ملا نظام الدین سہالوی بانی درس نظامی‘ معتبر عالم دین‘ فقیہ‘ فلسفی‘ شارح اور ایک ممتاز مدرس1089-1088ھ / 1678-1677ء میں موجودہ اترپردیش (بھارت) کے ایک قصبہ‘ سہالی میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق وہاں کے مشہور انصاری خاندان سے تھا اور ان کے جد امجد ہرات کے مشہور بزرگ شیخ عبداللہ انصاری ؒ تھے۔ ان کے اسلاف میں شیخ نظام الدین نے سہالی میں سلسلہ درس و تدریس کا آغاز کیا‘ جن کے پڑپوتے شیخ حافظ کے زہدو علم سے متاثر ہو کر شہنشاہ اکبر نے ان کے لئے اس علاقے میں معقول جاگیر دینے کا فرمان جاری کیا اور اس کی بدولت شیخ حافظ اور ان کی اولاد نے بااطمینان فرائض درس ادا کئے اور اپنے طلبہ کے قیام و طعام کی بھی کفالت کی۔ ملا نظام الدین نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ملا قطب الدین شہید سے حاصل کی۔ سال 1103ھ / 1691ء میں ملا قطب الدین کو سہالی کے شیخ زادوں نے شہید کر کے ان کے مکان کو مال و اسباب اور کتاب خانے سمیت نذر آتش کر دیا ار ان کے چاروں بیٹے لکھنؤ چلے گئے۔ اورنگزیب عالمگیر نے اس خاندان کی علمی خدمات کا پاس کرتے ہوئے 1105ھ/ 1693ء میں ایک فرمان کے ذریعے لکھنؤ کی ایک مشہور کوٹھی فرنگی محل انہیں عطا کر دی۔ شیخ محمد اکرام کے مطابق:فرنگی محل لکھنؤ کا ایک محلہ ہے جہاں ابتداً ایک فرانسیسی تاجر مقیم تھا۔ جس کے تعلق کی وجہ سے یہ علاقہ ’’فرنگی محل‘‘ کہلاتا ہے۔ جب وہ تاجر اپنے وطن واپس چلا گیا تو یہ زمین ’’نزول‘یعنی سرکاری ہو گئی۔ اورنگزیب کے زمانے میں ملا قطب الدین نے فروغ حاصل کیا۔ وہ قصبہ سہالی میں رہتے تھے۔ جہاں عثمانیوں اور انصاریوں میں زمینداری پر کچھ جھگڑا تھا۔1103ھ بمطابق 1691ء کی ایک رات چند عثمانی ملا قطب الدین انصاری کے گھر پر چڑھ دوڑے اور ملا کو شہید کر کے ان کے گھر کو جلا دیا۔ ان کے صاحبزادے ملا محمد سعید سہالوی نے عالمگیر کی خدمت میں حاضر ہو کر شکایت کی تو ’’فرنگی محل‘‘ کا علاقہ ان کو معافی میں دیا گیا۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی کے مطابق:’’فرنگی محل ہندوستان کے مشہور شہر لکھنؤ میں ایک رہائشی علاقے کا نام تھا جو مغل بادشاہ جہانگیر (1658-1707) نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو ایک معاہدہ کے تحت دیا تھا‘ جہانگیر اس زمانے میں کسی بیماری میں مبتلا ہوا تو کئی مقامی طبیبوں نے اس کا علاج کیا لیکن صحت یاب نہ ہوا۔ ایک انگریز ڈاکٹر کے علاج سے شفایاب ہوئے۔ اس پر جہانگیر نے خوش ہو کر پوچھا کہ کیا چاہیے؟ ڈاکٹر نے کہا کہ میری قوم کے کچھ لوگ یہاں لکھنؤ میں تجارت کے لئے آئے ہیں۔ ان کو بعض اوقات مشکلات پیش آتی ہیں اس لئے آپ ان کو تجارت کی آزادانہ اجازت دے دیں اور رہائش اور تجارتی امور میں مناسب مراعات بھی جاری فرما دیں۔ اس پر جہانگیر نے شاہی فرمان جاری کیا اور لکھنؤ کے محلہ ’’احاطہ چراغ بیگ‘‘ میں ایک بڑا محل یا کوٹھی ان کو دے دی۔ انگریزوں کو غیر منقسم ہندوستان میں فرنگی بھی کہا جاتا تھا‘ اس لئے انگریزوں کی وجہ سے وہ ایک عرصے کے بعد اورنگزیب بادشاہ (1658-1707ئ) کے دور میں ان کو اطلاع ملی کہ انگریزوں کی طرف سے شاہی فرمان میں دی گئی ان شرائطوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے جو جہانگیر نے اپنے دور میں طے کیں تھیں۔ اس پر اورنگزیب نے وہ کوٹھی ضبط کر لی اور بعداذاں اسی فرنگی محل کا ایک حصہ ملا نظام الدین سہالویؒ کو رہائش کے لئے دیا اور ایک حصے میں اورنگزیب کے مشورے پر انہوں نے اپنا حلقہ درس قائم کیا جو تاریخ میں مدرسہ فرنگی محل کے نام سے مشہور ہوا۔ اس درس گاہ کے فارغ التحصیل علماء تاریخ میں علمائے فرنگی محل کہلائے۔ اس مدرسہ فرنگی محل میں ملا نظام الدین کا مرتب کردہ نصاب تعلیم رائج تھا جو ان کی نسبت سے درس نظامی کے نام سے مشہور تھا۔‘‘ ’’درس نظامی‘ اورنگزیب عالمگیر کے دور حکومت میں برصغیر پاک و ہند میں پروان چڑھا جو کئی ایک تبدیلیوں کے ساتھ آج بھی برصغیر پاک و ہند کے دینی مدارس میں رائج ہے۔ ملا نظام الدین سہالوی کا مرتب کردہ درس نظامی حسب ذیل ہے: 1۔تفسیر‘ 2۔ حدیث‘ 3۔ فقہ‘4۔ اصول فقہ۔5۔ نحو ‘ 6۔ صرف۔ 7ٓ۔ بلاغت۔ 8۔ کلام۔ 9۔ منطق۔ 10۔فلسفہ /حکمت۔11۔ ریاضی۔یہ نصاب تعلیم ہندوستان میں مختلف مسلم ادوار میں اعلیٰ دینی تعلیم کے رائج مختلف نصاب ہائے تعلیم کی ترقی یافتہ شکل تھی، یقینا اس پر اس کے پیش رو نصابوں کے گہرے اثرات تھے۔ تاہم اس میں جس طرح بیک جنبش قلم’’تصوف‘‘ کو خارج کر دیا گیا وہ حیران کن بھی تھا اور نقصان دہ بھی۔ مذکورہ نصاب میں ’’تصوف‘‘ کے مضمون میں آٹھ کتب شامل ہیں‘ جن میں سرفہرست ’’عوارف المعارف‘‘ ہے جس کے مصنف حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہروردی (539-632ھ /1145-1234ئ) حضرت ابن عربیؒ کے معاصر تھے۔ ایک روایت ہے کہ مکہ معظمہ میں اتفاقاً دونوں کی مڈبھیڑ ہو گئی اور دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا‘ ایک لفظ زبان سے نہ نکالا اور رخصت ہو گئے۔ شیخ سہروردیؒ حضرت جنید بغداریؒ کے مکتب خیال سے تعلق رکھتے تھے‘ شیخ اکبر ؒ شیخ بایزید بسطامیؒ اور شیخ الوالحسن خرقانیؒ کے نظریات سے متاثر تھے۔ شیخ سہروردیؒ کی کتاب عوارف المعارف‘ تصوف کی بہترین کتابوں میں شمار کی جاتی ہے۔ تیرہویں صدی میں جب سلاسل کی تنظیم شروع ہوئی تو سہروردیہ سلسلہ کے علاوہ دیگر سلسلوں نے بھی اس کتاب کو اپنا لیا۔ عوارف المعارف کی خوبی یہ ہے کہ اس میں تصوف کے بنیادی اعتقادات‘ خانقاہوں کی تنظیم‘ مریدین و شیوخ کے تعلقات اور دیگر مسائل پر نہایت وضاحت سے کتاب و سنت کی روشنی میں بحث کی گئی ہے۔ تصوف کی اصطلاحات کے معنی مختصر‘ لیکن جامع طور پر بیان کئے گئے ہیں۔ اس کتاب کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ ایک طرف تو تصوف کا پورا فلسفہ اس میں مدوّن ہو گیا۔ جبکہ دوسری طرف خانقاہی نظام کے متعلق تفصیلی بحث آگئی ہے۔ چشتیہ سلسلہ کے مشائخ بھی اس کتاب کی بڑی قدر کرتے تھے۔ حضرت بابا فرید گنج شکرؒ اپنے اعلیٰ مریدین اور خلفاء کو اس کا درس دیا کرتے تھے۔ محمد غوثی کا بیان تو یہ ہے کہ حضرت بابا صاحبؒ نے اس پر ایک حاشیہ بھی لکھا۔ اسی طرح مذکورہ کتب تصوف میں فصوص الحکم کا نام بھی نمایاں ہے جس کے مصنف شیخ ابوبکر محی الدین‘ جو تاریخ میں ابن عربی اور الشیخ الاکبرکے نام سے معروف ہیں‘ آپ17رمضان 560ھ/28جولائی 1125ھ کو اندلس کے جنوب مشرق میں واقع مرسیہ میں پیدا ہوئے۔ شیخ محی الدین ابن عربی کی شخصیت اپنے افکار کی گہرائی اور اسرار تصوف کے مخصوص انداز تحقیق کی بنا پر تاریخ تصوف میں ایک امتیازی مقام کی حامل ہے۔ ابن عربی بیشمار کتابوں کے مصنف ہیں۔ الفتوحات المکیہ فی معرفتہ الاسرار المالکیتہ آپ کی سب ضخیم ‘ اہم اور آخری کتاب ہے۔ جو مکۃ المکرمہ میں لکھی گئی۔ زندگی کے آخری ایام آپ نے دمشق میں گزارے‘ جہاں 638ھ/ 1240ء میں وفات پائی۔ (ختم شد)