داتاؒ دربار میں منعقدہ جامعہ ہجویریہ کے نئے تعلیمی سال کی افتتاحی تقریب میں معروف دانشو راوریا مقبول جان کایہ استفسار بجا کہ اگر ’’درس نظامی ‘‘ کا نصاب اہل سنت کے دونوں مکاتبِ فکر (بریلوی +دیوبندی) کا تقریباً ایک جیسا ہے ،توپھر اِن دونوں میں بُعد اور دوری کیوں----؟ ،مولانا ضیاء الحق نقشبندی نے ہمیشہ کی طرح خوش طبعی کی اور کہنے لگے کہ ’’اختلاف ---نصاب پڑھانے میں نہیں ، سمجھانے میںہے ۔‘‘بہر حال یہ بات تو اپنی جگہ معتبر ہے کہ برصغیر کی غالب اکثریت تصوّف پسند اور حنفی ُ المشرب ہے ،اور یہ دو مکاتبِ فکر اپنے مزاج اور مشرب کے مطابق حنفی بھی ہیں ا ورصوفی بھی ۔ میں جب یہ بات کہتا ہوں تو لوگ حیرت سے میر امنہ دیکھتے ہیں ۔ حالانکہ دیوبند مکتبہ فکر کے اکابرین مولانا اشرف علی تھانویؒ ،مولانا محمد قاسم ناناتویؒ ،مولانا رشید احمد گنگوہی ؒسمیت دیگر اہم شخصیات ،حضرت حاجی امدادللہ مہاجر مکیؒ سے باطنی اور روحانی طور پر فیض یافتہ اور ان کے باقاعدہ خلفاء تھے ،اسی طرح لاہور کی معروف دینی درسگاہ جامعہ اشرفیہ کے بانی محترم مفتی محمدحسن ؒ مولانا اشرف علی تھانویؒ سے باقاعدہ بیعت اور’’ چشتیہ صابریہ‘‘ سلسلے میں خلافت واجازت کے حامل تھے ۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ ایک زمانے میں لاہور تشریف لائے تو داتاؒ دربار حاضر ہوئے اور فرمایا :’’میں نے ہزار ہا ملائکہ کو ان (حضرت داتا گنج بخشؒ ) کے سامنے صف بستہ دیکھا ،عجیب رعب ہے ،وفات کے بعد بھی سلطنت فرما رہے ہیں ۔‘‘متحدہ علماء بورڈپنجاب کا دفتر طویل عرصے تک داتاؒ دربار میں رہا ، جامعہ اشرفیہ کے مہتمم محترم مولانا فضل الرحیم ،جوکہ متحدہ علماء بورڈ کے چیئرمین رہے ، علماء بورڈ کے اجلاس کے لیے جب بھی داتاؒ دربار میں واقع اپنے دفتر آتے ،تو دربار شریف پر بھی باقاعدہ حاضری کا اہتمام کرتے ، اُن کے برادرِ کلاں محترم مولانا عبدالرحمن اشرفی ؒ، بھی داتاؒ دربار حاضری دیتے ، سال 2003ء میں ایک نوچندی جمعرات کے موقع ،میںنے انہیں مسجد کے صحن میں پایا ، تو مسجد کے مرکزی ہال میں منعقدہ ،نوچندی جمعرات کی محفل میں ساتھ گیا ،جہاں انہوں نے طویل قیام کیا ۔بلکہ ---ان کا ایک انٹرویو قومی ڈائجسٹ میں شائع ہوا تھا،جس کی شہ سرخی ہی یہ تھی کہ داتاؒ دربار اکثر جاتا ہوں ، تاخیر ہو جائے ، تووہ خود بلا لیتے ہیں۔بہر حال ------ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ کی شخصیت اپنے علم ، اعتدال اور تقویٰ کے سبب ،برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ہمیشہ معتبر اور محترم رہی ۔ برصغیر میں سلسلہ چشتیہ کے بانی خواجہ معین الدین چشتی ؒ تھے ،اس سلسلے کو ،حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کے بعد حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ نے مضبوط ومستحکم فرمایا، آپؒ کے بعد خواجہ نظام الدین اولیائؒ نے اس کو عروج تک پہنچایا ۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ سے آگے چلنے والا سلسلہ ’’چشتی نظامی‘‘ اوربابا فرید الدین مسعود ؒکے دوسرے خلیفہ حضرت علائو الدین علی احمدؒ صابر کلیری سے آگے بڑھنے والاسلسلہ’’چشتی صابری‘‘ کہلایا۔حضرت حاجی صاحبؒ انیسویں صدی میں ، اسی سلسلہ چشتیہ صابریہ کی معتبر ہستی تھے ، آپ ؒ 1232ھ ،میں تھانہ بھون میں پیدا ہوئے ،تاریخ مشائخ چشت میں خلیق احمد نظامی نے لکھا :’’ مسلمانوں میں دینی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے جو تحریک انیسویں صدی میں شروع ہوئی ،جس نے بالآخر دیوبند کی شکل اختیار کی ، ان ہی کے مریدین وخلفاء کی پُر خلوص جدو جہد کا نتیجہ تھی ۔‘‘ حاجی صاحب ؒ نے 1857ء کی جنگِ آزادی میں حصہ لیا اور پھر مکہ معظمہ مستقل سکونت پذیر ہوئے۔آپؒ نے حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ کے علمی اور روحانی کمالات کی تحسین فرمائی اوران کو ’’چشتی صابری ‘‘ سلسلے کی خلافت واجازت عطا فرماتے ہوئے کہا کہ اگرچہ آپ کو اس کی حاجت نہ ہوگی، مگر میں چاہتا ہوں کہ آپ کی وجہ سے میرے سلسلے کی بھی ترویج ہو،’’مہر منیر‘‘ کے مطابق پاکپتن شریف کے سجادہ نشین دیوان سید محمد چشتی کے تقاضے پر ،پیر مہر علی شاہ ؒ نے سلسلہ چشتیہ صابریہ کے وظائف ،جب انہیں تلقین کیے ،تو اُس وقت آپ کو حاجی امدا د اللہ مہاجر مکیؒ کے اس عطیہ کی حکمت معلوم ہوئی، مزید یہ کہ حضرت پیر مہر علی شاہؒ جب حجازِ مقدس ہی میں قیام کے خواہاں ہوئے ،تو حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒنے پیر مہر علی شاہؒ کو فرمایا کہ پنجاب میں عنقریب ایک فتنہ نمودار ہوگا، جس کا سدّ ِ باب صرف آپ ؒ کے وجود کی برکت سے ہوگا، اس فتنہ سے مراد ’’قادیانیت ‘‘تھا۔ برصغیر کی صرف سیاسی تاریخ ہی پر موقوف نہیں ، بلکہ علمی اور فکری تاریخ بھی صوفیاء کے جِلو میں آگے بڑھتی نظر آتی ہے ۔حضرت داتا گنج بخشؒ غزنی سے لاہور تشریف فرماہوئے ،تو آپؒ کے پیچھے پیچھے دینی مدارس کا نظام بھی غزنی اور غورسے لاہور ،ملتان اور دہلی میں فروغ پذیر ہوا، اور اسلامی دنیاکے اہم مراکز کے معتبر نصابِ تعلیم سے اخذ فیض کیا گیا۔ برصغیر میں مدارسِ دینیہ کے نصاب کی تدوین اور تشکیل کو چار ادوار میںتقسیم کیا جاتا ہے ۔اوّلین دور میں برصغیر میںسلطان محمود غزنویؒ کے زیر اثر دینی تعلیم کا جو نصاب تشکیل پایا ،وہ نو مختلف علوم (تفسیر ،حدیث ،فقہ ،اصول فقہ ،تصوف ،ادب ،نحو ،کلام اور منطق) پر مشتمل تھا، جن میںتفسیر ،حدیث ،فقہ اور’’ تصوف‘‘ کو "Major Subjects"کی حیثیت حاصل تھی ۔