ایک صاحب جن کا اس شعبے میں کافی تجربہ ہے، بہت سے نام، چینل اور فن کار بدلتے رہنے کے باوجود وہ بہت سے لوگوں کے پسندیدہ رہے ہیں لیکن رفتہ رفتہ ان کی خود پسندی اور ہیڈماسٹرانہ طبیعت مزاح پر غالب آتی چلی گئی۔ حسِ مزاح کی جگہکرائم رپورٹنگ انگڑائی لے کے بیدار ہو گئی۔ خود سری اور خود رائی نے پروگرام کا توازن بگاڑ دیا۔ ادب، ظرافت، شرافت دُم دبا کر بھاگ گئے۔ِِِِ وہ لغت اور جگت دونوں میں ڈنڈی مارتے چلے گئے، رعونت اور تعلّی کے مقابل لطافت کی تجلّی کو منھ کی کھانا پڑی۔ ہر پروگرام میں فنکاروں ہی کی نہیں بعض ہیروز کی بھی تذلیل کرناان کا پسندیدہ مشغلہ بنتا گیا۔تمام معروف فنکار اِس شدید مزاجی کی تاب نہ لاتے ہوئے دیگر لالہ زاروں کی جانب پرواز کر گئے، اہلِ حرفہ باقی رہ گئے۔ بہت سے لوگوںکو نہ جانے کیوں اتنے سالوں سے خبر ہی نہیں ہو سکی کہ ظرافت کو اوپر اٹھانے کے لیے ظریف کو عجز کا لبادہ اوڑھنا پڑتا ہے کیونکہ مزاح خوشبوئیں بکھیرنے کا عمل ہے، نئی سے نئی بات، انوکھے سے انوکھے انداز سے بات کرنے کا ہنر ہے، ایک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کا ڈھنگ ہے۔ پھر ایک حرکت یہ بھی ہوتی رہی کہ کسی زبوں حال شخص کو ماسٹراور کسی مُتفنی سے کردار کو ’پروفیسر‘ بنا کے پروگرام میں بٹھا دیا اور دونوں کی مذاق کے نام پر خوب خوب مٹی پلید کی جاتی رہی۔ استاد جو معاشرے کا سب سے با عزت فرد ہے،ایک پیغمبرانہ پیشہ ہے، آدمی کو انسان بنانے پر فائز ہے، اس کی توہین یا تضحیک سے متعلق سوچا بھی کیسے جا سکتا ہے؟ اگر یہ کسی ذاتی رنجیدگی کا شاخسانہ بھیہے، تو اس کے لیے کئی اور ’بہتر‘ ٹوٹکے بدتمیزی کی دنیا میں رائج ہیں۔ ایک اور نام نہاد مزاحیہ پروگرام جس کا نام بھی کسی زمانے میں خاکسار ہی نے وضع کیا تھا۔ تب بعض احباب کے اکسانے پر ایسا کوئی سلسلہ جاری کرنے کی تمنا دل میں تھی لیکن اس شعبے کی صورتِ حال دیکھ دیکھ کے خواہش کو آرام آ گیا، آرزو کو چَین مل گیا۔ یہ پروگرام بھی دو اچھے فن کاروں کے باوجود اپنے فضول اور غیر لچکدار فارمیٹ کی نذر ہو چکا ہے۔ یہ لوگ دس سال سے کسی خاتون کو کسی مرد کے ساتھ ٹائی ٹینک پہ بھیجنے، لفٹ پہ چڑھانے اور ناپسندیدہ شخص کے ساتھ سیلفی بنوانے پر بضد ہیں۔ کرپٹ سیاست دانوں کی ڈھٹائی کی حد تک ہمدردی کی تند مَیل اس کی اَن گھڑ انتظامیہ کے ذہن سے نکل ہی نہیں رہی۔ لگتا ہے کسی نے انھیں طنز اور تضحیک کا مفہوم بھی نہیں سمجھایا۔ ایک صاحب ٹی وی ڈرامے سے حاصل شدہ شہرت کو جیسی تیسی شاعری اور ایسے تیسے شوز میں کیش کرانے میں بخوبی کامیاب ہوئے۔ اس وقت ان کے پاس بھی اچھے فنکاروں کی ٹیم ہے لیکن شخصیت میں کُوٹ کُوٹ کر بھری نرگسیت، ہر فن مولائیت کے تیز بخار نیز دانشور بننے کے دیرینہ شوق نیظرافت کا بہت نقصان کیا۔ انھیں بھی بعض دیگر زعما کی طرح پتا ہی نہیں چل سکا کہ خود ستائی توجگ ہنسائی کی بڑی بہن ہوتی ہے۔ مزاح کی نگری میں تو فائرنگ سکواڈ کا حصہ بننے کی بجائے خود کو ٹارگٹ کی جگہ رکھنا ہوتا ہے۔ ظرافت تو ایسا آئینہ خانہ ہے، جہاں سیدھے سادھے فلسفے، براہِ راست تعریف ،چھِبی مارکہ تنقیص کی بھی گنجائش نہیں ہوتی، پلّو مار کے دیا بجھانا ہوتا ہے۔ اطہر شاہ خاں نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ مجھے اپنے پروگرام کے لیے کسی انتہائی احمق کریکٹر کی تلاش تھی۔ بہت ڈھونڈا، نہیں ملا، پھر ایک دن آئینے کے سامنے نظر آ گیا۔ آج دنیا جانتی ہے کہ جو شہرت مسٹر جیدی کے حصے میں آئی، وہ اطہر شاہ خاں کو نہ مل سکی۔ ممتاز مفتی نے لکھا ہے کہ اگر ’تلقین شاہ‘ جیسا ’نیم دانشور، نیم ہونق‘ کردار کوئی اور کرتا تو اشفاق احمد اس کی شہرت کے حسد ہی سے مر جاتا۔ آج کل ہارون نامی اینکر کا مزاحیہ شو بھی ایک اچھے متبادل کے طور پر مارکیٹ میں ہے،ٹیم بھی مناسب ہے۔ فن کاروں کو منھ ماری کی بجائے کسی معقول سکرپٹ کے تابع کر لیا گیا تو کامیابی یقینی ہے۔ اسی طرح دو عدد مخولیہ شو خواتین کی میزبانی میں بھی چل رہے ہیں، جن میں ایک تو کب کا بے ہنگم اور تخلیقی اُپچ سے عاری فنکاروں کی ہر طرح کی بدتمیزی، سو سال پرانے لطائف، سٹیج کی گھسی پٹی جگتوں کی نذر ہو چکا ہے۔ ان میں حنا نیازی کا پروگرام نسبتاً بہتر ہے۔ ان کامیڈی شوز کے اینکرز سے یہی گزارش ہے کہ خدا کے لیے اس بھارتی پنجابی اینکر سے ہی کچھ سیکھ لیں، جس نے ہمارے کامیڈین سے متاثر ہو کر پروگرام شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک کی آنکھ کا تارا بن گیا۔وجہ صرف یہ کہ وہاں ایک ایک ایونٹ کے پیچھے ایک تخلیق کار بیٹھا ہے، ہمارے پاس ان سے بہت بہتر فنکار موجود ہیں لیکن اگرہر فنکار کے منھ سے فی البدیہہ نکل جانے والی کریہہ سے کریہہ پھبتی، الّم غلّم گفتگو، یاوہ گوئی اور بکواس کو بغیر ایڈٹ کیے مزاح سمجھ لیا جائے گا تووہی حال ہوگا جو ہو رہا ہے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ ہنسی کو ترسے ہوئے لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، کئی بوالہوس سٹیج کا بچا کھُچا کوڑا بھی اٹھا کے لوگوں کے ڈرائنگ روم میں لے آئے ہیں۔ اللہ کے بندو! مزاح کی حیثیت تو زندگی کے روکھے پھیکے دسترخوان پہ ایک لذیذ ڈش کی ہوتی ہے۔ ذہانت، فطانت کے مسالے اس کی بشاشت میں نفاست پیدا کرتے ہیں۔ آپ نے اس میں بھی جہالت اور اہانت کی بدمزگی شامل کر دی۔ آخری بات یہ کہ کامیڈی شو میں بیٹھ کے علم کا رعب جھاڑنا چہ معنی دارد؟ معمولی سے معمولی آدمی بھی جانتا ہے کہ یہ ساری معلومات مسکین سی صورت والے ریسرچ اسسٹنٹ کی تحقیق کا نتیجہ ہیں۔ ویسے بھی دانشوری، لغت، باورچی خانہ ، جوتش، سنجیدہ موسیقی، فالنامہ ایسے پروگراموں کا حصہ ہی نہیں، البتہ ان سب چیزوں کی باسلیقہ پیروڈی کی جاسکتی ہے۔ گزشتہ ایک سال سے لِتر پَولا، گھسُن مُکی، ٹھیڈے، گوڈے، معیار سے گری جگتیں، بدبودار تشبیہات، گٹر اور گندی جرابوں جیسے موضوعات، بغیر کسی احساسِ ذمہ داری کے تعفن کی طرح فضا میں پھینک کے’ ’مخولیاتی آلودگی‘‘ پھیلائی جا رہی ہے۔ جس پروگرام میں ’اَنّھی دیا‘، کَھچ دی کھچ‘، ’خبیث دا بچہ، سالا، ٹُوٹی دے منھ آلی، کرداروں کے تکیہ کلام ہوں، ہر مہمان یا میزبان خاتون پہ گھٹیا انداز میں ٹھرک جھاڑا جاتا ہو۔محض پیسے کی ہوس میں ماں، بہن، بیوی جیسے مقدس رشتوں کی مٹی پلید کی جاتی ہو، ایسے مزاح پہ کسی اتھارٹی کو سنجیدگی سے غور کر لینا چاہیے۔ تیس سال قبل پڑھی ایک مزاح نگار کی شریر تشبیہ آج بھی ذہن میں رَس گھولتی ہے، لکھتے ہیں: ’خوبصورت عورت کا شوہر تو تاج محل کے چوکیدار کی طرح ہوتا ہے۔‘ اب تو لگتا ہے اُن سیانوں کی سٹیج ڈراموں والی مبینہ بو بھی مر چکی ہے اور یہ عادت ہی کو سعادت سمجھ کے جیے اور کمائی کیے چلے جا رہے ہیں۔ ایسے میں تو یہی کہا جا سکتا ہے: ہم کو درکار ہے یارو آسودگی پھیلی جاتی ہے کیسی آلودگی دل پریشان ہے ، روح بے چَین ہے کون روکے گا بڑھ کے یہ بے ہودگی