دو تین چھوٹے چھوٹے گفتنی واقعات تو سنتے ہی چلیے۔ انہی سے اندازہ بھی ہو جاے گا کہ عمر بھر میں، کتنے لوگ "ضائع" ہوے ہوں گے! ایک نہایت مشہور لیڈر، جن کی اہلیہ اب اس دنیا میں نہیں، شکایت کرنے لگے کہ میری بیگم مجھے ماہانہ، صرف ایک لاکھ روپے دیتی ہیں۔ اظہر صاحب نے ترنت کہا کہ آپ فورا اپنی بیوی بدل ڈالیے! ایک روز فون پر وزیر ِاعظم بے نظیر بھٹو سے گفت گو ہو رہی تھی۔ اظہر صاحب نے کسی خصوص میں زرداری صاحب کا ذکر کیا۔ اس پر، زرداری صاحب، جو متوازی لائن پر خاموشی سے یہ گفت گو سن رہے تھے، بول اٹھے کہ کیوں مروا رہے ہو مجھے! اظہر صاحب نے جھٹ کہا کہ اچھا! تو عورتوں کی طرح، آپ بھی چھپ چھپ کر باتیں سنتے ہیں! گھر میں پلمبنگ کا کوئی مسئلہ تھا، محلے کی انتظامیہ کو اطلاع دے دی گئی۔ کچھ دیر بعد انتظامیہ کا کوئی کارکن، غالبا الیکٹریشن، گھر آیا اور پنجابی میں بتایا کہ سر جی! بندہ کوئی نہیں ہے۔ اس پر بڑے رسان اور پیار سے کہا۔ "تھوڑی دیر کے لیے، آپ ہی بندے بن جائیں!"۔ یہ کہنا سراسر مبالغہ ہو گا کہ ان کی شخصیت بڑی پہلو دار تھی۔ بالکل سیدھے اور سادے آدمی تھے۔ نہ کھانے پینے میں زیادہ اہتمام اور نہ کپڑے لتے پر خاص توجہ۔ ایک رپورٹر کی کْنج کاویاں بجا، مگر یہ تجسس کبھی نہ ہوا کہ فلاں ہمسایہ کس ماڈل کی گاڑی میں دفتر جاتا ہے۔ انہیں اگر کوئی چیز متاثر کرتی تھی تو وہ تھا علم و فضل! اس کے اعتراف میں، انہیں کبھی تامل نہیں ہوا۔ اپنے ایک دوست کو، جو عمر میں کم از کم دس برس چھوٹے تھے، پیار سے "پروفیسر" کہا کرتے تھے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کی علمیت اور ادبیت کے، اظہر صاحب قائل تھے، وہ بھی اظہر صاحب کے مداح نکلے! مشتاق احمد یوسفی کو، وہ ادیب العصر کہتے تھے۔ یوسفی صاحب نے "آب ِگم" کا نسخہ، انہیں تحفتا اس تحریر کے ساتھ بھیجا۔ "پاکستان کے سب سے باخبر اور دنیاے صحافت کے سب سے محسود کالم نگار، اظہر سہیل کے لیے، دعاے خیر کے ساتھ! مشتاق احمد یوسفی"۔ قدرت اللہ شہاب کی "یا خدا" پر انہوں نے اوائل ِجوانی میں، کوئی ڈیڑھ صفحے کا تبصرہ لکھا تھا۔ شہاب مرحوم کو وہ اتنا پسند آیا کہ "شہاب نامہ" میں، اسے محمد حسن عسکری کے تبصرے کے ساتھ جگہ دی گئی۔ آپ "شہاب نامہ" پورا پڑھ جائیے۔ انشاء پردازی کے اعتبار سے، ہزار صفحے کی کتاب میں، یہ ڈیڑھ صفحے ممتاز نظر آئیں گے۔ معروف ناول نگار عبداللہ حسین کے بھی، والد ِمرحوم مداح تھے۔ میریٹ اسلام آباد میں، یہ واقعہ میرے سامنے ہوا۔ عبداللہ صاحب، چند لوگوں کے جھرمٹ میں، کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ والد صاحب آگے بڑھے اور پنجابی میں کہا کہ میرا نام اظہر سہیل ہے اور آپ کا مداح ہوں! عبداللہ حسین نے چونک کر کہا۔ "آپ اظہر سہیل ہیں؟ تو جتنے آپ میرے مداح ہیں، اس سے زیادہ میں آپ کا مداح ہوں!" مشہور کالم نگار جاوید چودھری نے کسی انٹرویو میں اظہر صاحب کے بارے میں کہا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں، کسی صحافی کی تحریر، اتنی دلکش نہیں دیکھی۔ کچھ ایسی ہی بات، برادرم رئوف کلاسرا سے بھی سن چکا ہوں۔ جو آخری چار کالم ان کے قلم سے نکلے، ہر اعتبار سے شاہکار تھے۔ ان کالموں میں، انہوں نے صدر فاروق لغاری کو بار بار "چوٹی کے سردار" لکھا تھا۔ یہ تو معلوم تھا کہ فاروق لغاری کا تعلق، چوٹی کے علاقے سے ہے۔ لیکن "چوٹی کے سردار" کا عقدہ کئی برس بعد، اس وقت کھلا جب مولانا احتشام الحق حقی اور نیاز فتح پوری کا قلمی معرکہ نظر سے گزرا۔ مولانا نے اس میں، نیاز صاحب کو "چوٹی کا ادیب" لکھا تھا۔ اب یہ پڑھنے والے کی صوابدید ہے کہ اسے مششد پڑھے یا بغیر تشدید کے! ظفر اقبال صاحب، میرے نزدیک، اردو کے تین بڑے غزل گوئوں میں سے ہیں۔ والد صاحب ان کے مداح تھے۔ اور ظفر اقبال صاحب نے اپنی کتاب ریگ ِرواں کا ایڈیشن، اظہر سہیل کے نام سے مْعنوَن کیا تھا! افتخار عارف صاحب سے ان کی دانت کاٹی روٹی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ کئی بار ایسا ہوا کہ اظہر صاحب کسی فارسی شاعر مثلا بیدل کی غزل سنا رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ کہتے جاتے ہیں کہ دیکھیے یہ شعر کیسا نکالا ہے۔ اچانک فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ یہ ناگواری سے فون اٹھاتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد، پتا چلتا ہے کہ دوسری طرف، وزیر ِاعظم پاکستان سے بات ہو رہی ہے۔ آہستہ آہستہ گفت گو تلخ ہوتی جا رہی ہے۔ اِدھر سے بعض چبھتے ہوے فقرے کہے جا رہے ہیں۔ اور پھر اچانک کسی سخت فقرے کے بعد، نہایت بے زاری سے فون، پٹخ دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد، سلسلہ ء کلام، وہیں سے جوڑا جاتا ہے، جہاں سے ٹوٹا تھا۔ "ہاں! تو افتخار بھائی! بیدل کا یہ شعر بھی دیکھیے!" مجھے دسیوں ہزار شعر یاد ہوں گے۔ لیکن اظہر صاحب کو، شاید اس سے زیادہ صرف فارسی اور عربی کے شعر یاد ہوں گے۔ یہ مبالغہ نہیں، انہیں واقعی ایک لاکھ سے زیادہ شعر یاد تھے۔ دلی کے ایک بزرگ مولوی عبدالسلام ہو گزرے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سو سو بندوں کے مخمس، انہیں ایک دفعہ سْن کر یاد ہو جاتے تھے۔ یہ اگر مبالغہ نہیں تو پھر حافظے کا معجزہ ہے! لیکن یہ ہمارا بارہا کا تجربہ ہے کہ ٹی وی پر مشاعرہ ہو رہا ہے اور اس کے سارے اچھے شعر، انہیں یاد ہوتے جا رہے ہیں! خدا نے، وہ حافظہ جسے فوٹوگرافک کہا جاتا ہے، انہیں بھی عطا کیا تھا! فارسی کی انہیں باقاعدہ تعلیم پہنچی تھی۔ اوریئنٹل کالج لاہور سے، عربی میں ایم اے کیا تھا۔ انگریزی ایم اے کی تیاری کر رہے تھے کہ شادی ہو گئی۔ پانچ کتابوں کے یہ مصنف ہوے۔۔ ان میں سے کوئی کتاب، دو ہفتے سے زیادہ عرصے میں نہیں لکھی گئی۔ یہ ساری کتنی مستند ہیں، اس کی ایک آدھ مثال دیکھ لیجیے۔ "ایجنسیوں کی حکومت" میں وزیر ِاعظم نواز شریف کا یہ فقرہ نقل کیا گیا ہے۔ "میں جونیجو یا بے نظیر نہیں ہوں۔ مجھے موقع ملا تو ان جرنیلوں کو سیدھا کر دوں گا"۔ میاں صاحب کے پچھلے ڈھائی تین برس کے معاملات، کیا اسی کی تشریح نہیں ہیں؟ اسی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ جنرل آصف نواز جنجوعہ مرحوم کو جنرل گل حسن کی طرح، زبردستی معزول کرنے کی تیاریاں کی جا چکی تھیں۔ سن ننانوے میں جنرل پرویز مشرف کو گل حسن اسٹائل میں برطرف کرنے کا واقعہ بھی، دْہرا لیجیے! وہ ہنس کر کہا کرتے تھے کہ میری قسمت میں لکھا ہے کہ خبر مجھ تک ہر صورت پہنچ کر رہے۔ پیر پگاڑا، نواب زادہ نصراللہ، اکبر بگٹی، محمد خان جونیجو، غلام مصطفٰی جتوئی اور بلخ شیر مزاری سمیت، کتنے ہی زعماء کا، ہمارے چھوٹے سے گھر میں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ سن پچاسی سے لے کر ستانوے تک، انتخابات کے نتائج، حکومتوں کے قیام اور پھر رخصتی کی‘ تقریباً ہر خبر، سب سے پہلے اظہر صاحب نے دی۔ ظفر ملک بتاتے ہیں کہ اظہر صاحب کسی حکومت کے خاتمے سے پہلے، اپنے مخصوص انداز میں کہتے۔ "بھائی جان! کھیڈ مْک گیا اے"۔ ہم کہتے کہ اظہر صاحب یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ لیکن چند روز بعد ہوتا وہی جس کی پیشین گوئی، یہ کر چکے ہوتے۔ یادیں اس طرح ہجوم کر کے، حافظے میں اتر رہی ہیں کہ ع بولے ہے یہی خامہ کہ کِس کِس کو میں باندھوں انہیں دنیا سے رخصت ہوے، اکیس برس ہو گئے۔ دور ِانحطاط اور قحط الرجال اب اَور زیادہ بڑھ گیا ہے۔ علم و ادب جان کنی سے گزر رہے ہیں۔ اس کے باوجود, یقین ہے کہ آج بھی ؎ عشق سے ہوں گے جن کے دل آباد قیس مرحوم کو کریں گے یاد