میں نہیں جانتا کہ مصر کی عظیم تہذیب کا نوحہ لکھوں یا صرف اس اعلان پر اکتفا کروں کہ ’’عرب بہاراں‘‘ منوں مٹی تلے دفن کر دیا گیا ہے۔ فراعنہ کے دیس پر اللہ نے بڑے کرم کئے ہیں۔ موسیٰ کو نبی بنا کر بھیجا‘ عمروبن عاص سا فاتح عنایت کیا اور اس قرن آخر میں بھی عرب بہاراں کا عروج دریائے نیل کی اس سرزمین پر ہوا۔ قاہرہ کے التحریر سکویر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ پوری دنیا اور عالم عرب پر اس کے جو اثرات بھی پڑے‘ وہ اپنی جگہ‘ مگر مصر میں جمہوریت کا ڈول ڈالا گیا۔ فوجی حکومت کا خاتمہ ہوا اور انتخاب کے نتیجے میں بالآخر وہاں اسلامی قوتوں کو فتح ہوئی یہ قوتیں کون سی تھیں۔ ان کا ابھی تعارف کراتا ہوں۔ یہ صرف اخوان المسلمین ہی نہ تھے کچھ دوسرے بھی تھے۔ مصر کی سرزمین اسلام کی تعبیروں کے حوالے سے ہمیشہ ایک عجیب کشمکش کا شکار رہی ہے۔ نتیجہ مگر یہ نکلا کہ محمد مرسی کو مصرکا پہلا جمہوری صدر منتخب کر لیا گیا۔ اس نے30جون 2012ء میں منصب صدارت کا حلف اٹھا لیا ان کی پارٹی فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی تھی۔ جو اخوان ہی کا گویا سیاسی نام تھا۔ حسن البنا کی اخوان ایک طرح سے برصغیر کی جماعت اسلامی سے بھی پہلے وجود میں آ گئی تھی اور اسلامی نظام کی داعی تھی۔ پہلے جمال عبدالناصر نے ان کے لیڈروں کو چن چن کر پھانسیاں دی۔ بالخصوص سید قطب کی موت نے تو پوری اسلامی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا مگر اخوان کا اثر پھیلتا ہی گیا۔ یہ کوئی مولویوں کی جماعت نہ تھی۔ اس میں بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگ شامل تھے محمد مرسی نے بھی قاہرہ سے انجینئرنگ میں بی ایس سی کی ‘ پھر اسی شعبے میں ماسٹر کیا اور آخر میں کیلیفورنیا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ ان کا تخصص مٹیالوجی میں تھا یعنی دھاتوں کے علوم کے ماہر تھے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہمارے ڈاکٹر قدیر خاں ہیں۔ ان کے دل میں بھی اپنے وطن اور دین کی محبت ایسے ہی تھی جیسی ہمارے محسن پاکستان میں ہے۔ وہ وہاں پڑھاتے بھی رہے اوراخوان سے وابستہ بھی رہے۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں انہوں نے وطن لوٹنے کا فیصلہ کیا۔ وہ قومی اسمبلی کے کے رکن بھی منتخب ہوئے‘ اخوان کے ٹکٹ پر‘ مصر کے فرعونوں اور ان کے خدائوں کو اخوان کبھی ایک آنکھ نہیں بھائی۔ پانچ سال گزارنے کے بعد اگلے انتخابات میں انہیں ہرا دیا گیا اور جیل میں بھی ڈال دیا گیا۔ سامراج دنیا بھر میں اسلام کے نام لیوائوں کے ساتھ یہی کرتا آیا ہے۔ عرب بہاراں نے مگر خطے کی صورت حال بدل ڈالی تھی تیونس کے ایک ریڑھی والے کے قتل سے شروع ہونے والی تحریک نے پورے خطے میں ایسا انقلاب برپا کیا کہ جمے جمائے حکمرانوں کے راج سنگھاسن ڈول گئے۔ مصر میں تیس سال سے حسنی مبارک کا راج تھا۔ فوج نے انہیں چلتا کیا۔ہرجگہ انتخاب کا عمل شروع ہوا۔ مصر میں مرسی نے اخوان سے ہٹ کر ایک مصلحت دینی کے تحت فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی بنا رکھی تھی۔ اس پارٹی نے انتخابات میں 40فیصد ووٹ حاصل کر لئے۔ ایک دوسری مذہبی جماعت النور کے نام سے تھی جنہوں نے 25فیصد ووٹ حاصل کئے۔ گویا اسلامی ذہن رکھنے والوں کے پاس65فیصد ووٹ تھے اس طاقت کے ساتھ جب مرسی نے منصب صدارت سنبھالا تو پوری دنیا میں اسلامی ذہن رکھنے والوں نے گویا یوں محسوس کیا برسوں کا خواب پورا ہو گیا ہے۔ صرف حسن البنا‘ سید مودودی ‘ سید قطب یا جمال الدین افغانی اور مفتی عبدہ کا خواب ہی نہیں‘ بلکہ ان لوگوں کا خواب بھی جو الگ سے اسلام کا نام لیتے تھے یہ النور والوں کو سعودی پشت پناہی حاصل تھی۔ الازہر کا اپنا مقام تھا۔ دنیا میں سب سے قدیمی اسلامی یونیورسٹی جس کو کم از کم برصغیر میں ہر دوسری اسلامی یونیورسٹی سے زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا ہے۔ پھر وہاں بڑا مضبوط خانقاہی نظام ہے جس کا مجھے تو کم از کم پہلے اندازہ نہ تھا حالانکہ یہ وہ خطہ ہے جہاں شازلیوں نے بیسویں صدی کے مغرب میں ایک انقلاب برپا کر دیا تھا۔ تفصیل بیان کرنا یہاں مشکل ہے آخر ایسے گہنوں یعنی استاد عبدالواحد یحییٰ نے بھی اسی خطے سے فیض پایا اور یہ فیض اردو ادب کے حوالے سے حسن عسکری ‘ نعیم احمد سراج منیر سے ہوتا ہوا ہم تک پہنچا ہے۔ خوشی اسی لئے بھی دو چند تھی کہ عین اس وقت پڑوس میں تیونس اور مراکش میں بھی اسلام کی نام لیوا پارٹیاں جیت گئیں۔ الجزائر میں جب اسلامی سالویشن فرنٹ کی فتح کو روندا گیا تو اندازہ ہو گیا تھا کہ مغرب بحیرہ روم کے اس طرف یورپ کے مقابل اس پورے علاقے سے دستبردار نہیں ہونا چاہتا۔ الجزائرکی تحریک آزادی کے دوران تو فرانسیسی الجزائر کو ایک نو آبادی نہیں فرانس ہی کا حصہ سمجھتے تھے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں سب سے پہلے مراکش نے مصلحت کوشی کا ثبوت دیا اور اعلان کیا کہ ہمارے اسلام کا یہ مطلب نہیں کہ ہم سود اور شراب پر پابندی لگا دیں گے یا ساحل سمندر پر لڑکیوں کو بکنی پہننے کی اجازت نہ ہو گی۔ بتایا گیا یہ علاقہ سیاحت کے لئے مشہور ہے۔ شاید اس کا تحفظ ملحوظ ہو۔ دوسری طرف تیونس کی البنقہ پارٹی نے سیکولر عناصر کو اتحاد کی دعوت دی۔ یہاں کے اسلامی رہنما رشید الفنوشی ایک بڑے ہی بصیرت والے انسان ہیں۔ ان کے تجربے پربہت بات ہو سکتی ہے۔ اس وقت بھی ہوئی جب تیونس کو ترکی جیسا اسلام کا ماڈریٹ ماڈل قرار دیا گیا اب تو خیر وہاں بات بہت آگے جا چکی ہے‘ مگرکوئی ڈر اس لئے نہیں ہے کہ وہاں کی اسلامی قیادت مضبوط اور نیک نیت ہے۔ ایسے میں محمد مرسی سے بھی توقع کی جا رہی تھی کہ وہ ایک مصالحتی آئین قبول کر لیں وہ مگر اسلامی شریعت کو نافذ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ وہ اپنی جمہوری قوت بھی دکھا رہے تھے اورجمہوری انداز سے مخالفوں کے وار بھی برداشت کررہے تھے۔ بلا شبہ ملک کے اندر بھی بعض لبرل قوتوں کو یہ گوارا نہ تھا۔ مرسی نے اس پورے معاملے کو جمہوری انداز سے نبٹاناچاہا۔ مگر سامراج اپنا فیصلہ کر چکا تھا۔ فرانس کے اخبار لاموندے نے تو مرسی کے آنے کے فوراً بعد لکھ دیا تھا کہ یہ زیادہ سے زیادہ چھ ماہ یا ایک سال کی حکومت ہے۔ چنانچہ ٹھیک ایک سال بعد 30جون 2013ء کو جب نئے عہد کی پہلی سالگرہ تھی۔ فوج نے حکومت کا تختہ الٹ کرمرسی کو برطرف کردیا۔ کہیں کہیں سے دھیمی دھیمی آوازیں آئیں۔ مگر امریکہ نے تائید کی کہ ہم سب کچھ پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور سب کچھ ایک نظم اور بندوبست کے تحت ہو رہا ہے۔ گویا یہ فوجی بغاوت نہیں ہے۔ دوسری اسلامی پارٹی النور جس کے 25فیصد ووٹ تھے مخالفوں کی صف میں کھڑی ہو گئی۔ اسے سعودی پشت پناہی حاصل تھی۔ سعودی عرب نے آٹھ بلین ڈالر اور یو اے ای نے 4بلین ڈالر کی امداد کا اعلان کر دیا۔ اسرائیل نے کھل کر فوجی بغاوت کی تائید کر دی۔ مصر کی جامعہ الازہر بھی مرسی کی مخالفت میں فوج کے ساتھ آن کھڑی ہوئی۔ مرسی تنہا رہ گئے۔ غزہ کی پٹی کو صرف ایک راستہ جاتا ہے جو اسے آزاد دنیا سے ملاتا ہے۔ مرسی نے اس راستے پر سے پابندیاں اور قدغنیں اٹھا لیں۔ فوجی ڈکٹیٹر سیسی نے آ کر وہاں انہیں نافذ کر دیا۔ کوئی اقتصادی مدد مصر کے دکھوں کا مداوا نہ کر سکی۔ نہ سعودی نہ اماراتی۔ آخر مصر کو آئی ایم ایف کے پاس بڑی کڑی شرائط کے ساتھ جانا پڑا۔ ہمارے سٹیٹ بنک کے گورنر وہیں سے آئے ہیں۔ آئی ایم ایف کی نوکری کرتے ہوئے ۔اسی لئے کہا جا رہا ہے کہ ہمارے ہاں بھی مصری ماڈل لانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ سامراج اپنے دانت تیز کر رہا ہے۔ جنگ وہی پرانی ہے‘ ۔فراعنہ مصر کے زمانے کی۔ مرسی شہید ہے اس نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے اپنی جان دی۔ اب ان پر الزام یہ تھا کہ انہوں نے قطر کے لئے جاسوسی کی ہے۔ اس پر کیا تبصرہ کریں۔ پورے عالم عرب کو تلپٹ کر دیا گیا ہے۔ عرب بہاراں کے بعد جگہ جگہ حکمرانوں کو خدشات پیدا ہوئے کہیں ان کی باری نہ آ جائے۔ وہ سب ایک طرف مگر جس طرح عراق‘ شام ‘ لبنان‘ لیبیا کو تہس نہس کر کے رکھ دیا گیا۔ یہ ایک بہت دل خراش منظر ہے۔ مجھے یاد ہے جب مصر میں آئین کی جدوجہد جاری تھی تو میں پنجاب یونیورسٹی میں حالات حاضرہ کا مضمون پڑھ رہا تھا۔ روز ہی مرسی کے اقدامات اور خطے کی بدلتی صورت حال پر بات ہوتی۔ آج ایک طالب علم نے فون کر کے ایک طرح سے تعزیت کی اور بڑے تاسف سے پوچھا اب عالم اسلام کا کیا بنے گا۔ کیا جواب دیتا‘ صرف اتنا کہا اللہ سب سے بڑا ہے۔ وہی سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