گذشتہ کالم کنو ر مہندر سنگھ بیدی اور دِلّو رام کوثری کی نعت گوئی اور نعتیہ شاعری سے متعلق شائع ہوا،تو قارئین،جن میں بالخصوص ایک معروف دینی درسگاہ کے شیخ الجامعہ بھی شامل ہیں،نے بھی کچھ استفسارات فرمائے۔شاید انہوں نے سوچا ہو کہ’’غیرمسلموں کی نعت گوئی‘‘کو زیادہ اہمیت دے دی گئی،ویسے تو یہ ایک مستقل موضوع ہے، جس پر محققین نے کافی کام کیا ہے اور میرے قلم کے جِلو میں حکومت پنجاب کے’’ہفتہ شانِ رحمۃٌ للعالمینﷺ‘‘کے حوالے سے آیا،جس میں بین المذاہب’’عالمی مشائخ و علماء کنونشن‘‘کے موقع پر دیگر مذاہب کے مذہبی زعماء بارگاہِ تاجدارِ ختمی مرتبت ﷺمیں مدح سرا اور لب کشا ہوئے، ظاہر ہے اگر کوئی میرے آقا ﷺ کی تعریف و توصیف کرے گا،اگرچہ وہ اسلام کی نعمت سے محروم ہی سہی،مجھے اچھا تو لگے گا۔کوئی غیر مسلم ہی ہو،لیکن وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی توصیف و تحمید کرے،میں تو اسے ضرور محترم جانوںگا،اِلاَّ یہ کہ وہ یہ کام کسی منافقت سے نہ کر رہا ہو۔یہ حقیقت بھی اپنی جگہ معتبر اور مسلم ہے کہ عظمتِ مصطفی ﷺ کا صحیح ادراک ہر کسی کے بس کی بات نہیں،اس کے لیے قلبی تعلق،روحانی بالیدگی اور شریعتِ مطہرہ سے آراستگی درکار ہے۔اظہارِ عقیدت کے لیے قوتِ اظہار کی صلاحیت کا ہونا بنیادی شرط ہے،اسے’’شعری ملکہ‘‘بھی کہا جاتا ہے،مگر اس کے ساتھ خیالات کا تزکیہ، اعمال کا تقویٰ اور خیالات ومیلانات کا توازن بھی ضروری ہے اور یہی مدحِ رسالت ﷺ میں مشکل ترین مرحلہ ہے۔ پسندیدہ عمل پر اظہارِ خوشنودی اور نامحمود پر’’ناراضی‘‘ ہونا انسان کی فطرت کا خاصہ ہے۔وہ خوش ہوتا ہے تو اس کا اعلان کرتا اور ناراض ہوتاہے،تو ردّعمل دیتا ہے،یہ فطرتِ انسانی ہے۔اسلام نے انسان کے اس حق کو تسلیم کیا ہے، لیکن وہ اس حق اور داعیے کو فطرت کے عین مطابق بنانے کا خواہش مند ہے۔اسلام نے اپنی فیاضانہ۔۔۔مگر محتاط روش کے سبب’’مدح نگاری‘‘پر کوئی ناروا پابندی عائد نہ کی،بلکہ اظہارِ جذبات کے لیے مناسب راستے کا تعین کر دیا گیا،تاکہ فطری تقاضا،جائز حدود کے اندر رہ کر پورا ہو سکیں۔’’مدح گوئی‘‘دراصل ایک ایسی صنفِ سخن ہے،جس میں مدح نگار ،ذاتِ ممدوح کے حضور خراجِ عقیدت پیش کرتا اور اپنے ممدوح کے بعض فضائل سے اپنی’’تأثر پذیری‘‘کا اعلان کرتا ہے،عرب ایک خود سر اور انانیت پسند قوم تھی،اس لیے ان کے کردار کی مکمل جھلک مدح میں نمایاں نہ ہوسکتی تھی، بھلا ایک جاہلی شاعر،جسے اس کی سوسائٹی نے ایک بلند و بالا مقام دے رکھا ہو،وہ کیسے،کسی اور کی تعریف میں رطبُ للّسان ہو سکتا تھا۔انکے خیال میں،یہ تو اپنے وجود کی نفی تھی،جو ان کی نہ جھکنے والی سرشت سے مناسبت نہ رکھتی تھی۔’’مدح‘‘کے لیے تکلف،تصنّع،مبالغہ آمیزی اور لہجہ کی ملائمت و مسکینی درکار ہے،جسے عربوں کی فطرت پسندی،ان کے لہجے کا کھردرا،مگر کھرا پن برداشت نہ کرتا تھا۔عرب معاشرے میں صرف دو بڑے ایسے شاعر تھے، جن کی شعری عظمتیں معتبر اور مسلّمہ تھی،مگر وہ مدح نگاری اور قصیدہ گوئی کے بھی رسیا اور شائق تھے،ایک النابغہ الذبیانی اور دوسرا الاعشیٰ۔تاریخ ادب عربی میں۔۔۔ان کی عظمت کو سلام تو ہے،مگر ساتھ ہی قصیدہ خوانی کی عادت کی بنا پر خفگی کا اظہار بھی۔ابتدائی طور پر،حضرت ابوطالب کے بعد مدحِ رسالت ﷺ میں دوسرا بڑا نام الاعشیٰ ہے،جس کا نام میمون بن قیس،کنیت ابو بصیر اور لقب الاعشیٰ تھا،یہ لقب اسکو ضعفِ بصارت کے سبب ملا۔