ہمارے’’محبوب ‘‘ وزیر اعظم عمران خان بے شمار ذاتی تجربات کے باوجود شاید اس فلسفے پر ادراک نہ رکھتے ہوں کہ چاہے دنیا کا کوئی بھی خطہ ہو، ہر جگہ محبوبائیں گرم جوش عاشقوں کو تو برداشت کر لیتی ہیں، جلد باز عاشقوں کو قبول نہیں کرتیں، محبوبائیں ہمیشہ جلد باز عاشقوں سے دنوں میں چھٹکارا حاصل کر لیتی ہیں، لوگ کہتے ہیں کہ امریکہ کے ،،کامیاب ترین،، دورے کے باوجود عمران خان ’’خالی ہاتھ‘‘واپس لوٹے ہیں۔ آپ پوچھیں گے کہ’’خالی ہاتھ‘‘ واپس لوٹنے سے کیا مراد ہے؟آپ نے بھی تو دیکھا ہوگا ماضی میں جب بھی کوئی سیاستدان یا حکمران کسی غیر ملکی دورے سے واپس لوٹتا رہا ہے تو اس کی جھولی ’’ مال غنیمت‘‘سے بھری ہوتی ہے، لیکن عمران خان کے ہاتھوں میں تو پرفیوم کی ایک شیشی تک موجود نہ تھی۔ عمران خان جیب میں جو’’ حکمت عملی‘‘ ڈال کر گئے تھے اسی کے ساتھ واپس آگئے، حکمت عملی کتنی کامیاب رہی؟ اب اس سوال کا جواب تواب صرف نریندر مودی دے سکیں گے اور وہ بھی اس وقت جب وہ ’’عمرانی حکمت عملی‘‘ کی خارش سے چھٹکارا پالیں گے۔مودی کو خارش زدہ کرنے کی عمران خان کی یہ حکمت عملی بھی کوئی طے شدہ نہیں تھی، بس امریکی صدر کی چرب زبانی نے پاکستانی وزیر اعظم کو فائدہ پہنچایا ،جس کے باعث ہم کریڈٹ لے سکتے ہیں کہ پاکستان نے بھارت اور امریکہ کے تعلقات کی تاریخ میں پہلی بار دونوں کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ تنازعہ کشمیر اور اس کے حل کے سلسلے میں مودی نے امریکی صدر سے مدد مانگی یا نہیں مانگی اس امر کی وضاحت کے لئے دنیا بھارتی دفتر خارجہ کی کسی پریس ریلیز سے قبول نہیں کر سکتی۔پچھلے کالم میں ہم نے لکھا تھا کہ امریکی صدر کو اپنے بیان کی سچائی ثابت کرنا ہوگی، کوئی ثبوت سامنے لانا ہوگا لیکن مودی کے لئے بھی لازم ہو گیا ہے کہ وہ خود سامنے آئیں، اپنی زبان کھولیں، سرکاری اور سفارتی زبان ان کی صفائی پیش کرنے کیلئے کافی نہیں تصور کی گئی۔۔۔۔۔۔۔ جب میں عمران خان کے دورہ واشنگٹن کوماضی کے کسی بھی پاکستانی وزیر اعظم کے دورہ امریکہ سے زیادہ کامیاب قرار دیتا ہوں تو کسی کو پریشانی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئیے، ہمارا اس معاملے پرمتفق ہونا غیر ضروری نہیں ہوگا کہ عمران خان کو امریکہ بلوائے جانے سے پہلے ٹرمپ اور مودی میں بعض امور پر’’اتفاق رائے‘‘ ہو چکا ہوگا ، عمران خان نے وائٹ ہائوس سے باہر قدم رکھتے ہی ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا، وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کی امریکہ کو اطلاع پاکستانی سیکیورٹی ایجنسی نے فراہم کی تھی، یہ شاید پاکستانی خارجہ پالیسی میں ایک انقلابی تبدیلی ہے، لیکن اگر یہی بات اسامہ کی گرفتاری والے دن دنیا تو بتا دی جاتی تو پاکستان کے حق میں زیادہ اچھا ہوتا، اسلام آباد آج معاشی بد حالی کے جس نازک موڑ پر کھڑا ہے، وہاں تک پہنچنے سے بچ جاتا، عوام آج جس معاشی عدم استحکام کے جہنم میں جی رہے ہیں اس جہنم کو عوام سے اور دنیا سے بر وقت سچ بول کر دور رکھا جا سکتا تھا، ہاں! ایک اچھی اطلاع ضرور سامنے آ گئی ہے کہ شکیل آفریدی کو امریکہ کے حوالے کرکے عافیہ صدیقی کو واپس پاکستان لانے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔ ماضی کی حکومتیں بھی ہمیشہ عوام سے جھوٹ بولتی رہیں،عوام سے حقائق چھپائے جاتے رہے، عوام کو اہم قومی فیصلوں سے دور رکھا گیا، اقتدار کے ایوانوں اور عوام کے درمیان سمندروں سے بھی وسیع اور گہری خلیج قائم رکھی گئی، عمران خان بہت سارے ناکام تجربات کے بعد شاید حقائق تک جا پہنچے ہیں، اور انہوں نے کم از کم ماضی کی پالیسیوں کا پوسٹ مارٹم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، ڈیموں کی تعمیر کا ایشو ہو یا موجودہ حکومت میں ابھرنے والے دیگر مسائل ، پاکستان میں