آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اتحاد تنظیمات مدارس کے انٹرمیڈیٹ امتحان کے پوزیشن ہولڈر طلبہ میں انعامات کی تقسیم کے بعد خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مدارس کو قومی دھارے میں لانے کے اقدامات کی بدولت مدارس کے طلبہ و طالبات کو کیرئر کے خصوصی دھاروں میں شمولیت کے کھلے مواقع میسر آئیں گے۔ انہوں نے طلبہ کو نصیحت کی کہ وہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھیں۔ قانون اکنامکس سیاسیات اور نفسیات کے مضامین پڑھیں تاکہ آپ یونیورسٹی، کالجز میں پروفیسر مقرر ہوں وکیل بنیں‘ بینکس میں کام کر کے سودی نظام کے خاتمہ میں کردار ادا کریں۔ دینی مدارس کی تاریخ قدیم ہے۔یہ مدارس عہد نبویؐ سے لے کر آج تک ایک مخصوص انداز میں چلے آ رہے ہیں۔ آپؐ نے ’’صُفہ ‘‘کے چبوترے پر پہلا مدرسہ قائم کر کے ان کی بنیاد رکھی۔ دینی مدارس اسلام کے قلعے‘ ہدایت کے چشمے ‘ دین کی پناہ گاہیں اور اشاعت دین کا بڑا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی اسلامی این جی اوز ہیں۔ مدارس میں لاکھوں طلبا کو بلا معاوضہ تعلیم دی جاتی ہے، ان خرقہ پوشوں اور بوریا نشینوں نے ہر دور میں تمام تر مصائب و مشکلات اور پابندیوں کے اپنا وجود برقرار رکھا۔ انہی مدارس کے تعلیم یافتہ طلباء نے 1857ء کی جنگ آزادی میں حصہ لیا اور بعد ازاں قیام پاکستان کی جہدوجہد میں قائد اعظمؒ کے شانہ بشانہ چل کر مشرقی اور مغربی پاکستان میں سبز ہلالی پرچم لہرایا۔ آج کل حکومت کی طرف سے مدارس دینیہ کے نصاب تعلیم بارے باتیں کی جا رہی ہیں، جس کے جواب میں مدارس کے ذمہ داران کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ ہمیں نصاب تعلیم کی تشکیل و اصلاح کے وقت اپنے دینی‘ ریاستی ‘ ثقافتی اور معاشرتی ڈھانچے کو پیش نظر رکھنا ہوتا ہے، ان کی یہ دلیل قرب ِحقیقت ہے لیکن اگر فریقین اخلاص نیت سے بیٹھ کر اس کا کوئی حل نکالیں تو کئی راستے وا ہو سکتے ہیں۔ ہمارے علماء ِ دین ہی قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل کا استنباط کرتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں بھی لاتے ہیں۔ مفتیان کرام قرآن و حدیث کی روشنی میں جب وقت کے تقاضوں کے مطابق مسائل کا حل نکال سکتے ہیں تو جدید دورکے تقاضوں کے مطابق مدارس کا نصابِ تعلیم تشکیل کیوں نہیں دے سکتے ؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ اتحادِ تنظیمات مدارس کی قیادت حکومت کے ساتھ مل کر جدید تقاضوں کے مطابق نصاب تشکیل دینا چاہتی ہے لیکن جب فریقین بات چیت کے ذریعے کسی نتیجے پر پہنچنے کے قریب ہوتے ہیں ، تو کچھ سیکولر ذہنیت کے حامل بیورو کریٹ یہ بیل منڈھے نہیں چڑھنے دیتے، جس کے باعث ساری محنت رائیگاں جاتی ہے۔ مدارس کی قیادت اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ گیارہویں صدی تک مسلمانوں کاعروج تھا۔ زکریا الرازی ‘ ابوالحسن طبری ،علائوالدین بن شاطر‘ ابن الہیثم ‘ ابن سینا‘ ابوالقاسم زہراوی اور جابر بن حیان مسلم مفکرین تھے،جنہوں نے مسلمانوں کو نئی نئی ایجادات سے روشناس کرایا۔بدقسمتی سے جب ہم نے جدید علوم اور تحقیقات سے منہ موڑا تو ایک انجکشن تک نہیں بنا سکے۔ مدارس کے تربیت یافتہ باصلاحیت علماء کرام جب ڈی سی ‘ اے سی ‘ وکیل ‘ جج‘ پروفیسر اور ڈاکٹر بنیں گے تو معاشرے میں ایک انقلاب آئے گا۔ پوری امت مسلمہ سودی نظام کے خلاف ہے لیکن اس کے باوجود اس سے پیچھا نہیں چھڑا پا رہی۔ کیونکہ متبادل نظام کی ضرورت ہے ،جب آپ خلقِ خدا کو متبادل طریقے سے آگاہ کرتے ہیں تو سیکولر بیورو کریٹ سودی نظام کی حمایت میں کھڑے ہو جاتے ہیں اس لئے علماء کرام جب تک ان محکموں میں نہیں آئیں گے اس نظام کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ سو۱ ارب سے زائد ہونے کے باوجود مسلمان دنیا میں محکوم و مظلوم ہیں ، دوسری طرف یہودی دنیا میں آٹے میں نمک کی مثل ہیں لیکن عالمی معیشت پر قابض ہیں۔ یہود ونصاریٰ باہم شیر وشکر ہیں جبکہ مسلمان آپس میں دست و گریباں ۔ غیر مسلموں نے قرآن و حدیث کی روشنی میں تجربات کر کے چاند پر کمندیں ڈالیں لیکن دوسری طرف ابھی تک بعض جگہوں پر بزرگانِ دین مدرسوں میں انگریزی تعلیم کی تدریس کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ حکومت یونیورسٹیوں میں دینی تعلیم دیتی ہے یا نہیں، آپ کو اس سے سروکار نہیں ہونی چاہیے بلکہ آپ مدارس میں عصری علوم کی تعلیم دے کر ایسے علماء پیدا کریں جو یونیورسٹیوں اور کالجز میں جا کر وہاں کا ماحول تبدیل کر دیں۔ یونیورسٹیوں، کالجز اور تعلیمی اداروں میں منشیات ‘ خودکشیاں ‘ لسانی جھگڑے اور بے حیائی کے مقابلے میں جب مدارس میں طلباء کو پرسکون ماحول میں تعلیم دی جائے گی تو سیکولر قوتوں کا پروپیگنڈہ خود بخوددم توڑ جائے گا۔ آرمی چیف کے ساتھ مدارس کے طلباء کی ملاقات خوش آئند ہے، اس سے غلط فہمیاں اور دوریاں ختم ہونگی۔لیکن ایک بات کی جانب توجہ دینا ضروری ہے کہ اس ملاقات میں وفاق المدارس العربیہ کے 12اور رابطۃ المدارس کا ایک طالب علم شامل تھا۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ اتحاد تنظیماتِ مدارس کے پلیٹ فارم سے پانچوں وفاق کے پوزیشن ہولڈر طلباء کو انعامات سے نوازا جاتا تاکہ معاشرے میں یکجہتی سے بھر پور پیغام جاتا ہے۔اب باقی تینوں وفاق کی تشویش دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تنظیم المدارس، وفاق المدارس الشیعہ اور وفاق المدارس السلفیہ کے پوزیشن ہولڈر طلباء کو بھی انعامات سے نوازا جائے۔اس کے ساتھ مدارس عربیہ کی حریت و آزادی اور دینی شناخت پر حرف آئے بغیر ان کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے جدید تقاضوں کے مطابق نصابِ تعلیم تشکیل دیا جائے۔ اس سلسلے میں اگرحکومت اخلاصِ نیت سے تعاون کرنا چاہتی ہے تو پہلی فرصت میں مدارس و مساجد کے بجلی اور سوئی گیس کے بلوں میں انہیں ریلیف دے تاکہ مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