سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں پینے کے پانی سے متعلق معاملے کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ’’جن لوگوں نے اب ڈیم کو روکنے کی کوشش کی ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6کے تحت کارروائی کروں گا‘‘ اگرچہ اکثر ماہرین آرٹیکل چھ کو صرف آئین کی تنسیخ سے متعلق اہمیت دیتے ہیں تاہم چیف جسٹس کی جانب سے اس کے مطالعہ کی بات سے کچھ نئی تشریح یا ممکنہ قانون سازی کی طرف اشارہ ملتا ہے۔پانی کی کمی ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے جسے حل کرنے کے لیے نئے آبی ذخائر کی ضرورت ہے۔ اسی احساس کے تحت چیف جسٹس صاحب نئے ڈیموں کی تعمیر کے لیے فنڈ قائم کر چکے ہیں جس میں روزانہ دو کروڑ کے لگ بھگ رقم جمع ہو رہی ہے۔ عموماً ڈیموں کی تعمیر حکومتوں کا کام ہوتا ہے۔ پاکستان کی حکومت سے بھی یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایسے مسائل سے فوری طور پر عہدہ برا ہو جو مستقبل میں قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتے ہوں۔ ماضی کی حکومتوں نے یہ ذمہ داری پوری نہ کی جس کی وجہ سے ملک آبی بحران کی طرف بڑھنے لگا۔ پاکستان میں دونوں بڑے ڈیم ساٹھ اور ستر کے عشرے میں تعمیر ہوئے۔ یہ ڈیم اپنی طبعی عمر مکمل کرنے کے قریب ہیں۔ دوسری طرف وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو کسی نہ کسی حیثیت میں اقتدار میں شریک رہیں۔ ان حکمران جماعتوں نے ذاتی اقتدار اور خاندانی مفادات کے تحفظ کے لیے کئی طرح کے تحریری و غیر تحریری معاہدے کر رکھے ہیں لیکن تعجب کی بات ہے کہ ملک کو لاحق مسائل سے نجات کے لیے ان کے درمیان ابتدائی نوعیت کی مشاورت تک نظر نہیں آئی۔ بعض سیاسی جماعتوں کی وجہ سے کالا باغ ڈیم جیسا مفید منصوبہ متنازع حیثیت اختیار کر گیا۔ اس ڈیم کی تعمیر نہ ہونے کے باعث پاکستان میں آبپاشی اور توانائی کے شعبوں میں بحران پیدا ہوا۔ حالیہ دنوں بعض سیاستدانوں نے ایک بار پھر ایسے بیانات جاری کیے جن کا مقصد ڈیموں کی تعمیر کو متنازع بنانا‘ چیف جسٹس کے اقدام پر اعتراض اٹھانا اور ڈیم فنڈ میں رکاوٹ ڈالنا دکھائی دیتا ہے۔ پاکستانی قوم چونکہ پہلے ہی ایسے غیر ذمہ دار طرز عمل کے نتائج بھگت رہی ہے لہٰذا چیف جسٹس نے آرٹیکل 6کے تحت ڈیم مخالفین کے خلاف کارروائی کا عندیہ دے کر انہیں یاد کرایا ہے کہ ریاست پاکستان کے مفادات کے خلاف کسی نوع کی سرگرمی ملک سے غداری کے مترداف ہو گی۔ آئین کے آرٹیکل 6کے تحت آئین کو توڑنے اور ایسا کرنے والے کی مدد کرنے والے تمام افراد ریاست سے سنگین بغاوت کے اس جرم میں برابر کے شریک تصور کیے جائیں گے۔ جس کی سزا پارلیمنٹ نے عمر قید یا موت تجویز کر رکھی ہے۔آئینی ماہرین آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کے متعلق وضاحت کرتے ہوئے تین ضمنی دفعات کا ذکر کرتے ہیں۔ (i)کوئی فرد جو آئین کی تنسیخ کرے یا ایسا کرنے کی سازش کرے،آئین کو توڑے یا ایسا کرنے کی کوشش یا سازش کرے، طاقت کے ذریعے، طاقت دکھا کر یا کسی دوسرے غیر آئینی طریقے سے،وہ سنگین بغاوت کا مجرم ہو گا۔ (ii)ایسا فرد جو مدد یا تعاون کرے اس اقدام کی جو شق نمبر ایک میں درج ہے، وہ بھی سنگین بغاوت کا مجرم ہو گا۔ (iii)مجلس شوریٰ یا پارلیمنٹ اس جرم میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے تحت سزا تجویز کرے گی۔ غالباً چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سمجھتے ہیں کہ آرٹیکل چھ کی تشریح میں ریاست کے مفاد کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ پینے اور آبپاشی کی ضروریات کے لیے پانی کی دستیابی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ پانی کی دستیابی کے لیے اقدامات کے خلاف بیانات جاری کرنا یا سازش کا حصہ بننا ایک طرح سے پورے ملک کے لوگوں کی زندگی خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ جس سے ریاست کا بنیادی ستون(آبادی) منہدم ہونے کا خدشہ ہے۔ ہمارے ہاں نئے ڈیموں کی تعمیر کو عموماً بجلی کی ضروریات کے حوالے سے دیکھا جا رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ آبپاشی اور پینے کے لیے صاف پانی کی دستیابی بجلی سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ نئی حکومت سے تبدیلی کی جو توقعات وابستہ کی جا چکی ہیں ان میں سے ایک نئے ڈیموں کی تعمیر کا معاملہ ہے۔ وزیر اعظم عمران خان پچھلے پانچ سال سے متواتر نئے آبی ذخائر کی تعمیر کے متعلق بات کرتے رہے ہیں۔انہوں نے کے پی کے میں بعض چھوٹے ڈیم تعمیر کیے مگر بڑے ڈیموں کے لیے وفاقی حکومت کو مرکزی کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ گزشتہ حکومت کو جب اقتدار ملا تو بجلی کی طلب و پیداوار کے مابین 5ہزار میگاواٹ کا شارٹ فال تھا۔ 2018ء میں ن لیگ حکومت جب رخصت ہوئی تو یہ شارٹ فال 10ہزار میگاواٹ تک جا پہنچا۔ اسی طرح گردشی قرضے کا معاملہ تھا جو 2013ء میں 400ارب روپے تھا لیکن 2018ء آتے آتے اس کا حجم 1000ارب روپے تک جا پہنچا۔ اس گردشی قرض کی ایک بڑی وجہ بجلی پیدا کرنے کے لیے تیل پر انحصار ہے۔ آبی ذخائر نہیں تعمیر ہوں گے تو تیل کا استعمال بجٹ پر بھاری دبائو ڈالنے کا سبب ہو گا۔ دیامر بھاشا ڈیم 4500میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہو گا۔ اس ڈیم کے ذریعے 85لاکھ ایکڑ فیٹ پانی ذخیرہ کیا جا سکے گا جسے آبپاشی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کی تعمیر سے تربیلا کی زندگی 35برس مزید بڑھ سکے گی اور دریائے سندھ میں آنے والے سیلابوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔بھاشا ڈیم کے سپل وے 272میٹر بلند ہوں گے اور ان پر 15گیٹ نصب کیے جائیں گے۔ ڈیم کے دونوں اطراف زیر زمین دو پاور ہائوس تعمیر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ بھاشا ڈیم کی تجویز سب سے پہلے 2006ء میں سامنے آئی۔ اس وقت اس کی لاگت کا تخمینہ 6ارب ڈالر لگایا گیا تھا۔ حکومتوں کی مالیاتی بد انتظامی اور قرضوں کے غلط استعمال کی وجہ سے کئی بار اس منصوبے کی تعمیر کو التواء میں ڈالا گیا۔ پاکستان کے پاس اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ بھارت نے سفارتی ذرائع سے دنیا بھر میں اس منصوبے کے خلاف مہم چلا رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایشیئن ڈویلپمنٹ بینک، ورلڈ بینک‘ کویت فنڈ فار عرب اکنامک ڈویلپمنٹ نے بھاشا ڈیم کے لیے فنڈز فراہم کرنے سے معذرت کر لی۔ نومبر 2017ء میں چین کے ساتھ قرض کے لیے بات چیت اس وجہ سے ناکام ہو گئی کہ چین کی شرائط پاکستان کے لیے ناقابل قبول تھیں۔ ان شرائط میں سے ایک بھاشا ڈیم کی ملکیت کا مطالبہ بھی تھا۔ چین نے ڈیم کی تعمیر کا تخمینہ 14ارب ڈالر لگایا۔ پاکستان کو معلوم ہو چکا ہے کہ دنیا میں اس کے خلاف چلائی جانے والی مہم کے کچھ مددگار ملک کے اندر موجود ہیں۔ ملک کی بقا اور قومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ ڈیم کے خلاف بیانات جاری کرنے والوں سے کسی نرمی کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ پاکستان کئی طرح کی سازشوں کا شکار رہا ہے۔ ان سازشوں نے ہماری ترقی کی صلاحیت کو متاثر کیا ہے۔ نئے ڈیموں کی تعمیر میں موجود رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ممکن ہو سکے تو پارلیمنٹ میں قانون سازی بھی ہو سکتی ہے۔