت کے فتوے یا سرٹیفکیٹ کرنے کے بجائے اپنے شعبے کا کام کیا جائے جو ذمہ داری آن پڑی ہے، اسے ہم محنت، محبت، خلوص اور ایمان داری سے پوری کریں۔ سیاست دانوں کی نالائقی اور بے عملی و بدمعاملگی کے الزامات سنتے سنتے ہمارے کان پک چکے ہیں۔ اسی دشنام طرازی کے سبب ہمیں کتنی ہی بار ’’عزیز ہم وطنو‘‘ سے مخاطب کر کے اصلی جمہوریت کے نفاذ کی خوش خبری سنائی گئی اور اس بنیاد پر کہ سیاست دانوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، نتیجے میں خاکیوں کو اقتدار سنبھالنے کی زحمت اٹھانی پڑی ہے اور اب سب کچھ ٹھیک ہوا چاہتا ہے لیکن ایک ڈیڑھ دہائی کی حکومت میں بھی سب کچھ ٹھیک نہ ہو سکا۔ ادارے مزید تباہ ہو گئے، اختلاف فکر و نظر کے دروازے اور مضبوطی سے بند ہو گئے۔ برداشت کی طاقت جاتی رہی، اسلحے سے حکومت کرنے کے شوق نے مکالمے کی جگہ اسلحے کے زور پر اپنی بات منوانے کے ذوق کو عام کیا۔ پس پتا چلا کہ زوال و انحطاط کی بڑھتی ہوئی صورت حال کے ذمہ دار محض کوئی ایک طبقہ نہیں، ہم سبھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ دوسرے کو بے ایمان و بدنیت سمجھنا اور خود کو پارسا اور متقی گرداننا اچھے کاموں کو بھی بے برکت بنا دیتا ہے جو بیانیہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے تھا، اقتدار میں آنے کے بعد بھی اسی بیانیے سے عوام میں ہر دلعزیزی حاصل کرنے کی کوشش یا اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کی جستجو کوئی معقول طرز عمل نہیں جو نااہل تھے ان کی نااہلی معلوم، عوام نے اسی لیے حکومت کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر ڈالی اب یہ آپ کی دانش مندی اور مہارت کا تقاضا ہے کہ اپنے دعوئوں کو سچ کر دکھائیں، اب کسی کو مجرم اور نالائق کہہ کر آپ اپنی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتے۔ اگر ملک میں بدعنوانی اور بے ایمانی عام ہے تو اس میں صرف سیاست دان اور سابق حکمران ہی شریک نہیں۔ یہ حیثیت مجموعی پورا معاشرہ بالواسطہ یا بلاواسطہ اس میں شریک ہے۔ خود آپ کی پارٹی میں بھی ایسے سیاست دان موجود ہیں جو عدلیہ سے نااہل قرار دیئے جا چکے ہیں اور وہ پوری طرح آج بھی آپ کی ناک کا بال بنے ہوئے ہیں لہٰذا اپنے تقویٰ کے دعوے نہ کیجئے، یہ اللہ ہی کو معلوم ہے کہ ہم میں کون متقی ہے؟ ملک کو پہلی بار مکمل مارشل لاء کی آغوش میں ڈالنے والے جنرل ایوب خان نے بھی بدعنوان سیاست دانوں کو نکیل ڈالنے کے لیے پروڈا اور ایبڈو کے آرڈیننس جاری کئے تھے تاکہ ملک کو بدعنوان سیاست دانوں سے پاک کیا جا سکے۔ لیکن اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ وقتی طور پر تو ایوب حکومت کے لیے میدان صاف ہوگیا لیکن آخر آخر کو پھر ان سیاست دانوں کو سامنے آنا پڑا اور ایوب خان کے خاندان پر بدعنوانی کا داغ لگا اور انہیں حکومت چھوڑ کر گوشہ گمنامی میں جانا پڑا۔ ان میں جنرل ایوب کا واقعہ ہے کہ ان سے پٹواریوں کی بددیانتی اور سخت گیری کی شکایت کی گئی تو جنرل نے جواب دیا کہ ملک میں ساٹھ ہزار پٹواری ہیں۔ آپ اتنی تعداد میں ایمان دار پٹواری فراہم کر دیجئے، میں موجودہ پٹواریوں کو ہٹا دیتا ہوں۔ یہ جواب شکایت کرنے والوں کو لاجواب کردینے کے لیے کافی تھا۔ پس معلوم ہوا کہ بدعنوانی کا قصہ کوئی نیا نہیں۔ اختیار و اقتدار کے ساتھ بدعنوانی و بدمعاملگی کی پخ ہمیشہ سے لگی رہی ہے کہ میں کسی بدعنوان کو نہیں چھوڑوں گا، ان سب سے جیلیں بھردوں گا، گیدڑ بھبھکی کے سوا کچھ نہیں۔ کرپشن اور بدعنوانی ملک کی رگوں میں اس طرح سرایت کر چکی ہے کہ اس کی اصلاح و درستگی کے لیے پانچ دس سال کی مدت بھی ناکافی ہے۔ اس کا آسان ترین علاج یہ ہے کہ بدعنوانوں پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے ایمان داروں کی ساکھ کو بحال کیا جائے۔ آج بھی معاشرے اور حکومت میں ایمان داروں اور دیانت داروں کی کمی نہیں۔ دولت کی پوجا اور پرستش میں سب کچھ کر گزرنے والوں نے ایمان داری اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کو نکھٹو بنا دیا ہے۔ انہیں اپنے اہل خانہ سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ آپ کی ایمانداری نے ہمیں کیا دے دیا؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے لوگوں کی اخلاقی ساکھ بحال کی جائے، انہیں انعام و اکرام سے نوازا جائے، اس طبقے کو دوسروں کے لیے نمونہ عمل یا رول ماڈل بنایا جائے۔ آج معاشرہ اتنا بگڑ چکا ہے کہ کرپٹ عناصر برطرف دندناتے پھرتے ہیں۔ اول تو وہ پکڑے نہیں جاتے اور پکڑے جائیں تو سزا نہیں ملتی، جلد یا بدیر چھوٹ جاتے ہیں اور اکثر تو کہتے ہیں کہ نیب کے کس افسر میں مجھے گرفتار کرنے کی ہمت ہے؟ اصل ضرورت معاشرے کی ازسرنو تعمیر کے لیے حکمت عملی وضع کرنے کی ہے۔ حکمت عملی وضع کئے بغیر محض بیان بازی اور ڈراوے اور دھمکی سے کچھ نہیں ہونے کا۔ برسراقتدار آنے سے پہلے جس طرز حکمرانی پر ہزار گمنام اعتراضات تھے، اقتدار میں آنے کے بعد وہی اعتراضات اب معذرتیں بن چکی ہیں۔ تو کیا یہ اندازہ نہ تھا کہ ملک کن بحرانوں میں گھرا ہے اور کتنے بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔ اب کوشش اتفاق رائے پیدا کرنے کی ہونی چاہیے۔ مثبت نقطہ نظر اختیار کرنے کی ہے۔ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی بجائے اسے مطعون اور ذلیل کرنا کوئی صحت مند رویہ نہیں۔ اس ملک کو سب کے ساتھ مل کر اور سب کو ساتھ ملا کر ہی تعمیر کیا جاسکتا ہے۔ بڑھکیں مارنے اور دوسروں پر دشنام طرازی سے آپ اپنے لیے کوئی نرم گوشہ پیدا نہیں کرسکتے۔ ’’جو ہوا سو ہوا، اب معاملات ٹھیک ہونے چاہئیں اور سب کو ٹھیک طریقے سے چلنا چاہیے۔‘‘ کا طرز عمل اختیار کرکے ہی آپ اپوزیشن کا تعاون حاصل کرسکتے ہیں۔ آپ مدینہ کی ریاست کے مثل ملک کو بنانا چاہتے ہیں تو کیا یہ یاد دلانے کی ضرورت ہوگی کہ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ نے عام معافی کا اعلان فرمایا تھا۔ فتح کے نشے میں چور ہونے کے بجائے انکسار سے آپ کے مبارک کندھے جھکے ہوئے تھے اور دشمن اسلام ابو سفیان کے گھر کو آپ بے پناہ گاہ بنا دیا تھا۔ اس عام معافی کی جگہ آپ کی پکڑ دھکڑ اس لیے بھی بے معنی ہوگی کہ آپ کس کو پکڑیں گے اور ملکی نظام میں پکڑنے اور مجرموں کوسزا دینے کے جو قوانین، ان کے نفاذ میں جو کمزوریاں ہیں، وہی تو سب سے بڑی رکاوٹ ہیں کہ ایک معروف کرپٹ مجرم آٹھ برس تک جیل میں عیش و عشرت کی زندگی گزار کر رہا ہوتا ہے اور اس پر کوئی جرم ثابت ہی نہیں ہوتا۔ تازہ ترین مثال میں بھی ایک سابق وزیراعظم اپنی صاحبزادی کے ساتھ گرفتاری کے بعد باآسانی چھوٹ جاتے ہیں۔ جب تک بڑے مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالنے کی قوت نہیں آ جاتی۔ عدلیہ اور پولیس کا نظام اور قوانین میں موجود خلا دور نہیں ہوتا، وہ صفائی ممکن ہی نہیں، جو آپ چاہتے ہیں اور جس کا دعویٰ بھی کرتے رہتے ہیں۔ معروضی حقائق کے ادراک کے بغیر اور عملی مشکلات کو دور کئے بغیر اس طرح کی بیان بازی کے سیاست دانوں کی اکثریت مجرم ہے، کوئی معقول انداز فکر نہیں۔ جہاں سختی کی ضرورت ہو وہاں بے شک سختی ہونی چاہیے اور جہاں نرمی محبت اور خوش خلقی سے کام نکلتا ہو وہاں یہی رویہ اور یہی طرز عمل اختیار کرنے میں دانش مندی ہے۔ حضرت امیر معاویہؓ فرمایا کرتے تھے کہ جہاں زبان سے کام نکلتا ہو وہاں میں تلوار نہیں اٹھاتا۔ اپوزیشن لیڈر کے بیانیے میں اور وزیراعظم کے بیانیے میں واضح فرق نظر آنا چاہیے۔ آپ نے اپنی ذات سے احتساب کا آغاز کرتے ہوئے گورنر ہائوسوں کو عوام کے لیے کھول دیا۔ وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا، بہت اچھا کیا۔ وزیراعظم کے زیراستعمال گاڑیوں کا نیلام کیا اور بھی اچھا کیا۔ لیکن عوام آپ سے اس سے زیادہ توقعات رکھتے ہیں۔ مہنگائی پر کنٹرول، امن و امان کا قیام، قانون کی عمل داری، گڈگورننس، سیاسی کشیدگی اور باہمی منافرت کا خاتمہ وہ ضرورتیں ہیں کہ جنہیں ترجیحی بنیادوں پر عمل میں آنا چاہیے۔ جب تک یہ معاملات درست نہ ہوں گے، عوام میں بے چینی باقی رہے گی۔ اس وقت ملک میں عجیب آپا دھاپی کا سماں ہے۔ سپریم کورٹ، نیب اور نومنتخب حکومت تینوں اپنے اپنے دائرے میں اور بعض صورتوں میں اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرتے ہوئے کام کر رہے ہیں جس کی وجہ سے الجھنیں اور شکوک و شبہات پیدا ہورہے ہیں۔ اس صورت حال کی بھی اصلاح ضروری ہے۔ قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا کئے بغیر نئی حکومت بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکتی اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ موجودہ حکومت موجود سیاست دانوں کو اپنے گڈگورننس سے اور ان پر دشنام طرازی سے ان کی عوامی جڑوں کو کاٹ ڈالے گی تو یہ محض خام خیالی ہے۔ یہ سیاست دان اپنی پارٹیوں کے ساتھ نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے سے عوام سے جڑے ہیں۔ عوام سے ان کا تعلق اور رشتہ دوچار پانچ برسوں کا نہیں جو آسانی سے منقطع ہو جائے۔ محض انتخابات کے نتائج بھی یہی بتاتے ہیں کہ نومنتخب حکومت کے لیے آزمائشیں اور اامتحانات بہت سخت ہیں اور ان پر پورا اترنے کے لیے انہیں بہت کچھ کرنا ہوگا اور کچھ بھی کرنے کے لیے انہیں سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اکیلا چنابھاڑ نہیں پھوڑ سکتا۔