شوہر اور جوان بیٹا کھودینے کے بعد دکھ اور اندوہ کی انتہا پر۔ وہ محترم خاتون صبر و رضا کی چادر اوڑھے جس سہولت اور سکون قلب سے بات کرتی تھیں اس نے ایک لمحے کے لیے مجھے گنگ کردیا۔میں نے صبر کو مجسم صورت میں کبھی نہیں دیکھا تھا مگر جب امبر رشید کی ویڈیو دیکھی‘ ان کی باتیں سنیں تو یقین آ گیا کہ صبر و رضا کس دولت کا نام ہے میرا رب یہ دولت کیسے انمول دلوں پر اتارتا ہے۔ قیامت کے اس دکھ میں ضبط کی انتہا دیکھنی ہو تو کوئی اس محترم خاتون کو دیکھ لے۔ وہ نقصان جس نے ان کی زندگی کی طنابیں ہلا دیں اس کے بعد وہ میڈیا سے جس طرح بات کر رہی ہیں جس طرح انہوں نے اپنے دلی احساسات کا اظہار کیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے اندر روحانیت کا کوئی چراغ روشن ہے جس کی روشنی ہمارے عدم برداشت سے بھرے دلوں کو بھی منور کر رہی ہے۔وہ کس سہولت اور اطمینان سے کہتی ہیں کہ ’’مجھے قاتل پر افسوس ہوا کہ اس کا دل محبت سے خالی اور نفرت سے بھرا ہوا تھا۔‘‘ اینکر پرسن سوال کرتی ہے کیا اس سانحے کے بعد بھی آپ مسجد جائیں گی تو مضبوط ایمان والی خاتون کہتی ہیں۔ کیوں نہیں کیونکہ یہی چیز ان کو دکھ کی گھڑی میں مضبوط کرتی ہے۔ وہ صبر و ضبط کے نجانے کس مرحلے پر اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے کہتی ہیں کہ انہیں اپنے شوہر پر فخر ہے۔ وہ دوسروں کا خیال رکھنے والا اور انسانوں سے محبت کرنے والا تھا اور اسی محبت کی وجہ سے اس نے دوسروں کی زندگی بچانے کو اپنی زندگی سے مقدم جانا۔‘‘ محترمہ امبر رشید کی ایک ایک بات میں روشنی ہے۔ عدم برداشت کے جہنم میں جلتے ہوئے انسانوں کے لیے پیغام ہے۔بلاشبہ اس خاتون نے سلامتی اور امن کا پیغام دینے والے دین کی سچی ترجمانی کی اور پوری دنیا کو محبت‘ برداشت اور امن کا پیغام دیا۔سوال یہ ہے کہ دین تو برداشت‘ امن اور سلامتی کا درس دیتا ہے لیکن اس دین کے نام نہاد ٹھیکیداروں نے اپنے رویوں اور کردار سے اسے عدم برداشت اور جبر سے جوڑ دیا ہے۔ تازہ ترین واقعہ اس عدم برداشت کا بہاولپور میں ہوا جہاں ایک بی ایس سمیسٹر فائیو کے طالب علم خطیب حسین نے اپنے انگریزی کے پروفیسر کو چھریوں سے وار کر کے سٹاف روم کے اندر قتل کردیا۔ عدم برداشت کی یہ انتہائی خوفناک مثال ہے۔ یہ معاشرہ کس نہج پر چل پڑا ہے۔ ہر کوئی دوسرے کا گلا کاٹنے پر آمادہ نظر آتا ہے۔ معاشرے میں سیاسی نظریات‘ مذہبی آئیڈیالوجی‘ مسالک اور فرقوں کی بنیاد پر ہونے والی تقسیم در تقسیم تباہ کن ہے۔ سوشل میڈیا پر دیکھیں تو ہر شخص منہ سے انگارے اگل رہا ہے۔ بدتہذیبی‘ بدتمیزی عروج پر دکھائی دیتی ہے۔ ہر کوئی مخالف کو زیر کرنے شکست دینے اور روندنے پر آمادہ ہے۔