یہ یمامہ کے علاقہ’’منفوحہ‘‘میں پیدا ہوا،اصحابِ معلقات اور سوقِ عکاظ کی ان مقبول شخصیات میں سے تھا،جن کو لوگ سُننے کے لیے جمع ہوتے،اُسے حضور ﷺ کے اعلانِ نبوت کا علم ہوا تو آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مدح میں ایک قصیدہ لکھ کر مکہ کی طرف روانہ ہوا،ابوسفیان کو اس کی آمد کا پتہ چلا تو وہ فکر مند ہوا۔۔۔کہ اعشیٰ،اگر محمد ﷺ کی صحبت پاک سے فیضیاب ہو کر،آپ کی اتباع و اطاعت کے دائرے میں آگیا،تو اس کے اشعار پورے عرب میں اسلام کی دعوت اور محمد ﷺ کے مشن کی ترویج،تبلیغ اور تشہیر کا سبب بن سکتے ہیں،عرب میں شاعر اور شاعری ہی سب سے مؤثر ذریعہ ابلاغ تھا،اسکے سدّباب اور تدارک کے لیے قریش کے زعماء کا اجلاس منعقد ہوا،اور فوری طور پر سو اونٹ جمع کیے،اور حجاز اور نجد کے درمیان’’خفصہ‘‘نامی مقام پر،قریشی سرداروں نے یہ اونٹ،اعشیٰ کو پیش کیے اور اس کو واپس بھیجنے میں کامیاب ہوگئے اور بارگاہِ مصطفی ﷺ کی حاضری سے محروم رہ کر،اس نے خود کو خائب و خاسر کر لیا ،اسی اعشیٰ کے بارے میں ہے کہ یہ قریش کی طرف سے ملنے والے انہی اونٹوں میں سے،ایک کی پشت سے گرا،اور زمین پر گھسیٹ گھسیٹ کر ہلاک ہوگیا۔ایک روایت کے مطابق عامر بن طفیل دوسی نے اُسے کہا کہ اسلام قبول کرنے پر، تو شراب کی لذت سے محروم ہوجائے گا۔ بہرحال۔۔۔اعشیٰ اسلام کی دولت سے مستفید نہ ہوسکا،لیکن اس کا وہ ’’مدحیہ قصیدہ‘‘ تاریخ میں محفوظ ہے جس کے چند اشعار کا ترجمہ دیکھیے: ’’میں نے قسم کھائی ہے کہ (اپنی اونٹنی) کی کمزوری اور اپنی برہنہ پائی کا اُس وقت تک گِلہ نہ کروں گا،جب تک کہ اُفتاں و خیزاں کسی حال میں،وہ مجھے محمد ﷺ تک نہ پہنچا دے۔وہ ایسے نبی ہیں جو ان چیزوں پر نظر رکھتے ہیں،جن کو تم لوگ نہیں دیکھتے،اور میری قَسَم ان کی شہرت ملک ملک پھیل چکی ہے۔ان کے احسانات مسلسل ہوتے ہیں،جن میں ناغہ نہیں ہوتا۔بلکہ ان کے یہاں سے بٹنے والی خیرات کم نہیں ہوتی،کسی عنایت میں کمی اس لیے نہیں ہوتی کہ گذشتہ روز وہ کی جاچکی ہے۔جب تم اپنی اونٹنی کو ابنِ ہاشم ﷺ کے دَر پر بٹھاؤ گے تو تمام کُلفت بھول جائے گی، آرام پائے گی اور ان (محمد ﷺ ) کے صدقات تم کو سیراب کر دیں گے‘‘۔ بعض ماہرین اور مبلغین و مفتیان اس قصیدے کو ’’المدائح النبویہ‘‘یعنی عربی نعتیہ قصائد میں شامل کرنے سے گریزاں ہیں،جس کا سبب یہ بیان کرتے ہیں کہ الاعشیٰ نے یہ قصیدہ صدقِ دل سے نہیں کہا،بلکہ اس کے برعکس وہ اس قصیدے کے ذریعے حضور ﷺ کا تقرب حاصل کرنا چاہتا تھا،لیکن جب قریش نے اس کو اپنے ارادے سے باز رکھنا چاہا تو وہ واپس اپنے علاقے کی طرف روانہ ہوگیا۔اور اگر وہ سچّا ہوتا تو کبھی نہ بدلتا،لیکن بعض علماء نے اس سے اختلاف بھی کیا ہے کہ ان کی رائے ہے کہ جب وہ گھر سے قصیدہ لکھ کر چلا تھا تو اس وقت ’’صادق النیت‘‘تھا۔ بہرحال اس بحث سے قطع نظر، صاحبانِ فکر وفن نے اعشیٰ بن قیس کے اس قصیدے کو، غیر مسلموں کی نعت گوئی میں اوّلیت کا درجہ دیا ہے۔ غیر مسلموں کی نعت گوئی کی بنیادی وجہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کردار کی سچائی اور آپ ﷺ کی امانت و صداقت تھی،جس پر آپ ﷺ کے زمانے میں،آپ ﷺ کو جاننے والے،تمام لوگوں کا یقین تھا،کوہِ صفا پر اکٹھے ہوکر،لوگوں نے جس کا اظہار بھی کیا۔