نوجوان سرکاری ملازم کو دارالحکومت میں سر چھپانے کی جگہ درکار تھی۔ وفاقی وزارت ہائوسنگ کے چکر لگائے۔ ایک سرکاری ہوسٹل میں خالی کمرہ تلاش کیا۔ ہوسٹل کے انچارج نے اس کی درخواست وزارت کو روانہ کی۔ وزارت نے کارروائی کی اور درخواست وزیر کے معاون کو پہنچائی۔ وہاں سے نہ معلوم کیا ہوا‘ درخواست غائب ہو گئی۔ یہ میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کا عہد تھا۔ نوجوان سرکاری ملازم کا اس کالم نگار سے بھی تعلق تھا۔ وزیر صاحب کے ہم زبان ایک صحافی سے عرضِ مدعا کیا۔ یہ عزت رکھنے والا اور عزت کرنے والا صحافی تھا۔ بنفس نفیس‘ چل کر‘ وزیر صاحب کے پاس گیا۔ ان سے کالم نگار کی بات کرائی۔ وزیر صاحب نے بہ کمال شفقت و کرم‘ ہدایت کی کہ درخواست ان تک پہنچائی جائے۔ بقیہ داستان‘ الم اور غم پر مشتمل ہے۔ کئی چکر وزارت کے لگائے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وزیر صاحب ہفتے میں ایک دن دفتر آتے تھے۔ کوشش بسیار کے باوجود درخواست ان تک پہنچانے میں ناکامی ہوئی۔ معاونین‘ پرائیویٹ سیکرٹری اور ایک خصوصی ڈائریکٹر نے وزیر کے گرد ایسا حصار باندھ رکھا تھا کہ ایک سوئی تک اس حصار میں سے نہیں گزر سکتی تھی۔ ظاہر ہے یہ حصار معاونین نے اپنی مرضی سے نہیں قائم کیا تھا۔ اس معاشرے میں کسی معاون کی کیا مجال کہ ’’حکم‘‘ کے بغیر اتنی اونچی اور چوڑی فصیل تعمیر کرے۔ یہ واقعہ یوں یاد آیا کہ وزیر اعظم عمران خان نے وزراء کو متنبہ کیا ہے کہ جو وزیر دفتر نہیں آئے گا‘ گھر جائے گا۔ اس سے چند دن پہلے وزیر اعظم نو گھنٹے مسلسل کابینہ کے اجلاس میں بیٹھے اور ایک ایک وزیر کی کارکردگی کا جائزہ لیا۔ اس اجلاس کی خبر آئی تو خوب خوب پھبتیاں کسی گئیں۔ ایک نام نہاد مذہبی سیاسی جماعت جو نیک بخت زندہ رہنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے‘ کبھی ایک پارٹی کا بریف کیس بنتی ہے تو کبھی دوسری کا ٹرالی بیگ‘اس کے بعد ایک بے روزگار سربراہ ہیں جو ع چلتے ہیں تھوڑی دور ہر اک رہنما کے ساتھ انہوں نے اپنی طرف سے فقرہ بازی میں اول آنے کی مضحکہ خیز کوشش کرتے ہوئے کہا کہ وزراء پاس ہو گئے۔ قوم فیل ہو گئی‘‘ یہ صرف ایک مثال ہے۔ ان کے حافظے کمزور ہیں۔ یادداشتیں ریت کی بنیادوں پر کھڑی ہیں۔ گزشتہ ادوار کو تو جانے دیجئے‘ مسلم لیگ نون کے جو حالیہ چار برس تھے۔ ان کے دوران کیا کبھی اس وقت کے وزیر اعظم کے خیال و خواب میں بھی یہ بات آئی کہ وزراء کی کارکردگی کا جائزہ لیں؟ سرکاری وسائل لُٹا کر نواسی کا نکاح حرمِ پاک میں کرنے والے سابق وزیر اعظم نے یہ کبھی نہ سوچا کہ روزِ حشر یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ نکاح کہاں پڑھایا گیا۔ باز پرس یہ ہو گی کہ تمہارے وزیر ہفتے میں ایک دن دفتروں میں آتے تھے۔ تم نے کبھی پوچھا؟ کبھی کارکردگی کا جائزہ لیا؟ کبھی انہیں وارننگ دی؟ حکومت پر اور وزیر اعظم پر اور ان کی ٹیم پر تنقید ہو رہی ہے۔ ہونی بھی چاہیے مگر تنقید اور تنقیص میں فرق ملحوظ رکھنا چاہیے ؎ شورش ترے خلاف زمانہ ہوا تو کیا کچھ لوگ اس جہاں میں خدا کے خلاف ہیں جوان بارک اوباما قصر صدارت میں داخل ہوا تو ہرا بھرا اور سرسبز و شاداب تھا۔ صدارت پھولوں کی سیج نہ تھی۔ آٹھ برس بعد رخصت ہوا تو ایک پیر مرد تھا۔ ضُعف کے آثار چہرے پر نمایاں تھے۔ عمران خان پوری کوشش کر رہا ہے کہ فرائض دیانت داری سے سرانجام دے۔ جس ملک میں نو نو ماہ تک کابینہ کا اجلاس ہی منعقد نہیں ہوتا تھا اسی ملک میں ایک ایک اجلاس نو‘ نو گھنٹوں کا ہو رہا ہے۔ نتائج اس خلّاقِ عالم کے ہاتھ میں ہیں جو نیتوں کا حال جانتا ہے اور جس نے اصول بتا دیا ہے کہ لیسَ لِلانسان اِلاّ ما سعیٰ۔ وہی کچھ ہاتھ میں آئے گا جس کے لئے کاوش کرو گے۔ ڈھول تاشے بجائے جا رہے ہیں کہ میاں شہباز شریف پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین ہونگے! یعنی پوپ حج وفد کی قیادت کرے گا! بلّی چوہوں کی کانفرنس کا افتتاح کرے گی! مُودی حافظ سعید کو بھارت کا دورہ کرنے کی دعوت دے گا! واہ واہ! سبحان اللہ! وفاق میں حکومت بڑے بھائی کی تھی۔ اب چھوٹا بھائی اس کا آڈٹ کرے گا! ،خود چھوٹا بھائی وفاق کے معاملات میں گلے گلے تک لتھڑا ہوا تھا۔ خواجہ آصف صاحب نے تو کابینہ کے بھرے اجلاس میں گریباں چاک کر دیا تھا کہ ’’لاہور‘‘ سے ان کی وزارت میں مداخلتِ بے جا کا کوئی انت نہیں تھا۔ پھر یہی چھوٹے بھائی تھے جنہوں نے وفاق کی طرف سے مسقط جا کر گیس کے معاہدے کئے۔ یہی چھوٹے بھائی تھے جنہوں نے دارالحکومت میں میٹرو کی تعمیر کی۔ یہی چھوٹے بھائی تھے جو وزیر اعظم کے بیرونی دوروں میں‘ جو وفاق کے دورے تھے‘ بڑے بھائی کے نال نال رہتے تھے۔ اب وہ اس دور کے محتسب ہوں گے! ع چہ دلاور است دُز دے کہ بکف چراغ دارد مصرع ہی ایسا یاد آ گیا ہے کہ اس میں دُزد کا لفظ در آیا ہے۔ حاشا وکلاّ کسی کو چور نہیں کہا جا رہا۔ یہ مصرع تو صدیوں پہلے کہا گیا ہے۔ کہ واہ! کتنا جری چور ہے کہ ہتھیلی پر چراغ لئے پھرتا ہے۔ بظاہر سادہ لوح بزدار صاحب نے پریس کانفرنس میں جو اعداد و شمار پیش کئے‘ کاش سابق وزیر اعلیٰ ان کا جواب دیتے۔ چار کیمپ آفس بنا رکھے تھے۔ پہلا جاتی امرا میں۔ دوسرا 96ایچ ماڈل ٹائون۔ تیسرا 180ایچ ماڈل ٹائون۔ چوتھا 41ایس ۔ ڈی ایچ اے۔ دو ہزار سے زیادہ سرکاری تنخواہ داران محلات پر پہرہ دے دے رہے تھے۔ جاتی امرا کی سکیورٹی پر پچپن کروڑ روپے خرچ اس کے علاوہ ہوئے۔ ماں قلاش اور بیٹا گھوڑوں کا سوداگر۔ قوم مفلوک الحال اور خادمِ اعلیٰ کے چار چار دفتر‘ اصل دفتر اس کے علاوہ۔ اس سے تو بادشاہ بہتر تھے‘ صاف صاف حرم بنا لیتے تھے‘ اور بجائے اس کے کہ بیگمات اور کنیزوں کے لئے الگ الگ عشرت کدے بناتے اور انہیں کیمپ آفس کا نام دیتے‘ ساری حسینائوں کو ایک ہی حرم میں ڈال دیتے تھے دیکھ بھال کے لئے خواجہ سرا تعینات کر دیتے تھے۔ خواجہ سرائوں کی خادم اعلیٰ کے عہد ہمایونی میں بھی کمی نہ تھی۔ بس ذرا بال برابر فرق یہ آ گیا تھا کہ خواجہ الگ ہو گئے تھے اور سرائیں الگ۔ اب دو خواجگان پکڑے گئے ہیں! دودھ جیسے چِٹے سفید مکھانے اور بتاشے کھائے جاتے رہے ہوں تو کبھی نہ کبھی پکڑ تو ہو ہی جاتی ہے۔ سانچ کو آنچ نہیں! آن را کہ حساب پاک است از محاسبہ چہ باک! جس نے کیا ہی کچھ نہیں‘ اسے محاسبے سے کیا ڈر! بے قصور ہوں گے تو یوں باہر نکل آئیں گے جیسے مکھن میں سے بال۔ ورنہ مکھن کو پگھلایا جانا تو لازم ہے کہ گھی بنے۔ گھی سے یاد آ گیا۔ مدتوں پہلے جب کالم نگار کم سن تھا۔ ایک دوست گائوں میں ہمارے بزرگوں کے پاس تشریف لائے۔ بات بات پر محاورے بولتے۔ کہنے لگے‘ ’’آج کل خالص گھیو اور خالص پیو نہیں ملتے‘‘ یعنی خالص گھی اور خالص باپ عنقا ہیں۔ نصف صدی پہلے یہ حال تھا تو اب کیا حال ہو گا! اُس زمانے میں کم از کم بہی کھاتے اُن محاسبوں کے سپرد نہیں کئے جاتے تھے جن کا اپنا حساب کتاب لیروں لیر تھا!!