دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا آپ معزز پارلیمان میں ہونے والی گفتگو اپنے اہل خانہ کے ساتھ بیٹھ کر سن سکتے ہیں؟ جناب سپیکراس معاملے میں اگر خود کو بے بس پاتے ہیں تو کیا پی ٹی وی سے کہا جائے پارلیمان کی کارروائی نشر کرنے سے پہلے تنبیہہ جاری کر دیا کرے کہ یہ کارروائی صرف بالغان کیلئے ہے اور بچوں کو اس نشریات سے دور رکھا جائے؟ سینیٹر نگہت مرز ا روایت کرتی ہیں کہ اجلاس نبٹا کر وہ کراچی پہنچیں تو ان کی کم سن نواسی کہنے لگی : ’’ نانو جن لوگوں میں آپ جا کر بیٹھتی ہیں یہ اچھے لوگ نہیں ہیں ، دیکھیں تو کتنے بد تمیز ہیں اور باتیں کیسے کرتے ہیں۔آپ ادھر نہ جایا کریں‘‘۔ٹیلی ویژن سکرین پر مقدس ایوان کے معزز اراکین اسمبلی کا مکالمہ سن کر ایک معصوم بچی کی یہ رائے ہمیں بطور قوم دعوت فکر دے رہی ہے کہ ہم کس سمت کو جا رہے ہیں اور ہماری منزل کیا ہے؟اس وقت سماج میں جنسی جرائم زیر بحث ہیں اور ریپ کے واقعات نے معاشرے کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں پارلیمان میں معزز اراکین تشریف لاتے ہیں ، ایک اٹھتا ہے اور وہ دوسرے رکن پر بازاری انداز سے ذو معنی جنسی فقرے کستا ہے ۔اس غیر اخلاقی اور شرمناک طرز گفتگو پر اس کی جماعت کے معزز اراکین بنچ بجا کر اس کو داد دیتے ہیں او اس بد زبانی کے بعد وہ اس فاتحانہ شان کے ساتھ ایوان سے باہر آتا ہے گویا کوئی جنگجو قلعہ فتح کر کے لوٹ رہا ہو۔جس ملک کی پارلیمان میں حریف کو ذلیل کرنے کے لیے ذو معنی جنسی فقرے اچھالے جاتے ہیں اس ملک میں ریپ جیسے جرائم پر قابو پالینے کی خواہش کرنا بذات خود کسی جسارت سے کم نہیں۔جس ملک کے اکابرین پارلیمان میں ایک دوسرے پر جنسی فقرے اچھال کر لطف اندوز ہوتے ہوں اور داد پاتے ہوں اس ملک میں معصوم بچیاں سڑکوں پر درندوں کی ہوس کی بھینٹ چڑھ جائیں تو حیرت کیسی؟افتاد طبع تو یکساں ہے ، فرق تو محض طریق واردات کا ہے۔ سیاسی قیادت سے بات ہو تو وہ ان غیر شائستہ رویوں کو انفرادی واردات قرار دے کر اس کی مذمت کر دیتے ہیں لیکن یہ مذمت برائے وزن بیت ہوتی ہے۔امر واقع یہ ہے کہ جو اپنی اور دوسروں کی عزت کے بارے میں جس قدر بے نیاز ہو گا قیادت کے ہاں اسے اتنا ہی معتبر سمجھا جائے گا۔ بد زبانی اور غیر شائستگی اب ملامت کا نہیں دلاوری کا عنوان ہے۔ ہر گروہ میں محسوس ہوتا ہے ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور پارلیمان کے اندر اور باہر ، انہیں پرجوش انداز سے داد دی جاتی ہے کہ شاباش ، تم نے اخلاقیات کی دھجیاں اڑا دیں ، تم ہماری صف کے رستم ہو۔ پارلیمان ایک محترم ادارہ ہے جس کے تقدس کے لیے قوانین موجود ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ خود اراکین پارلیمان اس تقدس اور احترام سے بے نیاز ہیں اور جناب سپیکر میں اتنا دم خم نہیں ان قوانین کو نافذ کر سکیں۔قومی اسمبلی میں کارروائی اور طریق کار کے باقاعدہ قواعد موجود ہیں۔ضابطہ نمر 30 کے تحت قرار دیا جا چکا ہے کہ کوئی رکن پارلیمان فقرے بازی ، شور شرابے ، نعرے بازی ، دروغ گوئی یا دشنام طرزی نہیں کرے گا۔ اراکین پارلیمان کو قانون پابند کرتا ہے کہ جب کوئی تقریر کر رہا ہو گا تو وہ خاموش رہیں گے، اسے ٹوکیں گے نہیں ، اس پر فقرہ نہیں اچھالیں گے ، ایوان میں بینر یا کتبہ لے کر نہیں آئیں گے ۔ یہی وہ ضابطے تھے جو ایوان کا ماحول معتبر اور شائستہ بناتے تھے۔ انہیں کی وجہ سے پارلیمانی زبان کی اصطلاح عام ہوئی ، یعنی انتہائی باوقار اور سلجھی ہوئی زبان۔ چنانچہ جب کہیں غیر شائستہ گفتگو ہوتی تو اسے غیر پارلیمانی گفتگو قرار دیا جاتا۔ پارلیمان کا ان دنوں جو حال ہے دیکھ کر لگتا ہے اس اصطلاح کے معنی ہی بدل گئے۔ ضابطہ نمبر 21 اور 22 کے تحت سپیکر کو یہ اختیار ہے وہ ان قواعد کو پامال کرنے پر کسی بھی رکن کو پارلیمان سے نکل جانے کا حکم دے یا اس کی رکنیت ہی معطل کر دے۔ جناب سپیکر مگر نا معقول کو محض ’’ حذف‘‘ کرنے کا حکم دے کر اپنے جملہ فرائض ادا فرما لیتے ہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ الفاظ پارلیمان کی کارروائی سے تو حذف ہو جاتے ہیں ، کیا یہ سماج کی یادداشت سے بھی حذف ہو جاتے ہیں؟ کیا کسی کو احساس ہے کہ ایوان میں ہونے والے اس طرز گفتگو کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟ کبھی نہیں سنا کہ کسی رکن پارلیمان کو بد تمیزی اور یاوہ گوئی پر اس کی قیادت نے سرزنش کی ہو۔ قیادت تو شاید خوش ہوتی ہے کہ اس کا جیالا متوالا یا ٹائیگر کسی کی بھی عزت کا آملیٹ بنانے پر قدرت رکھتا ہے۔ سوال اب یہ ہے کہ جناب سپیکر کہاں ہیں؟ جو گفتگو پارلیمان میں کی جاتی ہے کیا جناب سپیکر کی رائے میں یہ مناسب اور مہذب طرز گفتگو ہے؟ پہلے ٹاک شوز میں ان سیاسی شخصیات نے اینکرز کی ڈگڈگی پر ناچتے ہوئے وہ طوفان بد تمیزی برپا کیا ہے کہ مکالمے کا مہذب کلچر برباد کر کے رکھ دیا ہے اور اب پارلیمان جیسے معتبر ایوان کو مچھلی منڈی بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔دروغ بر گردن راوی یہ سب وہ ہیں جو آئین کے آرٹیکل 62 اور63 پر پورا اترتے ہیں۔ذرا یہ آرٹیکل پڑھ لیجیے ، پارلیمان کے قوانین پڑھ لیجیے اور ان کی تقریریں سن کر فیصلہ کیجیے کہ صرف سر پیٹنا ہے یا ساتھ منہ بھی نوچنا ہے۔ہر ملک کی ایک پارلیمانی تاریخ ہے اور چند روایات۔ ہمارے ہاں صرف بے نیازی ہے۔ آئر لینڈ میں اگر کوئی رکن غیر پارلیمانی لفظ استعمال کرے اور معذرت نہ کرے تو اسے فی الفور ایوان سے نکال دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں مقررین گالی اور دشنام دیتے رہتے ہیں اور سپیکر اور چیئر مین سینٹ بے بسی سے بیٹھے پہلے منتیں کرتے رہتے ہیں ’’ نا کریں جی ، ایسا نا کریں پلیز ، پلیز جی ، دیکھیں جی ، اور جب کوئی ان کی پلیز پلیز پر توجہ نہیں دیتا تو پھر محض ’’ حذف‘‘ کرنے کا کہہ کر اپنا فریضہ انجام دے کر سرخرو ہو جاتے ہیں۔ جناب سپیکر میں اگر دم خم نہیں اور وہ ایوان کے قوانین و ضوابط کو لاگو نہیں کر سکتے اور ان کی سپیکر شپ کا کمال یہی ہے ’’ حذف کر دو جی ِ ایکسپنجڈ جی ‘‘ تو پھر ایسا کیجیے ، پی ٹی وی کو ہدایت جاری کر دیجیے کہ جب معزز اراکین اسمبلی تقاریر فرمانے لگیں تو ٹی وی کی سکرین پر ایک ہدایت نامہ نشر کر دیا جائے کہ پارلیمان کی کارروائی نشر ہونے والی ہے ، بچوں کو اس سے دور رکھیے۔یہ صرف بالغان کے لیے ہے۔