جمعہ کی شام سات بجے کسی ٹیلی ویژن پروگرام میں شبر زیدی پاکستان کی تشویشناک معاشی صورت حال پر اظہار خیال کر رہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک کی اقتصادی حالت خطرے کی حد تک پہنچ چکی‘ ہم ٹیکنیکل ڈیفالٹ کر چکے ہیں‘ جس طرح کے خطرے میں ہم گِھر چکے ہیں، سیاستدانوں کو اس کا کچھ علم اور احساس نہیں‘ سیاسی جماعتوں کے پاس معیشت دان ہیں نہ ماہرین اقتصادیات، جو انہیں حالات کی صحیح خبر دے سکیں‘ اقتصادی بدحالی کا سب سے پہلا اثر پاکستان کی افواج پر آئے گا‘ قومی سلامتی(خدانخواستہ) خطرے میں پڑ سکتی ہے‘ سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل کر رہی ہیں حالانکہ وہ زیادہ مضبوط نہیں ہیں‘اسٹیبلشمنٹ کی ایک ڈانٹ انہیں سیدھا کر سکتی ہے‘ شبر زیدی اپنے شعبے میں واقعی مہارت رکھتے ہیں‘ عام طور پر وہ کھری‘ سیدھی اور سچی بات کہتے ہیں،لیکن آج ان کا طرز تکلم فقیہہ مصلحت ہیں کا تھا‘ سچی بات کہنے والا رندبادہ خوار نظر نہیں آیا۔‘‘منیرکیا سادہ ہیں کہ بیمار ہوئے جس کے سبب‘ اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں‘‘ جن کی مہربانیوں سے پاکستان اس حال کو پہنچ گیا ہے‘ انہی کو پھر سے ڈانٹ‘ پھٹکار کے لئے بُلا رہے ہیں‘ پاکستان کی معاشی بدحالی‘ بری حکومت‘ نااہل انتظامیہ اور سیاسی عدمِ استحکام کا نتیجہ ہے‘ حالات کو ٹھیک کرنے کے لئے پہلی شرط سیاسی استحکام ہے‘ سیاسی استحکام نمائندہ حکومت بننے تک ممکن نہیں‘ نمائندہ حکومت کے قیام کے لئے انتخابات ہونا ضروری ہیں‘ انتخابات بھی ایسے جو صاف‘ شفاف اور نیک نیتی سے منعقد کئے جائیں۔ انتخابات کی راہ میں فیصلہ کن رکاوٹ ایک سیاسی اتحاد ہے، یہ اتحاد پی ڈی ایم کی تیرہ سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ پر مشتمل ہے ،جو جناب قمر جاوید باجوہ کی مساعیٔ جمیلہ سے انہی کی سربراہی میں تشکیل پایا۔اس غیر مقدس بلکہ ناپاک اتحاد کا بھاری پتھر تادیر اٹھایا نہیں جا سکا‘ وہ اس بھاری پتھر کو کندھوں سے اتار پھینک پھانک کر نکل لئے اب یہ بوجھ جانشینوں کے گلے کا ہار ہے‘ انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ اس سے نجات ہو تو کیسے؟ دوسری مدت ملازمت کے بعد یہ طاقت کا نشہ تھا یا لالچ کی پٹی کہ انہیں کچھ سجھائی نہیں دیا‘ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو بھی فریب دیا‘ اندھیرے میں رکھا جعلی اعداد و شمار ‘ رائے عامہ کے خانہ ساز سروے دکھائے گئے‘ دوست ملکوں کی ناراضگی اور امریکہ کے دبائو کا جھوٹ گھڑا گیا‘ حال ہی میں انہوں نے پاکستان کے سب سے اچھے داستان گو کو اپنی کہانی سنائی تاکہ وہ اسے اپنے مسجع اورمقضیٰ لفظوں میں چوک‘ چوراہوں تک کہہ سنائے‘ داستان گو نے کہانی زبانی کہنے کی بجائے اسے قصے میں لکھ دیا، آج کل کی زبان میں قصے میں لکھی کہانی کو ’’انٹرویو‘‘ کہتے ہیں۔انٹرویو چھپنے کے بعد انٹرویو دینے والے سابق سپہ سالار جناب قمر جاوید باجوہ نے سارے مندرجات میں 99فیصدکی،انہوں نے مکرر تصدیق کر دی، صرف ایک نقطے سے اظہار بیزاری کیا کہ یہ نقطہ میرا نہیں بلکہ پیغام بر نے خود سے بڑھا دیا‘وہ تھا کہ ’’اگر عمران خاں حکومت میں رہ گیا‘ تو پاکستان نہیں رہے گا‘‘ اس فقرے کی تردید کی بجائے خود باقی مندرجات کی تصدیق مزید کے مترادف ہے‘ یہ انٹرویو ان دو خفیہ ملاقاتوں کے بارے میں ہے جو حکومت کا تختہ الٹنے کے 4ماہ بعد ایوان صدر میں ہوئیں‘ اس کہانی(انٹرویو) میں بہت کچھ ہے لیکن خاصے کی چیز جنرل باجوہ کا عمران خاں سے یہ پوچھنا کہ ’’آپ مجھے میر صادق‘ میر جعفر کے نام سے پکارتے ہیں؟ وہ تو شہباز شریف اور نواز شریف کے لئے کہا گیا تھا‘ عمران خاں نے جواب دیا‘ منہ در منہ ‘ کچھ نہ کچھ شرم و حیا تو بنتا ہی ہے‘ ورنہ اس میں کوئی شک نہیں ’’اگلوں‘‘ نے جو کیا وہ ان ’’کلاسیک‘‘ اور ضرب المثل بن جانے والے غداروں سے کچھ کم تو نہیں‘ اپنے ذاتی لالچ اور خود غرضی کو جھوٹ کے پردے میں چھپا لینے کا ہنر اس طرح کے لوگوں کو ازبر ہے‘ کبھی عوام کی ہمدردی‘ کبھی بنامِ وطن‘ وہ میر جعفر تھے یا صادق لیکن 9اپریل آدھی رات انہوں نے آستین میں چھپائے خنجروں سے اپنے تئیں ایسا کاری وار کیا تھا کہ مضروب کے بچ نکلنے کا کوئی امکان نہ رہے‘ رات کے پچھلے پہر قاتلوں کا گروہ اپنے آرام دہ بستروں میں گہری نیند جا سویا اور سارا دن سوتا ہی رہا اگلی رات تک‘ اچانک ان کے آس پاس‘گلی محلے‘ چوک چوراہے‘ شہروں شہروں‘ ملکوں ملکوں لوگ اسی ہیرو کو کندھے پر بٹھائے تحسین و آفرین کے نعرے لگا رہے تھے اور وہ ہیرو اپنی دو انگلیوں سے’’وکٹری‘‘کا نشان بنائے پکارتا چلا گیا۔’’بُلیا‘ اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور‘‘ ’’بروٹس مر گیا‘سیزر زندہ ہے‘ سیزر کے لئے تخت کو نئے سرے سے سجایا جائے گا‘ انہی کو یہ تخت کندھوں پر اٹھا کر ایوان میں لانا ہے‘ جو مقدس میت کو کاندھا دینے سے بھاگ رہے تھے۔ سوئے تھے گلوں کی چھائوں میں جاگے ہیں قفس کے گوشے میں کب صحن چمن میں خاک اڑی کب آئی خزاں معلوم نہیں 9اپریل کے مطمئن جنرل باجوہ 10اپریل کا نظارہ دیکھ کر مضطرب ہو گئے۔مضطرب نے اپنے انٹرویو میں اعتراف کیا کہ میں نے اسے ٹیلی فون پیغام میں لکھا‘ آپ ایک میچ ہارے ہیں‘ پورا کھیل ابھی باقی ہے‘ ایوان اسمبلی میں صرف دو ووٹوں کا فرق ہے آپ پھر سے جیت جائیں گے، اس پیغام کو پڑھنے کے بعد اس نے کوئی جواب نہیں دیا‘ باجوہ صاحب یہ بتانے سے شرما گئے کہ نہ صرف جواب نہیں دیا بلکہ ان کا نمبر ہی بلاک کر دیا تاکہ نامہ و پیام کا رستہ ہی بند ہو جائے‘یہ رستہ بند ہونے کے بعد اس نے پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے پاکستانیوں نے اپنی بے شمار محبتیں نچھاور کر دیں۔ پاکستان بھر میں عوام نے بڑھ کے قدم لئے‘ شہر شہر جلسے جلوس لوگوں کا والہانہ پن اور جولائی میں سیاسی ’’میدان پانی پت‘‘ کا پہلا معرکہ پنجاب میں لڑا گیا‘ ہر حربہ آزمایا گیا مگر ہر ہتھیار کند‘ ہر وار اوچھا پڑا اکیلے کپتان نے PDMکا باجا بجا دیا، عوام نے 80فیصد کی اکثریت سے اس کو چن لیا، جس کے خلاف سازش کی گئی تھی‘وہ دن گئے اور آج کا آئے جو کپتان کے خلاف نئے انتخابات کا نعرہ لے کر اٹھے تھے، آج وہ انتخاب کے نام سے لرزاں و ترساں بھاگتے بھاگتے ہلکان ہوئے جاتے ہیں، کہیں جائے اماں نہیں ملتی۔جن کی آنکھیں کھلی اور دماغ روشن ہیں، وہ حقیقت کو اپنے سامنے مجسم دیکھتے ہیں۔پاکستان اور اس کا مستقبل عوام کا ہے‘ عوام کے ذریعے‘ عوام کے لئے وہی اس کی قسمت کے مالک ہیں وہی قسمت کو سنوارنے کا آپ فیصلہ کریں گے۔عوام نے جن کو اپنی حفاظت اور خدمت کے لئے نوکر رکھا ہے ان کا کام خدمت بجا لانا ہے حکم چلانا آرام کرنا اور گلچھڑے اڑانا نہیں‘ انہیں ذمہ داریاں سونپی گئی اختیارات نہیں وہ سب اپنی ذمہ داری پوری کریں، خوشی سے یا پھر انہیں مجبور کر دیا جائے گا یا معزول ہونگے ‘ جو معزول ہوئے وہ کبھی نئی خدمت پر مامور نہیں ہو سکیں۔ لیڈر کی دلیری عوام کی ثابت قدمی نے پانسہ پلٹ دیا‘ ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں‘ سب کے خواب جلدی ٹوٹنے والے ہیں‘ عدلیہ نے اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ باجوہ صاحب جا چکے‘ باقیات کے جانے کا وقت ہوا چاہتا ہے‘ مذکورہ انٹرویو دراصل اعتراف جرم کی دستاویز ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ محاسبہ جانشین کرتے ہیں یا جانشین کے جانشین۔