بین الاقوامی معاملات میں دلچسپی اور مغربی اخبارات سے معلومات کشید کرنے کا شوق رکھنے والوں کے لئے جمال خاشقجی کا نام نیا نہیں ہے۔ وہ موجودہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی حکومت کے انسانی حقوق کے حوالے سے شدید ناقد تھے۔وہ سعودی شہری تھے اور امریکہ کی مستقل رہائش کا ویزہ رکھتے تھے جہاں وہ گزشتہ سال سے خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے جب صحافیوں اور خود شاہی خاندان کے افراد کے خلاف مملکت میں کریک ڈاون ہورہا تھا۔ اپنے قابل رشک حد تک کامیاب صحافیانہ کیریئر کے دوران وہ شاہی خاندان کے انتہائی قریب بھی رہے۔ وہ سعودی خفیہ ایجنسی کے چیف تر کی الفیصل کے مشیر بھی رہے اور ایک عرصہ شاہی خاندان کے ترجمان کا رول نبھاتے رہے ۔ جب شہزادہ محمد بن سلمان اقتدار میں آئے اور انہوں نے شہزادوں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے علمبر داروں کے خلاف انتقامی کارروائیاں کیں تو جمال خاشقجی نے اس پہ احتجاج کیا اور بڑے سخت کالم لکھے۔نتیجتاً سعودی حکومت نے ان پہ اپنی حدود میں ٹویٹ کرنے پہ بھی پابندی لگا دی۔ وہ احتجاجاً ملک چھوڑ کر امریکہ چلے گئے جہاں انہوں نے شہریت کی درخواست دے رکھی تھی۔جمال خاشقجی اور سعودی حکومت کی آپس کی مخاصمت اتنی واضح تھی کہ وہ واشنگٹن میں جب بھی سعودی سفارت خانے کسی کام سے جاتے تو ان کے احباب ان کی خیریت ضرور دریافت کرتے ۔ اس پس منظر میں جب وہ استنبول میں سعودی سفارت خانے کے اندر اپنی شادی کے سلسلے میں کاغذات بنوانے کے لئے موجود تھے تو پراسرار طور پہ لاپتہ ہوگئے ۔ اس پراسرار گم شدگی کی اطلاع ان کی سفارت خانے کے باہر موجود مبینہ منگیتر حدیث چنگیزنے میڈیا کو دی جو خود ایک پراسرار کردار ہے ۔موصوفہ کو ان کی منگیتر کی حیثیت سے ان کے خاندان میں کوئی نہیں جانتا اور یہ باحجاب خاتون ایک موقر مغربی جریدے کے مطابق اخوان المسلمون سے تعلق رکھتی ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ اس سے قبل جب جمال خاشقجی استنبول میں سعودی قونصل خانے گئے تھے تو وہاں موجود عملے نے ان کا گرمجوشی سے استقبال کیا تھا اور ان کی امیدوں کے برخلاف وہاں ان کے لئے کوئی وارنٹ گرفتاری موجود نہ تھا۔ اس لحاظ سے وہ مطمئن تھے اور جب وہ دوسری بار سعودی قونصل خانے گئے تو انہیں کوئی خوف نہ تھا۔ موصوفہ کا یہ بیان جمال کی قریبی صحافی دوست میگی میشل سالم اور دیگر کے بیانات کے خلاف جاتا ہے جب وہ انہیں واشنگٹن میں بھی سعودی سفارتخانے میں محفوظ نہیں سمجھتے تھے۔ حدیث چنگیز نے ترکی کے اس طیب اردگان سے انصاف کی اپیل کی جو خود اپنے ملک میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد ہزاروں صحافیوں کو پابند سلاسل کرچکے ہیں ۔ اسی آپریشن کلین اپ کے دوران امریکی پادری اینڈریو برنسن کو ترکی نے گرفتار کرلیا تھا اور اسے ناکام فوجی بغاوت کے مبینہ ذمہ دار فتح اللہ گولن جو امریکہ میں سیاسی پناہ لیے ہوئے ہیںکے بدلے میں رہا کرنے کی پیشکش کی تھی جسے ٹرمپ نے یہ کہہ کر حقارت سے رد کردیا تھا کہ وہ یرغمالیوں کا سودا نہیں کرتے۔گزشتہ دنوں پادری اینڈریو برنسن کے مسئلے پہ ترکی اور امریکہ کے تعلقات کشیدہ ہوتے جارہے تھے۔ جمال خاشقجی کی پراسرار گم شدگی کے بعد حیرت انگیز طور پہ ترکی نے پادری اینڈریو کو بغیر کسی تاوان کے رہا کردیا ہے جس سے موگیمبو اتنا خوش ہوا کہ اسے ترکی کا شاندار اقدام قرار دیا۔حدیث چنگیز سے صدر ٹرمپ کو اتنی ہمدردی ہوگئی ہے کہ وہ اسے وائٹ ہاوس بلانے پہ مصر ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ واقعی کوئی اقدام کرنے کو تیار ہیں تو وہ وائٹ ہاوس ضرور جائیں گی ۔ یہ اقدام سعودی عرب کے خلاف ہوگا یہ بتانے کی ضرورت نہیں لیکن یہ اس سعودی عرب کے خلاف ہوگا جس کے نووارد ولی عہد جب شہزادوں کو الٹا لٹکا کر مار رہے تھے تو ٹرمپ ان کی پیٹھ تھپک رہے تھے ۔ اس کے بعد بھی محمد بن سلمان نے جوچاہا کیا لیکن ٹرمپ کو انسانی حقوق یاد آئے نہ صحافیوں اور انسانی حقوق کے نمائندوں کی گرفتاریو ں کے خلاف ان کا ٹوئٹ چہچہایا۔ہاں اس کینیڈا کی شامت ضرور آئی جس نے سعودی عرب کے اندرونی معاملات میں دخل دینے کی جسارت کی کیونکہ امریکہ ایسا چاہتا تھا۔اب تادم تحریر حالات کچھ یوں ہیں کہ ایک سعودی صحافی کی ترکی میں اس کے اپنے ملک کے سفارت خانے میں پراسرار گم شدگی یا ہلاکت کا تمام تر ملبہ اس کی اپنی حکومت پہ ڈال دیا گیا ہے اور مغربی میڈیا ہی نہیں سی آئی اے کے سابقہ حکام بھی چیخ چیخ کر سعودی عرب کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ ترکی نے پہلے دن ہی دعویٰ کردیا کہ جمال خاشقجی کو سعودی عرب سے آنے والی پندرہ رکنی ٹیم نے بہیمانہ طریقے سے ٹھکانے لگایا ہے۔ اس پہ اعتراض کیا گیا کہ آیا ترکی سعودی عرب کے سفارت خانے میں جاسوسی کے آلات نصب کیے ہوئے ہے جو بجائے خود سفارتی جرم ہے تو اس نے پینترا بدلا اور امریکہ اور ترکی میڈیا میں مشترکہ طور پہ یہ خبر پھیلائی گئی کہ جمال خاشقجی کی کلائی پہ بندھی ایپل واچ نے تمام واقعہ ریکارڈ کیا جو ان کے آئی فون سے منسلک تھا جو باہر کھڑی ان کی پراسرار منگیتر کے پاس تھا۔جب وہ فون پہ تمام کارروائی دیکھ رہی تھی تو احباب سے کیا پوچھ رہی تھی؟جمال خاشقجی پہ سعودی سفارتخانے کے اندر جو کچھ بھی گزری ہو،اس افسوسناک مبینہ قتل نے عشروں سے دوستی کی منازل طے کرنے والے سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تعلقات اس حد تک کشیدہ کردیے جتنا کہ امریکہ اسے کشیدہ کرنا چاہتا تھا۔ اس کی وجوہات میں سے ایک تو یہ تھی کہ سعودی عرب بار بار امریکی مطالبے پہ بھی تیل کی پیداوار بڑھانے کو تیار نہیں نہ ہی اس کی قیمتیں کم کرنے کو راضی ہے بلکہ اس کشیدہ ماحول میں اپنے خلاف کئے گئے کسی بھی اقدام کا مقابلہ وہ اسی ہتھیار سے کرنے کا عندیہ دے چکا ہے۔ جمال خاشقجی کی مبینہ ہلاکت کو وجہ بنا کر جو خود امریکی سی آئی اے کی کارستانی لگتی ہے، اس ماہ ریاض میں ہونیو الی فیوچر انویسٹمنٹ انیشییٹو سے امریکہ کی میڈیا اور انویسٹمنٹ کمپنیوں نے شرکت سے معذرت کرلی ہے ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ امریکہ سرکاری طور پہ اس میں شریک ہوگا ۔دنیا کی امیر ترین شخصیات میں سے ایک اور ورجن گروپ کے مالک رچرڈ برنسن نے سعودی عرب میں نیوم منصوبے کے تحت خود کو اس کے دو سیاحتی اور دو خلائی منصوبوں سے علیحدہ کرلیا ہے۔اس کے علاوہ نیوم کے ایڈوائزری بورڈ کے چار ممبروں نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے ۔ ان سب سے بڑھ کر واشنگٹن میں معروف سعودی لابنگ فرم دی ہاربر گروپ نے اپنا معاہدہ سعودی عرب سے منسوخ کردیا ہے۔ پرجوش اور تیز رو محمد بن سلمان کے وژن 2020 ء کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے جس کے تحت وہ سعودی معیشت کو تیل کی انحصاری سے نکالنا چاہتے تھے ورنہ اس تمام قصے میں اگر کچھ منسوخ ہونا چاہیے تھا تو وہ امریکہ سے سعودی حکومت کے 110 بلین ڈالر کے حربی معاہدے ہیں لیکن نہیں ہونگے کیونکہ لاک ہیڈاور ریتھیان ایسا ہونے نہیںدیں گی ۔روس اور چین بھی تو اسی بازار میں موجود ہیں۔