ایک شعر منیر سیفی کا میرے قلب و ذہن کو ہمیشہ طمانیت بخشتا ہے: جلا بھی شدت جاں سے، بجھا بھی شان سے تھا وہ ایک چراغ جو سورج کے خاندان سے تھا نواسہ رسول ؐ کی بات تو پھر نانا حضورؐ تک لے جاتی ہے کہ اس سورج کا تذکرہ مجھے حبیب تلونڈوی کے قطعہ سے ملتا ہے تو میں سرشار ہو جاتا ہوں گو کہ یہ سورج بھی ایک استعارا ہے وگرنہ میرا ممدوح تو وجہ تخلیق کائنات ہے: انگلی کے اشارے سے انؐ کی دو نیم نہیں مہتاب وقت اعجاز نظر نے ان کے تو پتھر کا جگر بھی چیرا ہے سورج کی کرن دونوں پر پڑی بوجہل پہ بھی صدیق ؓ پہ بھی اللہ اے قسمت تو دیکھو اک پتھر ہے اک ہیرا ہے میرے معزز قارئین؎ میں اس تمہید کے بعد میں اس ڈائری کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس نے مجھے حیران کر دیا میں گھر آیا تو ایک نہایت ضخیم دستا ویز قسم کی بھاری بھرکم غیر مجلد ڈائری میری میز پر پڑی تھی اور نہایت خوش خط میرا نام اور پتہ تحریرتھا یہ بڑے سائز میں تھی جسے اے فور کہتے ہیں اور اس کے صفحات ساڑھے سات سو تھے ٹائٹل پر یہ پڑھ کر میں روح تک سرشار ہو گیا: محبوب انس و جاں ﷺ پلکوں پہ شبنمی ستاروں کا نم لئے محبت رسولؐ میں بھینگی ہوئی لازوال تحریروں کا دل آرا انتخاب اور یہ کارنامہ سرانجام دینے والے ہیں منیر احمد ملک۔ میں کتنی دیر تک اس مسودہ نما مگر کمپوزڈ دستاویز کو دیکھتا رہا کہ یہ کام کوئی جنونی ہی کر سکتا ہے جو سرتاپا آقاؐ کی محبت و مودت میں ڈوبا ہوا ہو مزید تعجب یہ ہوا کہ جہاں جہاں انہوں نے میری چیزیں شامل انتخاب کیں وہاں ٹیک بھی رکھے ہوئے ہیں یہ اچھی خاصی کاوش ہے کہ انہوں نے یقینا تخلیق کار دوستوں تک اس ارمغان کو پہنچانے کا بھی اہتمام کیا واقعتاً عشق خود ہی نظر آنے لگتا ہے: اے سعد محمدؐ سے لازم ہے محبت یوں ہر شخص کہے تجھ کو دیوانہ ہے دیوانہ اس گلدستہ ہائے سخن کا انتخاب منیر احمد ملک نے اپنی ماں کے نام کیا ہے اور آقاﷺ کے پاس درخواست گزارہیں ہے کہ ان کی بخشش کی شفاعت کریں۔ ان کی ماں بلقیس بیگم جو ان کے لئے خدا کا روپ تھیں یہ ایک اچھا انداز کہ پھر سارے خاندان کو اپنی دعا میں شامل کیا آغاز میں لوگوں کی آرا بھی شامل ہیں اور سب نے منیر احمد کے اس مبارک کام کو بہت سراہا ہے اور ان کے والہانہ پن کو رشک سے دیکھا ہے میرے لیے نہایت خوشگوار حیرت تھی کہ انہوں نے ’’میں اور میرے رسولؐ‘‘ سے تمہید باندھی تو لکھا ہے کہ ’’یہ آرزو ہے دل کی اس کلمہ حق کی تمہید گرامی قدر سعداللہ شاہ کے کالم ’’سیرت کانفرنس اور حماد لکھنوی‘‘ میں پروفیسر الطاف الرحمن کی نسل نو سے غیر رسمی گفتگو کے ان الفاظ سے باندھوں کہ آپ سب ہماری طرح سے نعرے لگاتے ہیں کہ غلامی رسولؐ میں موت بھی قبول ہے مگر اس سے پہلے یہ دیکھنا کتنا اہم ہے کہ کیا ہم غلامئی رسول میں زندگی گزار رہے ہیں‘ یہ کالم 92نیوز ہی میں شائع ہوا تھا مگر میرے لئے یہ جاننا اچھا لگا کہ ان کی نظر ہر جگہ پہنچتی ہے کہ جہاں سے انہیں آقاؐ کے حوالے سے مواد مل جاتے ہیں مجھے اس دستاویز میں فراز کی نعت بھی نظر آئی: مرے رسولؐ کہ نسبت تجھے اجالوں سے میں تیرا ذکر کروں صبح کے حوالوں سے اس میںشاعر بھی ہے اور نثر بھی۔ کہیں بھی نظر نہیں ٹھہرتی۔ اس میں اگر چیزوں کو ذرا اہتمام سے شامل کر کے فہرست بنا دی جاتی تو قاری کے لئے آسانی فراہم ہو جاتی اس میں ذوق اور شوق اس قدر ہے کہ شاید اس جانب دھیان ہی نہیں گیا یہ تو ایک ادارے کا کام تھا جو اکیلے منیر احمد ملک نے کرنے کی ٹھانی میں سمجھتا ہوں کہ اس کی شاعری کے حصہ پر نظرثانی ضروری ہے اور پھر اس کا حسن اور بھی نکھر جائے گا بنیادی طور پر ان یک یہ پیشکش ان کے مطالعہ کا نچوڑ ہے انہیں جہاں جہاں سے تحریریں پسند آئیں انہوں نے درج کر دیں یا ان پر اپنی رائے یا پھر ان کی تحسین شامل ہو گئی۔ ان تحریروں کے لئے کوئی کلیہ قائدہ تو طے کرنا پڑے گا۔ اس مجموعہ نظم و نثر میں کئی رنگ ہیں استاد امام دین گجراتی کا شعر بھی نظر پڑ گیا: محمدؐ کا جہاں پر آستاں ہے زمیں کا اتنا ٹکڑا آسمان ہے مسجد نبوی کے حوالے سے آپ کو معلومات ملیں گی مگر انداز محبوبانہ اور جذبوں میں تقدیس، مسجد نبوی چمنستان رسالت کا ایک گل سرسید ہے جس کی تعمیر ترکوں کی محبت وفا کاری اور جذبہ حسن و عشق کا ایک عکس جمیل ہے یہ ان کے ایمان کی پختگی ہنر کا کمال خیال کی پاکیزگی اور نفاست جمال کی انوکھی اور اچھوتی داستان ہے۔ نہ کر کوتاہ بینی سے تو رعنائی کے اندازے کہ جان و دل میں کھلتے ہیں یہ محرابیں یہ دروازے بہت اچھا لگا جب سید ارشاد احمد عارف کے بھائی صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی کی تحریر بھی نظر نواز ہوئی۔ وہ نوائے وقت میں قلم برداشتہ کے عنوان سے کالم لکھتے تھے اور کمال کے مقرر تھے ان کی انداز نگارش دیکھیے: جب موضوع سخن سیرت سرور عالمؐ ہو تو استعاروں کا حسن خود بخود وجود میں آ جاتا ہے۔ الفاظ کا لف و نشر خود ترتیب میں آ جاتا ہے۔ جملے شبنم کے پانی میں گھل جاتے ہیں اور فقرے قوس قزح کے رنگوں میں ڈوب جاتے ہیں۔ لفظ ادب کے ٹیکسال میں ڈھالے جاتے ہیں۔ حرف آغوش محبت میں پالے جاتے ہیں یہاں نوک قلم کی تقدیس اور روح و قلب کی تحریم کا پورا سامان کیا جاتا ہے’’آگے ورق الٹے تو مظفر وارثی کی نعتیہ نظم نظر آتی ہے: وہ اپنے کردار کی زبانی بتائے قرآن کے معانی اس آئنۂ خدا کو دیکھو میرے محبوب مصطفی کو دیکھو بڑے بڑوں سے بھی وہ بڑا ہے افق کے ممبر پہ وہ کھڑا ہے خطیب ارض و سما کو دیکھو میرے محبوب مصطفی ؐ کو دیکھو بہرحال اس انتخاب میں کئی نثر پارے موجود ہیں جنہیں پڑھ کر آنکھیں بھیگ بھیگ جاتی ہیں بس بات اتنی ہے کہ اسے کسی ترتیب یا انجام کے ساتھ اور نظرثانی کے بعد شائع کیا جائے کہ اس میں غلطی کا امکان کم سے کم ہو۔ اس بارگاہ میں احتیاط لازم ہے لیکن اس کام میں منیر احمد ملک کا خلوص اپنی جگہ قابل تحسین ہے غالباً شورش کا شعر ہے: اس کے آگے کوئی جادہ ہے نہ منزل نہ مقام ہم مدینے کے درو بام تک آ پہنچے ہیں