وفاقی کابینہ نے زیادتی کے واقعات میں ملوث مجرموں کے لیے سخت سزائوں پر مشتمل سفارشات کی منظوری دے دی ہے۔ بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے مرتکب افراد کے لیے سزائوں اور جرائم کی تشریحات سمیتنئی سفارشات میں سزائے موت کی شق بھی شامل کی گئی ہے۔ کابینہ کی منظور کردہ سفارشات کو اینٹی ریپ (انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) آرڈیننس 2020ء اور تعزیرات پاکستان (ترمیمی) آرڈینس 2020ء کا نام دیا گیا ہے۔ وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا ہے کہ کئی ممالک میں جنسی مجرموں کو نامرد بنانے کے قوانین موجود ہیں۔ وزیر قانون کا کہنا ہے کہ زیادتی کے مجرموں کا ڈیٹا بیس بھی بنایا جائے گا‘ ایسے مجرموں کی تفصیلات نادرا ریکارڈ کا حصہ بنائی جائیں گی۔ بیرسٹر فروغ نسیم کے مطابق مجوزہ قانون کے تحت 10 سے 25 برس قید کے علاوہ تاحکم قید اور موت کی سزائیں بھی ہوں گی۔ قانون کے اجرا کے لیے پارلیمنٹ کا سیشن نہ ہونے کی وجہ سے آرڈیننس جاری کیا جائے گا۔ جنسی استحصال کا شکار ہونے والے بچوں کی درست تعداد سرے سے دستیاب ہی نہیں کیونکہ سماجی شرم و حیا کی وجہ سے اکثر واقعات سامنے نہیں لائے جاتے جس کے باعث مجرم سزا سے بچ جاتے ہیں۔ جائزہ رپورٹ کے مطابق جنسی زیادتی بچوں کے ذہنوں پر ایسے نفسیاتی زخم چھوڑتی ہے جس سے اِن کی شخصیت نہ صرف جارحانہ ہو جاتی ہے بلکہ وہ ذہنی تناوکا شکار ہو کر منشیات اور بعض اوقات خودکشی کا راستہ اپنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔پنجاب اور سندھ کی ہی بات نہیں کے پی کے اور بلوچستان میں بھی جنسی زیادتی عام ہو رہی ہے ۔بلوچستان میں چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ 2016ء میں منظور ہوا ہے مگر اس پر تھوڑا بہت عملدرآمد تین سال بعد کیا گیا ہے جس میں رواں سال پہلا چائلڈ پروٹیکشن یونٹ کوئٹہ میں قائم کیا گیا،اس ادارے کا بنیادی مقصد تشدد و زیادتی کے سامنا کرنے والے بچوں کو قانونی وسماجی تحفظ فراہم کرنا ہے۔ بچوں کے ساتھ حالیہ زیادتیوں کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا موثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، آنے والی نسلوں کو محفوظ رکھنے کیلئے معاشرے میں ایک مربوط نظام ترتیب دیا جائے جس میں ہر طبقہ اپنا کردار ادا کرے۔ علماکرام کی بات سنی جاتی ہے ، این جی اوز آگاہی مہم چلائیں،میڈیا اس میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ والدین اور اساتذہ کا کردار تو بنیادی ہے،ویڈیوز کی شکل میں نصاب ترتیب دیا جائے اور بچوں پر کسی بھی قسم کا تشدد ناقابلِ معافی جرم قرار دیا جائے۔ پوری دنیا میں چائلڈ پورنوگرافی کی لعنت پھیل رہی ہے۔حال ہی میں سرگودھا سے پکڑے گئے چائلڈ پورنو گرافی گروہ کے سرغنہ کو سزائے موت دی گئی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قانون کے تحت جنسی زیادتی ایک قابلِ سزا جرم ہے۔ قانون کے تحت ایسے مجرموں کو سزائے موت اور 10 سے 25 سال تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔دوسری جانب اجتماعی زیادتی کے کیسز میں سزا صرف سزائے موت یا عمر قید ہوسکتی ہے جبکہ سزا دینے سے قبل ڈی این اے ٹیسٹ اور دیگر طبی ثبوت سامنے رکھے جاتے ہیں تاکہ جرم ثابت ہوجائے۔ حکومتِ پاکستان نے ملک بھر میں خصوصی عدالتیں قائم کر رکھی ہیں جن کا مقصد خواتین کے خلاف ظلم و تشدد اور جنسی زیادتی جیسے واقعات پر فوری انصاف کی فراہمی ہے۔تقریباً 14 برس قبل 15 نومبر 2006ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے ویمن پروٹیکشن بل کی منظوری دی جس کے تحت حدود آرڈیننس میں ترامیم کی گئیں۔ نئے بل کے تحت جنسی زیادتی کے مجرموں کیلئے سزائے موت کو قانون میں شامل کیا گیا۔ جنسی زیادتی ثابت کرنے کیلئے 4 گواہوں کی شرط بھی ختم کردی گئی۔ جنسی زیادتی کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں اور اس میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔ اس کی چار وجوہات ہیں: پہلی ہماری اقدار، جس میں عزت اس کی لٹتی ہے جس کے ساتھ یہ ظلم کیا جاتا ہے اور جس نے کیا ہوتا ہے معاشرے کی نظر میں پاک صاف ہی رہتا ہے۔ دوسرے انصاف مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ تیسرے جنسی خواہش، جو ایک بنیادی ضرورت ہے، کا حلال طریقے سے پورا نہ ہونا۔ ہمارے معاشرے میں شادی کو شدید مشکل بنادیا گیا ہے۔ اس وقت پاکستان کی صورت حال یہ ہے کہ بلوغت کے دس دس، پندرہ پندرہ سال تک لڑکے کنوارے گھومتے ہیں اور کسی طبقے میں بھی نوجوانوں کی اس بنیادی ضرورت کا ادراک نظر نہیں آتا۔ لڑکیاں بوڑھی ہورہی ہیں لیکن ان سے زیادہ عمر کے بھائی کی شادی محال ہوتی ہے۔قصور کی معصوم بیٹی زینب سے لے کر تادم تحریر بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات جس سفاکیت سے سامنے آئے ہیں وہ سماجی اور قانونی سطح پر قانون کی بالادستی کو ناکام ثابت کرتے ہیں۔ بلاشبہ پنچایتیں اور جرگے کچھ امور میں لوگوں کو فوری انصاف فراہم کرتے ہیں مگر زیادتی کے معاملات میں ان کے فیصلے اس ظلم کی حوصلہ افزائی کا باعث بنے ہیں۔حکومت کی جانب سے نئی قانون سازی خواتین اور بچوں کے تحفظ کے سلسلے میں اس کی تشویش کا پتہ دیتی ہے تاہم کچھ قانون اور سماجی معاملات پر ازسرنو غور کرلینا چاہیے کہ جس شخص کو نامردبنایا جائے گا اسے سماج میں آزاد چھوڑ دیا گیا تو وہ زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے‘ اسے نامرد بنانے کے ساتھ اگر قید رکھا گیا تو یہ ایک جرم میں دو سزائوں کا معاملہ ہو جائے گا جس کی قانون اجازت نہیں دیتا۔ پھر یہ سوال بھی اہم ہے کہ آج تک زیادتی کے جتنے مقدمات عدالتوں میں پہنچے ان کی بڑی تعداد ناقص تفتیش کے باعث مظلوم کو انصاف فراہم کرنے سے قاصر رہی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ زیادتی کے واقعات کی تفتیش کے لیے قانونی طور پر چند ایس او پیز مقرر کئے جائیں جن کی خلاف ورزی پر تفتیشی عملے کے خلاف کارروائی ممکن ہو۔