دینی مدارس کے حوالے سے ہمارے میڈیا میں جب بھی بات ہوتی ہے تنقیدی پہلو سے ہی ہوتی ہے۔ اور کچھ عرصہ قبل تک تو یہ ہوتی بھی صرف نصاب کی حد تک رہی ہے۔ اب جا کر اس میں فنڈز کا معاملہ بھی شامل ہوا ہے۔ ہماری ریاست کا حال بھی عجیب ہی ہے۔ جس کی جیب میں چار روپے دیکھ لے، اس سے یہ ضرور پوچھتی ہے کہ ’’یہ کہاں سے آئے ؟‘‘ مگر جس کے پیٹ میں پورے دن میں ایک بھی نوالہ نہ گیا ہو اس سے یہ نہیں کہتی کہ ’’تم بھوکے کیوں ہو ؟ آؤ تمہیں وسائل رزق مہیا کروں !‘‘ جس سے صاف ظاہر ہے کہ ہماری ریاست کا لینے والا ہاتھ تو متحرک ہے مگر دینے والے ہاتھ کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔ مدارس کے فنڈز والا معاملہ اس لحاظ سے بہت دلچسپ ہے کہ ستر سال تک تو اس ملک میں پروپیگنڈہ یہ ہوتا رہا کہ دینی مدرسے کا طالب علم زکوۃ کے ٹکڑوں پر آج تو ’’گزر بسر‘‘ کر رہا ہے لیکن اس کا مستقبل تاریک ہے، کیونکہ جب یہ عملی زندگی میں آئے گا تو اس کے پاس وہ ماڈرن علوم و فنون نہیں ہیں جن کے دم پر شیر مال اور قورمے تک رسائی ممکن ہے۔ اب ستر سال بعد صورتحال اچانک یوں تبدیل ہوئی ہے کہ پروپیگنڈہ کرتی زبان اپنے ستر سالہ موقف کے بالکل برعکس موقف پر کھڑی ہوگئی ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ مولوی کے پاس اتنا خطیر سرمایہ ہے جس کا حساب کتاب رکھنے میں ریاست کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ گویا صورتحال یہاں بھی وہی ہے کہ جب تک ریاست کو یہ لگتا رہا کہ دینی مدارس تو وہ مراکز ہیں جہاں زکوۃ پر گزر بسر ہی ہوپاتی ہے تو وہ مدارس یا ان کے طلبہ کی جانب دیکھنا بھی اپنی توہین سمجھتی رہی۔ مگر جوں ہی امریکی اداروں نے اسے یہ بتایا کہ مولوی کے پاس تو بڑا پیسہ ہے تو اب یہ ’’آڈٹ‘‘ میں مولوی کا ہاتھ بٹانے کو بیتاب ہے۔ شہریوں یا اداروں کے ذرائع آمدن پر نظر رکھنا بہت اچھا ہی نہیں بلکہ بہت ضروری کام بھی ہے۔ اس ضمن میں جو پھرتی صرف مدارس کی حد تک آج دکھائی جا رہی ہے وہ پاکستان بننے کے ساتھ ہی ہر شعبے میں دکھا دی گئی ہوتی تو وہ بہت سی خرابیاں کسی صورت پیدا نہ ہوتیں جو ہوئیں۔ اس معاملے کا یہ پہلو نہایت اہم ہے کہ ریاست کو صرف دوسروں کے نوٹوں کا حساب رکھنے میں ہی دلچسپی ہے۔ اس کے پاس دوسروں کے بٹوؤں پر نظر رکھنے کے لئے تو درجنوں ادارے ہیں لیکن ایسا کوئی ادارہ نہیں جو کسی بھوکے کو دو وقت کی روٹی دینے یا نوکری مہیا کرنے پر مامور ہو۔ اسے خیراتی اداروں کے فنڈز کے ساتھ ساتھ غریب کے پیٹ کی بھی فکر کرنی ہوگی ورنہ ایک نیا بحران یہ کھڑا ہوجائے گا کہ جو خیراتی ادارے اس ملک میں کام کر رہے ہیں وہ سرکاری گرفت کے خوف سے خیراتی کام سے ہی ہاتھ کھینچ بیٹھیں گے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہمارے مدارس میں بیس لاکھ طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ ان طلبہ کی تعلیم، خوراک اور علاج کی ذمہ داریاں یہ ادارے ہی انجام دے رہے ہیں۔ سادہ سا سوال ہے کہ کیا ریاست پاکستان یہی سہولت عصری علوم کے شعبے میں اپنے اس خزانے کی مدد سے فراہم کر سکتی ہے جس کی پشت پر زرمبادلہ کے ذخائر کے اربوں ڈالر کھڑے ہیں ؟ کیا ہماری ریاست اٹھارہ ہزار مدارس کے متوازی اٹھارہ ہزار ایسے سکول، کالجز کھڑے کرنے کی ہمت پیدا کر سکتی ہے جہاں مدارس کی طرح مفت رہائش، مفت کھانا، مفت علاج اور مفت کتب فراہم کرکے غریبوں کے بیس لاکھ بچوں کو عصری تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے ؟ آپ کا تو دعویٰ ہی یہ رہا ہے کہ مدارس میں غریب لوگ اپنے بچے اس لئے داخل کراتے ہیں کہ وہاں مفت کھانا مل جاتا ہے۔ ساتھ ہی آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ مدارس سے شدت پسندی جنم لے رہی ہے۔ اگرچہ مارے اور پکڑے گئے شدت پسندوں کی نوے فیصد تعداد کا مدرسے سے نہیں بلکہ کالج یا یونیورسٹیز سے تعلق نکلتا آیا ہے لیکن کچھ دیر کو آپ کا دعویٰ درست مان لیا جائے تو مدارس کی طرز کے اٹھارہ ہزار رہائشی سکولز، کالجز قائم کرکے غریب کے بچے کو ’’روشن خیال‘‘ متبادل کیوں فراہم نہیں کر دیا جاتا ؟ اگر مولوی کے نوٹ گننے کا شوق پالنے کے بجائے غریب کے بچے کے لئے سرکار ’’مفت بورڈنگ سکول و کالج‘‘ منصوبہ متعارف کرادے تو مدرسے تو سارے کھڑے کھلوتے خالی ہوجائیں گے، کیونکہ بقول آپ کے غریبوں کے بچے وہاں روٹی کے لئے جاتے ہیں۔ آپ کے خیراتی بورڈنگ سکول بنتے ہی سارے غریب زکوۃ کی روٹی اور دینی تعلیم کی بجائے سرکاری روٹی اور سائنسی تعلیم کی جانب دوڑ پڑیں گے۔ یوں نہ رہے گا مدرسہ اور نہ ہی گننے پڑیں گے آپ کو مولوی کے نوٹ۔ اس تجویز پر عمل کرنے کے لئے جس نوع کی ’’عقل‘‘ درکار ہے اس سے تو موجودہ حکومت ویسے بھی مالامال ہی ہے تو اس کار خیر میں دیر کیسی ؟ حقیقت یہ ہے کہ حکومت ملک میں کسی مالیاتی ڈسپلن کی خاطر سرگرم نہیں، اور نہ ہی اسے کسی منی لانڈرنگ کی روک تھام سے دلچسپی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو گزشتہ سترہ برس کے دوران اس ملک میں اربوں ڈالرز مختلف این جی اوز کی آڑ میں مغربی ایجنڈوں کے لئے تقسیم ہوئے ہیں اور یہ بہاؤ بدستور جاری ہے۔ ڈالرز کا یہ بہاؤ کسی مدرسے کی جانب نہیں بلکہ یونیورسٹیز اور ان کے ڈینز کی تجوریوں کی طرف ہے۔ خالص غیر ملکی ایجنڈے کے لئے آنے والے ڈالرز سمیٹنے والوں کو تو آپ آئینی اداروں کا چیئرمین بنا رہے ہیں یا یونیورسٹیز میں ہی مزید اہم پوزیشنز سے نواز رہے ہیں اور پروپیگنڈہ یہ فرماتے ہیں کہ غیر ملکی فنڈنگ اور منی لانڈرنگ کا راستہ روکا جا رہا ہے ؟ کیا تعلیم اور میڈیا دونوں ہی شعبوں میں گزشتہ سترہ برس کے دوران بے حساب بیرونی فنڈنگ نہیں ہوئی ؟ اس فنڈنگ کی تو آپ سہولت کار بنے نظر آتے ہیں۔ کیا ریال حرام اور ڈالر حلال ہوگیا ہے ؟ کون انکار کر سکتا ہے کہ کسی منظم اور ہمہ جہت مالیاتی ڈسپلن کا نہ ہونا ہمارا وہ سنگین مسئلہ ہے جس کے مضر اثرات ہر شعبہ زندگی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ٹیکس فری زونز کے قیام نے ہمارے ہاں سمگلنگ کو فروغ دیا، ڈالروں پر پلنے والی این جی اوز کو کھلی چھوٹ نے اپنی ریاست کے بجائے دشمن سے وفاداری کا کلچر متعارف کرایا۔ریال کی پائپ لائن نے فرقہ واریت کو جلا بخشی اور وقتاً فوقتاً آنے والی ایمنسٹی سکیموں نے کالے دھن کی حوصلہ افزائی کی۔ ایسے میں فقظ مدارس فنڈنگ کا ڈھول پیٹنے کا یہی مطلب ہے کہ آپ قومی سطح پر کسی مالیاتی ڈسپلن کے لئے فکر مند نہیں بلکہ کچھ ایسے بیرونی مطالبات کی تکمیل آپ کا ایجنڈہ ہے جن سے شاید آپ کے حصے کے ڈالرز مشروط ہیں۔