ایک پروگرام عوامی عدالت میں محبوبہ مفتی کٹہرے میں تھی اور بھارتی اینکر اس پر طنز کے تیر پھینک رہا تھا اور حاضرین سے داد طلب کر رہا تھا۔ اچھی فقرے بازی تھی مگر محبوبہ مفتی اس وقت ہمیں سچ مچ کی محبوبہ لگ رہی تھی کہ اس نے پاکستان کے موقف کے سپورٹ میں ایسی بات کی کہ حملہ آور اینکر کی بولتی بند کر دی مگر وہ کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے محبوبہ مفتی کو کہتا رہا کہ وہ اگر ایسی سپورٹ پاکستان کی کرتی ہیں تو پاکستان کیوں نہیں چلی جاتیں! اصل میں اینکریہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ پاکستان سفارتی سطح پر تنہا رہ گیا جس پر محبوبہ مفتی نے کہا کہ اس کی باتوں یا دعوے میں کوئی سچائی نہیں کیونکہ پاکستان تو اس وقت بہت اِن جا رہا ہے۔ امریکہ‘ چین اور روس اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اینکر نے مزے دار فقرہ اچھالا کہ اس لئے کہ آپ پاکستان کی آئوٹ آف دی وے جا کر سپورٹ کرتی ہیں تو لوگ آپ کو پاکستان کی خالہ کہتے ہیں۔ اس پر وہ خود بھی قہقہہ بار ہو گئیں جیسے کہ وہ اس پر مسرت اور انبساط میں سرشار ہو گئیں مجھے بھی یہ طنز اچھا لگا کہ جیسے یہ اس محاورے کی طرح ہو کہ بلی شیر کی خالہ’’یہی داغ تھے جو سجائے ہم سربزم یار چلے گئے‘‘ محبوبہ کی باتوں میں بہت وزن تھا اور اب بیٹسمین کی طرح جو چھکے لگا رہی تھیں جو مخالف کرائوڈ کے ہوتے ہوئے نروس نہ ہوا۔ دھواں دار بیٹنگ کرے۔ محبوبہ نے کہا کہ اینکر ہوش کے ناخن لے کہ وہ پاکستان کو کیسے تنہائی کا شکار بتا رہا جبکہ اس وقت پاکستان طالبان اور امریکہ کے مذاکرات کروا رہا ہے اور دوسری بات یہ کہ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے۔ مزید کہا کہ ہندوستان کی حماقت ہے کہ وہ اپنے آزمودہ اور کہنہ دوست روس سے بھی دور ہو رہا ہے جبکہ روس پاکستان کے قریب آ چکا ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا تذکرہ شروع ہوا تو اینکر نے کہا کہ عمران کو اس کا ڈرائیور بننا پڑا جس کے جواب میں محبوبہ مفتی نے کہا وہ تو ٹھیک ہے مگر جب محمد بن سلمان آرام سے 80ملین ڈالر کے معاہدے لکھ رہا تھا تو مودی اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا تھا اس پر اینکر نے چڑ کر کہا ’’اور اس کی گود میں بیٹھ جاتا‘‘ شکر ہے محبوبہ نے یہ نہیں کہا کہ ’’اس کی کسر تھی‘‘ بہرحال مکالمہ دلچسپ تھا کہ کہا گیا کہ پیسہ بولتا ہے۔ مگر ایک بات محبوبہ کی ان کے لئے پنچنگ تھی کہ محمد بن سلمان پاکستانیوں کو بھائی کہتا رہا اور بھارتیوں کو دوست یہ فرق سمجھنے کے لئے کافی ہے اور اس بات سے عمران خان کا اپنے بھائی کے لئے ڈرائیور بننا بھی سمجھ میں آ جاتا ہے ایسی عزت بھی شہزادے کو ہم ہی دے سکتے تھے کہ عمران خاں کسی شہزادے سے کم ہے کہ برطانیہ کی رائل فیملیز اس کے ساتھ کھانا کھانا فخر سمجھتی آئی ہیں۔ ایک بات بھی ہوئی کہ پاکستان کے پاس کھونے کے لئے اتنا کچھ نہیں جتنا بھارت کے پاس ہے ۔ وہاں تو ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اتنی بڑی انویسٹمنٹ ہے کہ کسی جنگ کی صورت میں ان کا ستیاناس ہو جائے گا۔ وجہ یہی ہے کہ اب کے روائتی جنگ کا کوئی تصور نہیں۔ یہی بات محبوبہ نے کہی تو انہیں مرچیں لگ گئیں کہ آپ سرحد پر ہی اپنے دل کے پھپھولے پھوڑ سکتے ہو۔ اندر آنے کی جرأت نہیں کر سکتے ۔ تبھی تو عمران خان نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ وہ بات نہیں ہو گی کہ ’’اب کے مار‘‘ یعنی ہم ری ٹیلی ایٹ کا سوچیں گے نہیں‘ جوابی حملہ کر دیں گے۔ خان نے بہت دانشمندانہ بات کی کہ آپ ثبوت دیں ہم مکمل کارروائی کریں گے جس کا ثبوت حکومت نے عملی طور پر دیا بھی ہے ۔ عوام بالکل بھی نہیں گھبراتے اور بھارت کی دھمکیوں سے ذرا برابر بھی مرعوب نہیں ہوتے مجھے تو رضی اختر شوق کا شعر یاد آ گیا: مزاج میرے قبیلے کا دھیان میں رکھنا یہ تیر سوچ سمجھ کر کمان میں رکھنا اپنا پیارا دوست عدیم ہاشمی کیوں یاد نہ آئے گا کہ اس نے ہماری نمائندگی کرتے ہوئے کیا خوب کہا تھا: مصالحت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے میں سربکف ہوں لڑادے کسی بلا سے مجھے ہم تو مگر مودی کو بلا نہیں سمجھتے وہ ایک ایسی بدروح ہے جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر کشمیریوں کا وہ قاتل ہے۔ یہ خون ضرور رنگ لے آئے گا موجودہ صورت حال میں کوئی بہتری ہمارے لئے لکھی ہوئی ہے۔ مسلمان تو ایک طرف ہمارے لبرل بھی سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ مودی ہر صورت میں تباہی اور دہشت گردی کا نقشہ بنا رہے ہیں۔ کشمیر کو اس نے زبردستی غلام بنا رکھا ہے جبکہ کشمیری آزادی سے کم کسی بھی آپشن کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ انہیں ان کا گھر چاہیے۔ ایک مرتبہ پھر مجھے محبوبہ مفتی کا فقرہ یاد آیا اس نے بھارتی اینکر سے کہا کہ وہ یعنی بھارت کشمیریوں کے بغیر کشمیر چاہتا ہے۔ آپ اس جملے پر غور کریں تو کھلے گا کہ واقعتاً بھارت ان کی نسل کشی کرتا ہے۔ آئے دن بہانے بہانے سے انہیں ٹارگٹ کر رہا ہے ان کا کمانڈر کھلی دھمکیاں دے رہا ہے کہ کشمیری مائیں اپنے بچوں سے ہتھیار پھینکوا دیں وگرنہ سب کو مار دیا جائے گا۔ بندہ پوچھے کیوں مار دیا جائے گا وہ اپنے گھر اور اپنی آزادی وا گزار کروانا چاہتے ہیں۔ یہ ان کے بڑوں کی زمین ہے یہاں ان کا سب کچھ ہے یہ بات بھی محبوبہ مفتی نے کی کہ وہ کیوں مقبوضہ کشمیر کو چھوڑ کر پاکستان جائے کہ اس کی زمینیں اور سب کچھ کشمیر میں ہے۔ کشمیری ہم سے زیادہ بھارت کی مکاری سمجھتے ہیں۔ اس وقت پاکستانی پرسکون ہیں اور اس ضمن میں اللہ کا شکر بھی ادا کرنا چاہیے کہ جس نے ہمیں ڈاکٹر قدیر خاں جیسا سائنس دان دیا اور اس نے پاکستان کو ایٹم دے کر ناقابل تسخیر بنا دیا۔ پاکستان کے سب ادارے ایک ہی پیج پر ہیں۔ وقت آنے پر سب مجاہد ثابت ہونگے۔ مودی کا جواب دینے کے لئے ہم نے فیاض چوہان کو آگے کیا ہوا کہتا ہے کہ پاکستان نے ایٹم بم شب برات پر چلانے کے لئے نہیں رکھا ہوا۔ خیر پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ملک ہے اس حوالے سے سوچنا مودی کی ذمہ داری زیادہ ہے۔ جنگ کی فضا مودی ہی نے پیدا کر رکھی ہے مگر کسی بھی دعوے کے ثبوت ندارد۔ محترم سراج الحق نے درست کہا ہے کہ مودی مصنوعی گرد اڑا رہا ہے۔ حکومت کو کل جماعتی کانفرنس بلانی چاہیے۔ اپنی تیاری واقعتاً رکھنی چاہیے ہمارا دشمن بہت مکار ہے۔ آخر میں دو شعر: درد کو اشک بنانے کی ضرورت کیا تھی تھا جو اس دل میں دکھانے کی ضرورت کیا تھی ایسے لگتا ہے کہ کمزور بہت ہے تو بھی جیت کر جشن منانے کی ضرورت کیا تھی