ا س اولین دورمیں تصوف کے حوالے سے شیخ شہاب الدین سہروردی ؒکی عوارف المعارف ،شیخ محی الدین ابن عربیؒ کی فصوص الحکم ،نور الدین عبدالرحمن جامیؒ کی نقد النصوص اور فخر الدین عراقیؒ کی لمعات--- ’’درسی کتب‘‘ کے طور پر شاملِ نصاب ہیں۔ مدارس دینیہ کے مذکورہ نصاب پر نظرِ ثانی سکندر لودھی (1517۔1489)کے عہد میںہوئی۔ عہدِ اکبری (1556-1605ئ) میں برصغیر کے نصابِ تعلیم میں کئی تبدیلیاں رونماہوئی ۔ اکبرمذہبی آزادی کا حامی تھا ،یہی وجہ ہے کہ اس کا دربار فلسفہ وحکمت کے علماء سے معموررہتا ۔ معقولات (Rational Sciences)کے معروف عالم فتح اللہ شیرازی کو اکبر نے بطور خاص اپنے دربار میں بلوا کر مدارس کے نصاب تعلیم کی تدوین نو کی، لیکن امتیازی اور اہم مضامین میں تفسیر ،حدیث ،فقہ اور تصوف بدستور اپنے مقام پر قائم رہے ،جبکہ ’’تصوف‘‘ میں شرح رباعیات جامی اور رسائل نقشبندیہ وغیرہ کو شامل کردیا گیا ۔مذکورہ تینوں نصابوں کے جائزے سے یہ امر پوری طرح عیاں ہے ،ان میں ’’تصوف‘‘ کی تدریس بنیادی اور اہم مضمون کے طور پر ہوتی رہی ۔یہاں تک کہ مدارسِ دینیہ کے نصاب کی تدوین کا چوتھا مرحلہ اٹھارویں صدی عیسوی میںملا نظام الدین سہالویؒ( 1678-1748ء ) کے ہاتھوں عمل میں آیا، جو یقینا برصغیر میں مختلف ادوار میںرائج مختلف نصاب ہائے مدارس دینیہ کی ترقی یافتہ شکل تھی ۔ اس نصاب یعنی درس نظامی ، پر اس کے پیش رو نصابات کے گہرے اثرات تھے ،تا ہم ملّا نظام الدین سہالوی ؒنے اپنے مرتب کردہ نصاب ’’درس نظامی‘‘ سے ’’تصوف‘‘ کو جس طرح بیک جنبش قلم خارج کردیا، وہ حیران کن بھی تھا اور نقصان دہ بھی ۔ ملا صاحب کی رائے میں ’’ اس وقت تک ان کتابوں کی تدریس مفید نہیں ،جب تک مرشد کامل کی راہنمائی میسر نہ ہو۔‘‘ ان کا یہ ایک ایسا قدم تھا جس کے باعث درس وتدریس اور اخلاق وتصوف میں بُعد بڑھتا چلا گیا ، نہ مرشد کامل کی طلب اور تلاش باقی رہی اورنہ کتبِ تصوف سے آشنائی ۔’’تصوف‘‘ کو خارج از نصاب کرنے سے خانقاہ اور مدرسہ میں ایک بُعد پیدا ہوا ہے ، حالانکہ ان دونوں ’’اداروں ‘‘ کا بنیادی مقصد ایک ہی تھا اور طریقہ کار مختلف ----علماء کے خیال میں ’’احکامِ الٰہی ‘‘ کی پابندی ہی سب کچھ ہے ،جبکہ صوفیاء کہتے تھے ،اس سے آگے ایک منزل ہے اور وہ ’’عشقِ الٰہی ‘‘ کی ہے ۔اتباعِ احکام بے شک ضروری ہے ،لیکن اگر اس کے پیچھے محبت کی کار فرمائی نہ ہوتویہ سب بے کار ہے ۔‘‘ ’’تزکیۂ نفس‘‘ تعمیر سیرت اور تشکیل کردار جیسے اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے مشائخِ متقدمین کے ملفوظات اوران کے باطنی اشغال اور روحانی معاملات وکیفیات سے اکتسابِ فیض سے اِعراض پیدا ہوگیا اور صاحبانِ محراب ومنبر اور اربابِ تدریس حکمت ، برداشت اورحوصلہ کی بجائے مناظرہ و مجادلہ کی طرف زیادہ مائل ہوگئے۔