جون ایلیا نے شاید ایسی ہی خوفناک صورت حال پر یہ شعر کہا تھا: اب نہیں کوئی بات خطرے کی اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے! بہاولپور میں جس بدبخت نے اپنے استاد کو قتل کیا وہ بہاولپور کے قریب ایک قصباتی شہر یزمان منڈی کا رہنے والا ہے۔ اس سانحے کے پس منظر کے حوالے سے معلومات بہاولپور سے تعلق رکھنے والے طالب علموں اور پروفیسروں نے سوشل میڈیا پر شیئر کیں جو قاتل اور مقتول پروفیسر کو ذاتی طور پر جانتے ہیں۔ پروفیسر کی شرافت‘ علم دوستی کا گواہ پورا شہر ہے جو ان کے جنازے میں امڈ آیا۔ دوست اور شاگرد گواہی دیتے ہیں کہ انہوں نے کبھی مذہب کے خلاف بات نہیں کی۔ وہ نیک طبیعت اور شرافت کے باعث اپنے شاگردوں میں پسندیدہ استاد تھے۔ پھر اس خطیب حسین کے دماغ میں کس نے اتنا زہر ایک استاد کے خلاف بھر دیا کہ بدبخت نے اپنے استاد کی اپنے ہاتھوں جان لی۔قاتل کے ہم جماعت لڑکوں نے انکشاف کیا کہ وہ کچھ عرصے سے انتہا پسندانہ نظریات کا اظہار کر رہا تھا۔ سوچنے کی بات ہے شدت پسندی کا حامل انسان تو سماج کی کس کس بات کو حرام کہہ کر اس پر کفر کا فتویٰ نہیں لگا دے گا اور یہی ہوا کالج میں ہونے والے ایک فن فیئر کے خلاف اس انتہا پسند ذہنیت نے پمفلٹ بانٹے۔ جب اس سے بھی نفرت اور انتہا پسندی کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی تو استاد کو جا کر بے دردی سے قتل کردیا۔ قاتل طالب علم کے چہرے پر ندامت کے کوئی آثار موجود نہیں۔ تہذیب‘ تمدن‘ برداشت اور انسانیت کی موت ہے یہ! سروں سے بار تمدن اتار کر خوش ہیں یہ لوگ اپنے معلم کو مار کر خوش ہیں شہر بھر میں مگر خوف‘ عدم تحفظ اور سراسیمیگی کی فضا ہے۔ خطیب حسین صرف ایک نہیں ہوگا جس کو ہتھکڑی لگ چکی ہے۔ اس جیسے کئی اور خطیب حسین ہوں گے جن کے ناقص اور خام ذہنوں میں شدت پسندی‘ برداشت اور نفرت کی پنیری لگائی جا رہی ہوگی۔ انسانی معاشرے میں سوچ اگر تعمیر‘ برداشت‘ توازن اور رواداری میں ڈھلے تو معاشرہ پھلتا پھولتا ہے۔ امن اور سلامتی کی فضا میں لوگ اپنی زندگیاں جیتے ہیں۔ اور اگر معاشرے میں انسانوں کی سوچ عدم برداشت‘ نفرت اور انتہا پسندی کی طرف مڑ جائے تو پھر طالب علم استادوں کو قتل کرنے لگتے ہیں۔ایک بار پھر محترمہ امبر رشید کے روشنی دیتے الفاظ کی جانب جاتے ہیں۔ ایک قاتل نے ان کی دنیا برباد کردی اور وہ پھر بھی اس قاتل کے لیے اپنے دل میں ہمدردی محسوس کرتی ہیں کہ اس کا محبت سے خالی اور نفرت سے بھرا ہوا تھا۔اللہ اللہ۔ کیسا دل ان کا۔ دل ہے کہ ہمدردی‘ برداشت‘ محبت‘ صبر اور ایمان کا استعارہ۔کاش اس دنیا میں ہر شخص کے پاس اس محترم خاتون جیسی میٹھی زبان اور نرم سنہری دل ہو۔ جو بدترین دشمن کے لیے بھی ہمدردی اور برداشت سے بھرا ہو: مجھے لاکھوں کروڑوں گر زبان و دل میسر ہوں جہاں میں بانٹ دوں ہر اک کو دل اپنا زباں اپنی