گھر گھر قریہ قریہ اور بستی بستی محبوبِ خدا سید الانبیاء اورمرکز خلائق حضرت محمدﷺ کا میلاد منایا گیا۔سب کا اپنا اپنا انداز جس میں آقاؐ سے محبت مؤدت اور عشق موجزن تھا۔ ظاہر ہے یہ وہی اندر کا جگمگاتا احساس ہے کہ جس کے بارے میں منیر نیازی نے کہا تھا: میں جو اک برباد ہوں آباد رکھتا ہے مجھے دیر تک اسم محمدؐ شاد رکھتا ہے مجھے یوم ولادت سعید کی رات ہی سے مساجد اور بعض گھروں میں جشن برپا رہا۔ ایک ماحول تھا جو ہر سمت چھایا ہوا تھا۔ عشاء اورفجر کی نماز کے بعد ہی سیرینی نمازیوں کے آگے سے گزاری گئی اور پھر اس کے بعد صبح کی محافل میں بھی میٹھے لوازمات۔ خاص طور پر ہمارے لئے جناب ڈاکٹر ناصر قریشی نے اپنے گھر پر کھیر کی دیگ پکوائی اور ہمارا روٹین کا درس محفل میلاد النبیؐ میں تبدیل ہو گیا۔ اب آپ خود بتائیے کہ موٹی بالائی والی کھیر جس پر بادام کی تہہ بھی ہو اسے دیکھ کر شوگر کے مریضوں پر کیا گزرتی ہو گی ؟مگر ایسے میں پرہیز اور احتیاط کی ایسی کی تیسی۔ہم نے تو اس موقع کو غنیمت جانا اور اپنی اگلی پچھلی حسرتیں پوری کیں۔ میرے دوستو! یہ تو ایک نہایت متبرک اور مقدس محفل تھی اور پھر اس میں ذکر خیرالانام ۔ آقاؐ کے نام کا لنگر اوپر سے سبز کشمیری چائے۔ ساڑھے چھ بجے صبح یہ محفل پاک شروع ہوئی۔ حمید حسین صاحب نے حضورؐ کی سیرت پر بات کی۔ آپؐ کی سیرت ہی آپؐ کی صورت ہے جس سے کائنات روشن ہے۔ اس کی مثال نہ مِثل۔ ترشے ترشائے خدوخال‘ مقصد حیات کا مال‘ فضل در فصل جمال اور جلال اس پر قیل اور قال کمال۔ باتیں تو بہت ہوئیں جن سے پیدا ہونے والی روشنی اندر اتری۔ اتنے موتی مگر سنبھالے کس سے جاتے ہیں۔ آپ کی سیرت تو خزانہ ہے سمندروں کا ،کہ غواص غواصی کرتے رہیں اور جھولیاں بھر بھرکر لاتے رہیں۔ ایک دو باتیں معجزات کے حوالے سے ذھن میں رہ گئیں کہ معجزہ کا تعلق نبوت سے ہوتا ہے۔ معجزہ اسے کہتے ہیں جہاں سمجھنے میں عقل عاجز آ جائے۔ یہ اعجازنبیوںکا نصیب ہوتا ہے لیکن ایک بات بہت ہی غور طلب ہے کہ نبیوں کے معجزے نبیوں کے ساتھ ہی ختم ہو گئے۔ مگر ہمارے پیغمبر آخر الزماںؐ کا اعجاز یہ ہے کہ ان کا معجزہ آج بھی زندہ و پائندہ ہے۔ حضورؐ کے معجزہ کی بات کیا کی جائے کہ آپؐ تو سراپا معجزہ ہیں۔ علم ہو کہ عمل ہو آپؐ حرف آخر ٹھہرے۔ علم کی معراج قرآن پاک ٹھہری جو آپؐ کے قلب مبارک پر اتارا گیا اور پھر آپؐ کی زبان مبارک سے ادا ہوا۔ سارے اہتمام اور لوازمات خالق کائنات نے پہلے ہی استوار کر دیے تھے۔ آپؐ جو نہ کسی مدرسہ میں گئے۔ نہ قلم نہ دوات اور نہ کوئی ایسے متعلقہ لوازمات تو پھر آپ کی زبان سے خدا کلام زمزمہ پیدا ہوا جس نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا‘جس کلام کی تاثیر نے پتھروں کو موم کر دیا۔ بڑے بڑے بلاغت کے دعوے داروں کو لاجواب کر دیا۔ لطف کی بات تو یہ ہے کہ اس رائج علم میں شعر و ادب کا بہت عمل دخل تھا اور شاعرانِ عرب کو اپنی فصاحت و بلاغت پر ناز تھا۔ اگرچہ وہ قرآن کے موضوعات اور علوم سے تو لگا نہیں کھاتے تھے مگر زبان و بیان پر تو انہیں فخر بہت تھا۔ مگر جب ان کے کانوں کو اس کلام ایزدی کے الفاظ ٹکرائے تو ان کے لئے حیرتوں کے دروا ہوئے۔ ان کا سب سے بڑا شاعر لبیدکہہ اٹھا کہ یہ بشر کا کلام نہیں آپؐ کی شخصیت اور ذات کو اللہ نے اپنی نگرانی میں تیار کیا تھا۔ آپ کی بے داغ اور قابل رشک جوانی سب کے سامنے تھی۔ دشمن بھی آپ کو صادق اور امین کہتے تھے۔ یہ ساری تیاری ہی تو تھی کہ آپؐ کے کاندھوں پر قرآن کا بارِامانت آنا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ دنیا نے دیکھا کہ آپ کا عمل یعنی آپ کی سیرت قرآن کا آئینہ ہی خود قرآن کی صورت دکھائی دینے لگی۔ آپ کو ناطق قرآن کہا گیا۔ آپؐ کی سنت ہی سے خدا کا کلام لوگوں کے لئے کھلا اور روشنی بن گیا۔ ہدایت بن گیا اورراہ نجات۔ دوسری طرف قرآن کو دیکھیں کہ یہ اس کتاب مقدس کا اعجاز ہی تو ہے کہ یہ لاکھوں کروڑوں دلوں میں اترا۔لفظ بہ لفظ اور حرف بہ حرف بلکہ زبر زیر اور شوشہ شوشہ محفوظ ہوا۔ کمال یہ کہ معنی کے بغیر بھی دلوں میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس میں آج تک کوئی تحریف نہیں ہوئی۔ یہ مسلمانوں کے لئے لائحہ عمل ہے، حیات گزارنے کا نصاب ہے۔ حکمت و آگہی کا یہ بھی تقاضا ہے کہ ہم اس چیز پر بھی نظر رکھیں کہ میلاد مصطفیؐ مناتے ہوئے ہم یا ہمارے بچے کسی مغالطے کا شکار تو نہیں ہو رہے کہ یہ عمل باعث ثواب ہونے کی بجائے الٹا ہماری گرفت کا موجب بن جائے۔ مثلاً ایک پوسٹ نظر نوازہوئی کہ مسجدیں ویران۔ جلوسوں میں ہلڑ بازی‘ سٹیجوں پر ناچ گانے باجوں گاجوں کا اہتمام وغیرہ۔ نبیؐ کی سیرت ہمارے سامنے ہے اور جنہوں نے اس پر عمل پیرا ہو کر دکھایا وہ صحابہ کا طائفہ ہے۔ پھر اس کے بعد بھی ولی اولیاء موجود اپنے عمل کی صورت ہیں۔ گویا بعدمیں دنیاداری کی خرافات کسی طرح بھی اس مبارک موقع پر زیب نہی۔ یہ یوم میلاد کوئی عام تہوار نہیں کوئی رسم یا رواج نہیں کہ جو دل میں آئے کرتے پھریں۔ یہ تو تجدید عہد وفا ہے کہ ہمیں نبیؐ پاک نے جینے کا قرینہ اور سلیقہ دیاکہ ہم نے سیکھا ہے ادب نام محمدؐ کے سبب ۔اس دن آپ غریبوں کو کھانا کھلائیں۔ لاچاروں کی مدد کریں آپؐ کی سیرت کا بیان ہو محافل نعت ہوں’’جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند۔ اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام‘‘ بچوں کو صوم و سلام کی محافل میں لے کرجائیں۔ یہ ہائو ہو اور شور شرابہ میرے پیارے نبیؐ کی ولادت کے دن کوئی علاقہ نہیں رکھتا۔ آپؐ کی ذات توقدم قدم پر رہنما ہے کہ لوگوںکو عزت کیسے دینی ہے۔ گفتگو میں نرمی کیسے برتنی ہے۔ لاچاروں اور بے کسوں کے لئے مدد کیسے بہم پہنچانی ہے۔ ٹوٹے ہوئے دلوں پر حرف تسلی کیسے رکھنا ہے۔ چلیے بات معجزہ سے شروع ہوئی تھی تو اسے وہیں پر ختم کرتے ہیں کہ اس قرآن کے معجزہ کا چیلنج خود خدا نے دے دیا کہ اس کتاب لاریب و ہدایت کے بانی باطنی معاملات تو چھوڑو کہ وہ کسی کے احاطہ ادراک میں آئیں گے اس کی ظاہری صورت ہی کہیں دکھا دو ساری سعی اورکوشش کر لو کسی بھی مددگار کو سوائے اللہ کے بلا لو اورکوئی ایک صورت تو تیار کرکے دکھائو۔ پھر جواب بھی اللہ ہی دیتا ہے کہ سارا علم اس کو ہی ہے کہ تم ہرگز ایسا نہیں کر سکو گے۔ کچھ نے کوشش بھی کی تھی اور جب انہوں نے اپنی کاوش پر غور کیا تو شرمندہ ہو کر رہ گئے۔ وہ سب کچھ سمجھ گئے تھے۔ ان کی انا اور چودھراہٹ آڑے آ گئی۔ جو بھی رہتی دنیا تک اب آپؐ ہی کا سکہ چلے گا کہ آپؐ آخری نبیؐ ہیں۔ یہ بھی آپؐ ہی کا معجزہ ہے: کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں