محبت اور انقلاب دونوں کا کہیں نہ کہیں گہرا رشتہ موجود ہے۔ محبت دل کی سرزمین پر اترے تو مٹی سے امید‘ خواب اور گلاب کی پنیری پھوٹتی ہے۔ اندر اور باہر کی فضا تبدیل ہو جاتی ہے۔ اسی طرح انقلاب کی جدوجہد۔ بھی تبدیلی کی خواہش سے جنم لیتی ہے۔ انقلاب کا خمیر ہی بغاوت سے اٹھتا ہے۔ ایک باغی سب سے بڑا رومانٹک ہوتا ہے۔ لفظ Romanticکو گوگل کر کے دیکھیے۔ اس کے وہی روایتی معنی ہیں جو یہ لفظ سنتے ہی سب کے ذہنوں میں اترتے ہیں۔ Being romantic means you value a Certmn ideal to a high degree. Romantic refers to the passion you get from pursuing an ideal that you value. جمال خاشقجی بلاشبہ ایک باغی‘ ایک انقلابیہ ‘ ایک رومانٹک روح تھا۔2اکتوبر 2018ء کو جب جمال خاشقجی استنبول میں سعودی عربیہ کے قونصلیٹ میں داخل ہوتا ہے تو اس کے سامان میں محبت اور انقلاب دونوں کا زادِ راہ موجود تھا۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اس کے پاس تھا ہی محبت اور انقلاب کا جذبہ۔ محبت جو وہ خدیجہ جنگیز سے کرتا تھا اور انقلاب جس کا خواب وہ اپنے ملک کے لیے دیکھتا تھا۔ اس کے انقلاب کی تعریف صرف اتنی سی تھی کہ عرب دنیا کو اظہار رائے کی آزادی چاہیے۔ اظہار رائے کی آزادی کے بغیر جدید دنیا میں کوئی بھی ملک سروائیو نہیں کر سکتا۔ وہ سچ بولنے والا آئیڈیلسٹ تھا۔ کھرا سچ بولتا اور اس بات کا قائل نہ تھا کہ ذرا سا جھوٹ ہو شامل تو سونا نت نئے گہنوں میں ڈھلتا ہے۔ اسے اپنا ملک چھوڑنا گوارا تھا مگر سچ میں مصلحت کی آمیزش گوارا نہ تھی۔ سو اس نے سعودی عرب کو خدا حافظ کہا اور امریکہ چلا آیا۔ ایک سال قبل اس نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی۔ وہ واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ ہو گیا مصلحت کے پردوں کو چاک کرتی ہوئی اس کی تحریریں تھیں۔ اس نے اپنی تحریروں میں ببانگ دہل لکھنا شروع کر دیا کہ عرب دنیا سچ کا چہرہ کب تک چھپا کر رکھے گی۔ کب تک سچائی کا گلا گھونٹتی رہے گی۔ کب تک۔ uniformed or mis informedکا کھیل کب تک جاری رہے گا۔ اب بہت ہو گیا۔ اس کا آخری کالم جو اس کے بہیمانہ قتل کے بعد چھپا اس کا عنوان بھی یہی تھا۔ what the arab world needs most is free expressionلیکن 2اکتوبر کے دن محبت اور انقلاب کی کہانی کو قتل کر دیا گیا۔ ہر کہانی کے کئی رخ ہوتے ہیں جس سے آپ اس کہانی کو جانچ اور پرکھ سکتے ہیں۔ میں نے اسی لیے اس کی کہانی کو محبت اور انقلاب کا نام دیا۔ وہ جب 2اکتوبر کو استنبول کے سعودی قونصلیٹ میں۔ کچھ ضروری پیپرز سائن کروانے گیا تو گیٹ پر اس کی ترکی النسل منگیتر Hatice cengizاس کا انتظار کر رہی تھی۔ جمال خاشقجی کی منگیتر کا نام Haticsترکی زبان میں حدیجہ کی آواز دیتا ہے جبکہ ترکی زبان میں جنگسیز لفظ سی کی ترکی آواز انگریزی لفظ Jمماثل جی ہے سو خدیجہ اس کا انتظار کرتی رہی۔ وہ اسے اپنا موبائل فون دے کر گیا تھا کہ اگر وہ کچھ گھنٹوں تک واپس نہ آئے تو فلاں آدمی سے رابطہ کر کے اسے ساری صورتحال سے آگاہ کرے۔ جمال خاشقجی کا گمان درست ثابت ہوا۔ اس کی گمشدگی کی اطلاع سب سے پہلے خدیجہ نے ہی میڈیا کو دی۔ سچ اور انقلاب کا داعی تو جمال خاشقجی پہلے بھی تھا۔ لیکن جب وہ دولت کی کشتیاں جلا کر اپنا خاندان گھر بار چھوڑ کر خود ساختہ جلاوطنی پر آمادہ ہوا تو استنبول کی ایک میڈیا کانفرنس میں اس کی ملاقات 30سالہ پی ایچ ڈی طالبہ خدیجہ سے ہوتی ہے۔ جو اس سے اس کے نظریات اور خیالات کے حوالے سے کانفرنس کے دوران کچھ سوالات کرتی ہے۔ وہ اس کی ذہانت سے متاثر ہوتا ہے۔ سوالات کے تسلی بخش جوابات دیتا ے۔ بظاہر یہ عام سی پہلی ملاقات دونوں کومبتلائے محبت کر دیتی ہے۔ مئی 2018ء کی اس پہلی ملاقات کے بعد دونوں میں رابطہ رہتا ہے۔ محبت کے تعلق میں عمروں کا تفاوت ہے ان کے لیے معنی ہوکے رہ جاتا ہے لیکن خدیجہ کے خاندان کو اس پر قدرے اعتراض ہوتا ہے۔ پھر محبت کی جیت اس طرح ہوتی ہے کہ خدیجہ کا والد ساٹھ سالہ صحافی جمال خاشقجی اور 36سالہ خدیجہ کے رشتے پر مان جاتا ہے۔ وہ دن دونوں کے لیے بے حد خوشی کا تھا۔ جمال خاشقجی کو اب خدیجہ سے شادی کرنے کے لیے سعودی قونصل خانے سے چند کاغذات درکار ہیں۔ یا اسے سائن کروانے تھے تاکہ وہ ترکی کی رہائشی خدیجہ سے شادی کر سکے۔ اس مقصد کے لیے وہ 2اکتوبر کو سعودی قونصل خانے جاتا ہے اور واپسی نہیں آتا۔ باہر اس کے انتظار میں کھڑی اس کی منگیتر خدیجہ کرب سے گزرتی رہی ہے۔ وہ اپنے موبائل پر خاشقجی کے محبت بھرے پیغامات پڑھتی ہے۔ ایک میسج پر آکر رک جاتی ہے۔ جو اس نے چند روز پہلے کیاتھا جب جمال خاشقجی نے خدیجہ کے لیے ایک اپارٹمنٹ خریدا جہاں وہ بیاہنے کے بعد اسے لے جانا چاہتا تھا۔میسج پڑھ کر اس کی آنکھیں آنسوئوں سے بھر گئیں۔ The Apartment is beautiful like its owner. دونوں اپنے آنے والے خوب صورت مستقبل کو سوچ کر بہت خوش اور شادمان تھے۔ لیکن محبت کی کہانی کو اس سے آگے خاموش کروا دیا گیا۔ سچ اور مصلحت کے ایک ایک حرف کو کچل دیا گیا۔ آواز کے آہنگ کو لہولہان کر دیا گیا۔ جمال خاشقجی کو جس سفاکیت سے ٹکڑوں میں کاٹا گیا اس کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ سچ اور انقلاب کی آواز کا گلاگھونٹ دیا گیا لیکن ایک بے چینی ایک احتجاج پوری دنیا میں اس پر ہو رہا ہے۔ خاشقجی کا آخری کالم اس کی موت کے بعد شائع ہوا دی پوسٹ کے گلوبل اوپینن صفحات کی ایڈیٹر کیری کا کہنا ہے کہ اس بہادر صحافی کے آخری کالم میں بھی اسی عزم‘ جذبے اور کمٹمنٹ کا اظہار ہوتا ہے جس کی خاطر بالآخر اس نے اپنی جان دے دی۔ یہ کمٹمنٹ تھی کہ عرب دنیا کو سوچنے‘ بولنے اور اظہار کرنے کی آزادی دو۔ تنقید کی آواز کا گلا گھونٹنے سے کبھی بھی صحت مند سماج وجود میں نہیں آتا۔ وہ اپنے آخری کالم میں لکھتا ہے: بہت سارے لوگ میری تحریروں اور میرے موقف سے متفق نہیں ہوتے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ابھی یہ وقت ان باتوں کا نہیں۔ ہم جمہوریت سے بہت دور ہیں ہمارے حکمران خود کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔ میرے جیسے چند لوگ جو ان کے موقف کو چیلنج کرتے ہیں انہیں وہ اپنے کام میں رکاوٹ ڈالنے والا سمجھتے ہیں۔ جمال خاشقجی سعودی عرب میں بغاوت‘ انقلاب اور مصلحت سے پاک سچ کی آواز تھا۔ جن کو یہ آواز گوارا نہ تھی انہوں نے اس آواز کو خاموش کرا دیا۔ ہے کوئی جو اس ظلم پر آواز اٹھائے۔