پنجاب کے ارکان اسمبلی کو عمران خان کے سابق دوست بلکہ یار غار جہانگیر ترین کا شکریہ ادا کرنا چاہیے ‘جس نے بجٹ اجلاس سے قبل دو درجن ارکان کا گروپ بنا کر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان خان بزدار کا ’’تراہ‘‘ نکالا اور یہ اعلان کرنے پر مجبور کیا کہ ہر رکن اسمبلی پیشگی وقت لئے بغیر جب چاہے وزیر اعلیٰ سے مل سکتا ہے ‘2014ء میں عمران خان نے ڈی چوک میں دھرنا دیا تو ابتدا میں میاں نواز شریف اور ان کے وزیروں مشیروں نے اپنے حریف کا مذاق اڑایا اور طرح طرح کی باتیں کیں مگر ایک وقت ایسا آیا کہ حکومت کے چل چلائو کی باتیں ہونے لگیں‘ جی کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا ‘کا مصرعہ زبان زد عام ہوا اور میاں نواز شریف جو اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کو کسرشان سمجھتے تھے نہ صرف سارا سارا دن قومی اسمبلی میں بیٹھ کر مخالفین کی کڑوی کسیلی باتیں سنتے بلکہ پیپلز پارٹی اور دیگر مخالف گروپوں کے ارکان کی ناز برداری بھی کرتے‘ ایسے ہی ایک اجلاس میں بیرسٹر اعتزاز احسن نے گائوں کے اتھرے نوجوان کا لطیفہ سنایا‘ جس سے پورا گائوں تنگ تھا اور وہ ماں کی بھی ایک نہ سنتا‘ ماں سمجھانے کی کوشش کرتی تو تلخ کلامی پر اُتر آتا‘ علاقے کے تھانیدار کو شکایات ملیں تو وہ گائوں چلا آیا‘ نوجوان کو بلایا اور اس کی ٹھکائی شروع کر دی‘ دو ہی ڈنڈے پڑے تھے کہ نوجوان کے منہ سے بے ساختہ ’’ہائے ماں‘‘ کا لفظ نکلا‘ قریب کھڑی ماں نے سن کر تھانیدار کی بلائیں لیں اور کہا ’’صدقے وے تھانیدارا تو نے اس اتھرے کو ماں یاد دلا دی‘‘ جہانگیر ترین گروپ تشکیل نہ پاتا تو وزیر اعلیٰ ہائوس کو ارکان اسمبلی کہاں یاد آتے اور انہیں وقت طے کئے بغیر ملاقات کا موقع کون دیتا ؎ مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دور جام ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں! بلا شبہ عمران خان کو بلا تفریق احتساب‘ کرپشن کے خاتمے اور میرٹ کی بالادستی کے نعرے پر ووٹ ملے اور احتساب میں اپنے پرائے کی تفریق نہیں ہوتی لیکن تحریک انصاف کے ایجنڈے میں یہ کہیں نہیں لکھا تھا کہ پنجاب میں مانگے تانگے کی اکثریت سے قائم ہونے والی حکومت ارکان اسمبلی کو لفٹ کرائے گی‘ نہ اپنے حلیفوں سے کئے گئے عہد و پیمان کی پاسداری کرے گی اور نہ کارکنوں کو منہ لگائے گی‘ سدا بہار پارلیمنٹرین رانا پھول خان مرحوم کا اس وقت کے وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں مرحوم سے ایک مکالمہ میں کالم میں درج کر چکا ہوں‘ قندمکرّر کے طور پر دوبارہ پڑھ لیجیے۔ رانا پھول خان ایک دن ایم اے پاس خاتون کو وزیر اعلیٰ کے پاس لے گئے کہ اسے کسی ادارے میں ملازمت دیدیں۔ وائیں صاحب میرٹ کے دلدادہ تھے اور میاں شہباز شریف کی مرضی و اجازت کے بغیر ایک تنکا توڑنے کو گناہ سمجھتے تھے۔ جھٹ سے بولے رانا صاحب آپ کو علم ہے کہ ملازمت میرٹ پر ملتی ہے‘ سفارش پر نہیں‘ رانا صاحب یہ ٹکا سا جواب سن کر کہاں خاموش رہنے والے تھے‘ بولے وائیں صاحب کہاں کا میرٹ؟ میں پرائمری پاس ہوں اور آپ میٹرک‘ وہ بھی معلوم نہیں فیل یا پاس‘ آپ وزیر اعلیٰ ہیں اور مجھے آپ نے وزیر بنا رکھا ہے‘ ہم کون سے میرٹ پر ان عہدوں کے حق دار ہیں ‘یہ بے چاری تو پھر بھی ایم اے ہے‘ چھوڑیں میرٹ کی رٹ اور نوکری دیں‘ تحریک انصاف کی میرٹ لسٹ میں عثمان بزدار وزارت اعلیٰ کے لئے فٹ بیٹھتے ہیں اور جہانگیر ترین کو پانچ سال تک خیبر پختونخواہ میں کاروبار کرنے کے علاوہ حکومتی معاملات میں دخل اندازی کا حق تھا تو اب کون سی اڑچن پڑ گئی ہے ؎ ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند گستاخیٔ فرشتہ ہماری جناب میں! گزشتہ روز ایک ٹی وی چینل پر سینیٹر فیصل واوڈا کی گفتگو سن کر عمران خان کی سیاسی مشکلات کا سبب معلوم ہوا‘ موصوف نے ارشاد فرمایا کہ جہانگیر ترین کا گروپ ایک ایس ایچ او کی مار ہے اور یہ بے چارے کہیں نہیں جا سکتے۔ یہ رعونت اور عامیانہ انداز گفتگو تحریک انصاف کی کشتی کا وہ بوجھ ہے جس نے پونے تین سال تک حکومت کو کولہو کا بیل بنائے رکھا‘حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ۔ سینٹ کے انتخابات سے سبق حاصل کرنے اور ارکان اسمبلی کو سینے سے لگانے کے بجائے انہیں عین اس وقت زبان کے زخم لگائے جا رہے ہیں جب بجٹ سر پر ہے اور حکومت کا مستقبل چند ارکان اسمبلی کے ہاتھ میں‘ مرکز اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں دس بارہ ارکان کی بے اعتنائی وفاقی اور صوبائی حکومت کا دھڑن تختہ کر سکتی ہے مگر فیصل واوڈا جیسوں کی بلا سے‘بھگتنا تو عمران خان نے ہے ‘چند روز قبل وزیر اعظم کے ایک مشیر سے پوچھا کہ جہانگیر ترین گروپ کو راضی کرنے کے لئے کیا تگ و دو ہو رہی ہے تو موصوف کا جواب تھا کہ ’’ عمران خان کی یہی تو خوبی ہے کہ وہ کسی سے بلیک میل نہیں ہوتے‘ وہ حکومت کو گنوا دیں گے مگر بلیک میل نہیں ہوں گے‘‘سن کر حیرت ہوئی کہ ڈیڑھ پونے دو کروڑ ووٹروں کی تائید و حمایت اور پاکستانی نوجوانوں کی جدوجہد سے وجود میں آنے والی حکومت کو یہ لوگ گنوانا کتنا مفید‘ آسان اور قابل فخر سمجھتے ہیں‘ ذرا احساس نہیں کہ صرف پاکستان نہیں سپر پاورز کے حکمرانوں کو بھی وسیع تر قومی مفاد میں قدم قدم پر سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں اور انا کی قربانی دینی ہوتی ہے۔ ویسے بھی قانون خداوندی یہ ہے کہ خلق خدا پر حکمرانی بطور انعام ملتی ہے یا بطور امتحان‘ جو اسے امتحان سمجھتے اور آزمائش پر پورا اترنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے لئے حکومت انعام ثابت ہوتی ہے اور جو اسے انعام سمجھ کر کھیل تماشے میں مشغول ہو جاتے ہیں ان کے لئے امتحان بن جاتی ہے‘ فیصلہ حکمرانوں نے خود کرنا ہوتا ہے‘سامنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں حکمرانوں نے اقتدار کو انعام سمجھا اور وہ ان کے لئے ہی نہیں قوم کے لئے بھی امتحان ثابت ہوا۔ کل تک بلیک میل نہ ہونے کا دعویٰ تھا مگر آج کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف وزیر اعلیٰ جہانگیر ترین گروپ کے گلے شکوے دور کرنے کے لئے بے تاب ہیں بلکہ وفاقی وزراء بھی پیار محبت کے گیت گا رہے ہیں اور جہانگیر ترین گروپ کی شکایات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی جا رہی ہے بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے؟ دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت جھوٹی انا کو بالائے طاق رکھ کر اپنی صفیں درست کرے‘ روٹھوں کو گلے لگائے پنجاب کو مسلم لیگ(ن) کے لئے آسان چارہ بنانے کے بجائے ناقص حکمت عملی اور قیادت تبدیل کرے کہ وفاقی حکومت کی تشکیل اور قومی سطح پر کامیابی و ناکامی کا دارو مدار سب سے بڑے صوبے میں کارکردگی اور نیک نامی پر ہے۔ گئے وقتوں میں کہا جاتا تھا کہ جس کا ملتان مضبوط اس کا دہلی بھی مضبوط‘ ان دنوں تخت دہلی تک رسائی براستہ ملتان ممکن ہوتی تھی‘ اب یہی اہمیت لاہور اور پنجاب کی ہے۔ جس کا ادراک شریف خاندان کو ہے ۔آصف علی زرداری کی طرح عمران خان بھی شائد اسے افسانہ سمجھتے ہیں‘ ورنہ تخت لاہور بازیچہ اطفال نہ بنتا۔ میاں شہباز شریف کے متحرک ہونے کے بعد مسلم لیگ ن کی سیاست ازسر نو انگڑائی لے رہی ہے اور چودھری نثار علی خاں کے حلف اٹھانے کے بعد پنجاب کی پالیمانی سیاست میں مزید ہلچل کا امکان ہے۔ جہانگیر ترین گروپ اگر علی ظفر رپورٹ سے مطمئن اور مرکزی و صوبائی حکومت کی طفل تسلیوں سے رام نہ ہوا تو جون کا مہینہ واقعی نئی رتوں کی نوید ثابت ہو گا‘ چودھری برادران کا کردار فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے کہ وہ بھی پنجاب کی حکمرانی پر حق شفعہ رکھتے ہیں اورپنجابی کہاوت کے مطابق مسلم لیگیوں کی نانی ایک ہوتی ہے۔