معزز قارئین!۔ فاتح سومنات سُلطان محمود غزنوی (971 ئ۔1030ئ) جنابِ عمران خان کے "Ideal" ہیں۔ 4 فروری 2015ء کو جنابِ عمران خان نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’’ ۔ دھرنا ( وزیراعظم نوازشریف کی ) حکومت پر ہمارا پہلا وار تھا۔ سومنات کا مندر فتح ہونے تک ہم بھی محمود غزنوی ؔکی طرح حملے جاری رکھیں گے ‘‘۔ اِس پر 6 فروری2015 ء کو ’’ نوائے وقت‘‘ میںمَیں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’’ سُلطان محمود غزنوی نے ہندوستان پر پہلا حملہ 1009ء میں کِیا ۔ اور 17 واں حملہ 1025ء میں ، یعنی 16 سال بعد ‘‘۔ مَیں نے لکھا تھا کہ ’’ 16 سال تو بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔ 16 سال بعد تو عمران خان 78 برس کے ہو جائیں گے؟ ۔ بہر حال جناب عمران خان صاحب کو داد دینا چاہیے کہ وہ اپنے اعلان کے بعد تین سال اور 6 ماہ کے بعد وزیراعظم پاکستان بننے میں کامیاب ہوگئے۔ "Media Courts" معزز قارئین!۔ 17 ستمبر کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد الیکٹرانک اور 18 ستمبر کو پرنٹ میڈیا پر وزیراعظم عمران خان نے اعلان کِیا کہ ’’ آزادی ٔ اظہار کو ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کِیا جا رہا ہے ، اِس لئے "Media" (اخبارات اور نشریاتی اداروں ) کے حوالے سے شکایات سننے کے لئے ، وفاقی کابینہ نے "Media Courts" قائم کرنے کا فیصلہ کِیا ہے اور ان "Courts" ( عدالتوں )کی نگرانی اعلیٰ عدلیہ کرے گی‘‘۔ جنابِ وزیراعظم کے اِس اعلان کے بعد میڈیا تنظیموں ،’’ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی ‘‘ (A.P.N.S) ، ’’کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز ‘‘ ( C.P.N.E) ’’پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ‘‘ (P.U.F.J) ’’ پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن (P.B.A) نے اور کئی سیاسی تنظیموں نے وفاقی کابینہ ( وزیروں کی مجلس ) کے اِس فیصلے کو مسترد کردِیا تھا ‘‘۔ کل ( 22 ستمبر کو ) روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ کے صفحہ اوّل پر خصوصی رپورٹ شائع کی گئی کہ ’’ حکومت کا متنازعہ میڈیا کورٹس کے قیام کی تجویز واپس لینے کا فیصلہ ‘‘ اور اُس کے ساتھ ہی ’’سی۔ پی ۔ این ۔ ای ‘‘ کے صدر جناب عارف نظامی کا بیان بھی کہ ’’ ہمیں ایک طویل جدوجہد اور بہت سی قربانیوں کے بعد میڈیا کو آزادی ملی لہٰذا اِس پر سمجھوتہ نہیں ہوگا؟‘‘۔ ایک بیان میں ’’ اے ۔ پی۔ این ۔ ایس ‘‘ نے بھی کہا کہ ’’ خصوصی عدالتیں جن کا مقصد میڈیا کو ڈرانا ہے اور اظہار رائے کی آزادی کا گلا گھونٹ دینا نہ صِرف غیر آئینی ہے بلکہ جمہوریت کی رُوح کے خلاف بھی ‘‘۔ سُلطان محمود غزنوی کے بعد ، فارسی زبان کے نامور صُوفی شاعر شیخ سعدی شیرازی (1210ئ۔ 1291ئ) نے اپنی تصنیف ’’ گلستاں ‘‘ کے پہلے باب اور پہلی حکایت میں ’’ در سیرت ِ بادشاہان‘‘ ( بادشاہوں کی عادات ) کے عنوان سے ایک حکایت بیان کی ہے کہ ’’ ایک بادشاہ نے کسی قیدی کے قتل کا حکم دِیا ۔ بیچارے قیدی نے مایوس ہو کر بادشاہ کو گالیاں دینا شروع کردیں ۔ بادشاہ نے اپنے ایک نیک سیرؔت وزیر سے پوچھا کہ ’’ یہ قیدی کیا کہتا ہے ‘‘۔ وزیر نے کہا کہ ’’ بادشاہ سلامت !۔ قیدی یہ کہہ رہا ہے کہ وہ لوگ بڑے اچھے ہیں جو، غصّے کو پی جاتے ہیں اور معاف کردیتے ہیں ‘‘۔ بادشاہ کو قیدی پر رحم آگیا اور اُس نے قیدی کو معاف کردِیا۔ دوسرے وزیر نے ( جو نیک سیرت وزیر کے برعکس تھا ) کہا کہ بادشاہ سلامت!۔ میرے ساتھی وزیر نے آپ سے جھوٹ بولا ہے ۔ قیدی نے آپ کو گالیاں دِی ہیں ‘‘۔ اِس پر بادشاہ نے دوسرے وزیر کی بات سُن کر مُنہ پھیر لِیا اور کہا کہ… ہر کہ ، شاہ آں کُند ، کہ اُو ،گوید! حیف باشد کہ ، جُز نِکو گوید! یعنی۔ ’’ جس شخص ( وزیر) کے کہنے پر بادشاہ عمل کرے اگر وہ ( وزیر ) بادشاہ کو نیک مشورہ نہ دے تو ، اُس شخض(وزیر) پر صد افسوس !‘‘۔ بادشاہ نے دوسرے وزیر سے کہا کہ ’’ پہلے ( نیک سیرت ) وزیر کا جھوٹ تمہارے سچ سے بہتر ہے ۔ اِس لئے کہ اُس کے جھوٹ کی بنیاد بھلائی پر تھی اور تیرے سچ کی بنیاد ربرائی پر‘‘۔ حکایت کے مطابق بادشاہ نے قیدی کو معاف کردِیا‘‘۔ محمود غزنویؔ اور شاعر فردوسیؔ ! معزز قارئین!۔ سُلطان محمود غزنوی نے فارسی کے نامور شاعر ابو القاسم فردوسی ؔطُوسی سے ’’شاہ نامہ ‘‘( Book of Kings) لکھوایا تھا اور اُ س سے وعدہ کِیا تھا کہ ’’ مَیں تمہیں 60 ہزار طلائی دینار بطور انعام دوں گا لیکن، سُلطان محمود غزنوی کے دربار میں تقریباً سبھی وُزراء ( خاص طور پر ابُو سہل ) نے سُلطان کو بہکا دِیا کہ ’’ حضور بادشاہ سلامت!۔کے یہ تصنیف تو سراسر غیر اسلامی ہے اور اِس میں تو آپ کی توہین کی گئی ہے‘‘۔ اِس پر سُلطان محمود غزنوی اپنے وعدے سے مُکر گیا اور اُس نے اپنے چہیتے غلام ایازؔ کے ذریعے 60 ہزار (چاندی کے )دینار بھجوا دئیے ۔ فردوسیؔ نے وہ سارے دینار غریب غُرباء میں تقسیم کردئیے اور خُود غزنی کی حدود سے باہر چلا گیا لیکن، جاتے ہُوئے اُس نے ایک ’’ ہجو ‘‘ ( Satire) لکھ کر ہر دور اور نزدیک تقسیم کرادِی۔ دراصل وہ دَور ، پرنٹ اور الیکٹرانک "Media" کا دَور نہیں تھا۔ نامور شاعر فردوسیؔ کی ہجوؔ چاروں طرف تقسیم ہوگئی۔ ہجوؔ میں سُلطان محمود غزنوی سے مخاطب ہو کر فردوسیؔ نے کہا تھا کہ … اگر مادرِ ، شاہ بانو بدے! مراسیم و زر تا بزانو بدے! …O… پرستار زادہ نیاید بکار! اگرچہ بود زادۂ شہریار ! یعنی۔ ’’اگر بادشاہ کسی ملکہ کے بطن سے ہوتا تو ، مجھے اِتنا سونا ، چاندی دیتا کہ میرے زانو تک آ جاتا لیکن، لے پالک کا لڑکا کام میں نہیں آسکتا، خواہ وہ بادشاہ کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو ؟‘‘ ۔ معزز قارئین!۔28 جولائی 2017ء کو میاں ثاقب نثار چیف جسٹس تھے جب، سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہ میں ، جسٹس اعجاز افضل خان ، جسٹس گلزاز احمد ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز اُلاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے پانچوں جج صاحبان نے متفقہ طور پر آئین کی دفعہ "62-F-1" کے تحت وزیراعظم میاں نواز شریف کو صادقؔ اور امینؔ ( نہ ہونے ) پر تاحیات نااہل قرار دے دِیا تھا تو، مَیں نے ۔’’ سلام!۔ ’’ عدالتی انقلاب‘‘۔ تو شروع ہوگیا ؟‘‘ ۔ کے عنوان سے اپنے 30 جولائی 2017ء کے کالم میں لکھا تھا کہ ’’ ریاست پاکستان کے چار ’’Pillers ‘‘(ستون) ہیں۔ ’’Legislature‘‘ ( پارلیمنٹ) ’’Executive‘‘ (حکومت) اور ’’Judiciary‘‘ ( جج صاحبان) اور ’’Media‘‘ ( اخبارات اور نشریاتی ادارے) ہیں لیکن ،میرے پیارے پاکستان میں عرصۂ دراز سے صرف ’’ Judiciary‘‘ اور ’’Media‘‘ ہی ریاست پاکستان کے خیر خواہ ستون ہیں۔ اگر کوئی ’’Legislature‘‘ اور ’’Executive‘‘ عوام کی بھلائی پر توجہ دیتی تو آج پاکستان میں 60 فی صد لوگ غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کیوں کر رہے ہوتے؟۔ "Judiciary and Media" حقیقت تو یہی ہے کہ ’’ نیا پاکستان ‘‘ اور ’’ ریاست ِ مدینہ جدید‘‘ کے بعد بھی حالات وہی ہیں جو، اِس سے پہلے تھے۔ پارلیمنٹ اور حکومت وہ سب کچھ کر رہی ہے ؟ ۔ خرابیوں کا علاج یہ ہے کہ ’’حکمران میڈیا سے نہ ڈریں۔وزیروں کے بجائے وزارتِ اطلاعات و نشریات اور "P.E.M.R.A" کا انتظام و انصرام صِرف اور صِرف انفارمیشن گروپ کے اعلیٰ افسران ہی کو انجام دینے دیں ۔ "Central Superior Services" میں مختلف شعبوں کے ماہرین کو بھی وزیروں کی بہت ہی کم مداخلت سے اپنے اپنے مقام پر اپنے فرائض انجام دینے کا موقع دیں ۔ اِس ضرب اُلمِثل پر بھی غور فرمائیں کہ ’’ وزیر چُنیں شہریار ے چُناں ‘‘۔ ( یعنی ۔جیسے وزیر ، ویسا ہی بادشاہ ہوگا )۔ مصّور پاکستان علاّمہ اقبالؒ بھی حضرتِ فردوسی ؔکے مدّاح تھے ۔ آپ ؒ نے شاید ’’ نیا پاکستان‘‘ کے ہر با اختیار شخص کو مخاطب کرتے ہُوئے پیشگی کہہ دِیا تھا کہ … خُودی کو نہ دے سِیم و زر کے عوض! نہیں شعلہ دیتے شرر کے عوض! …O… یہ کہتا ہے فردوسی دِیدہ وَر! عجم جس کے سُرمے سے روشن بصر!