رہنے والے شہری ہوں یا امیگرنٹس ،دونوں وزیر اعظم کی توقعات پر پورے نہیں اترے، کیونکہ ہمارے عوام تو حکومتوں اور حکومتی اداروں پر نہ جانے کب سے اظہار عدم اطمینان کر چکے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ اب ہم بات کرتے ہیں اس ’’ عظیم جلسہ عام‘‘ کی جو واشنگٹن ڈی سی میں منعقد ہوا اور جس سے خطاب کیا جناب عمران خان نے، اس کامیاب عوامی اور سیاسی جلسہ کے انعقاد سے متعلق بھی لوگوں کو حقائق سے بے خبر رکھا جا رہا ہے اور تاثر دیا جا رہا ہے کہ جیسے یہ جلسہ اچانک عمران خان کی محبت میں وقوع پذیر ہو گیا ، ہماری دیرینہ صحافی ساتھی اوردوست نخبت ملک نے اس جلسہ کے پس منظر سے پردہ اٹھایا ہے، نخبت ملک ان دنوں واشنگٹن میں صحافت کر رہی ہیں۔ عمران خان نے جتنا بڑا جلسہ وہاں کیا وہ واقعی آسان کام نہیں ، ایسے جلسوں کے انتظامات کے لئے وہاں بہت سارے مشکل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، نخبت ملک بتاتی ہیں کہ عمران خان کے امریکی دارالحکومت میں اس جلسے کا اہتمام ٹیکساس میں رہائش پذیر پاکستانی نژاد سید جاوید انور نے تن تنہا کیا، وہ اس تقریب کے سولو فنانسر تھے، اس جلسے کے انتظامات کو اسلام آباد میں پرائم منسٹر ہاوس کی ایک ٹیم بھی مانیٹر کرتی رہی جو عمران خان نے خود تشکیل دی تھی ، ٹیم میں نعیم الحق، شاہ محمود قریشی، زلفی بخاری، علی زیدی اور بعض سرکاری اہلکار شامل تھے، یہ جلسہ کیپٹل ون ایرینا نامی ایک اسٹیڈیم میں ہوا، جہاں کھیلوں کے بڑے بڑے مقابلے بھی ہوتے ہیں، میوزک کنسرٹ بھی اور کبھی کبھی عوامی اجتماعات بھی، کیپٹل ون ایرینا کی چار دیواری کے اندر ایک وقت میں ہزاروں لوگ سما سکتے ہیں، سید جاوید انور نے اسٹیڈیم کی انتظامیہ کو پانچ لاکھ ڈالرز اخراجات کی مد میں ادا کئے، اسٹیڈیم کا کرایہ دو لاکھ ڈالر ہے جبکہ تین لاکھ ڈالرز جلسہ گاہ میں لائٹنگ، سائونڈ سسٹم، ایل ای ڈی اسکرینز، انشورنس اور سیکیورٹی کی مد میں دینا پڑے، عمران خان اور دیگر لوگوں کی حفاظت کیلئے ڈھائی سو محافظ تعینات کئے گئے تھے، سید جاوید انور کے اندر عمران خان اور پاکستان کے ساتھ ساتھ سیاست سے محبت کا کیڑا بھی موجود ہے، ماضی میں انہوں نے امریکی انتخابات میں ری پبلکن پارٹی کے امیدواروں کے لئے فنڈنگ کی تھی، انہوں نے عمران خان کے لئے امریکہ بھر سے بیس ہزار کے قریب سامعین کا اہتمام کیا تھا، ان کا خیال تھا کہ پانچ ہزار پاکستانی جلسہ گاہ سے باہر اپنے وزیر اعظم کا خطاب سن لیں گے لیکن سامعین کی تعداد بیس ہزار سے کہیں زیادہ ہو گئی، دلچسپ بات یہ بتائی جاتی ہے کہ خطاب سننے کے لئے آنے والوں میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے حامی بھی کثیر تعداد میں موجود تھے، انہیں یہ کہہ کر وہاں آنے پر آمادہ کیا گیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ سے تحریک انصاف کا سربراہ نہیں پاکستان کا وزیر اعظم ملنے آ رہا ہے اور وہ بھی خود امریکہ کی دعوت پر، امیگرنٹس اور پاکستانیت لازم و ملزوم چیز ہیں، اس بات کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملا، تمام پاکستانی اپنے وزیر اعظم کی سیکیورٹی کے حوالے سے بھی خدشات کا شکار تھے اور سب پاکستانی اپنے وزیر اعظم کا جلسہ کامیاب بنا کر امریکہ کو اپنی یگانگت کا پیغام بھی دینا چاہتے تھے، بس اس تاریخی جلسے میں ایک تاریخی غلطی یہ ہوئی کہ میزبان سید جاوید انور عمران خان کو یہ بتانا بھول گئے کہ یہ تحریک انصاف کا نہیں پاکستانیوں کا جلسہ ہے، اگر وزیر اعظم کو اس بات سے آگاہ کر دیا جاتا تو شاید ، امکانی طور پر، اس دن وہ واشنگٹن میں دھرنا برانڈ تقریر نہ کرتے اور اس ’’ عظیم الشان‘‘ اجتماع میں یہ اعلان نہ فرماتے کہ میں پاکستان واپس پہنچتے ہی نواز شریف جو جیل میں دی گئی اے سی اور ٹی وی کی سہولت واپس لے لوں گا۔