16جولائی کو بادو باراں کے جھکڑ میں گھر سے حج کے لئے نکلے مگر گاڑی میں بیٹھتے بیٹھتے ہم مکمل بھیگ گئے یہ مون سون کی پہلی زور دار بارش تھی۔ پورا راستہ بارش ہوتی رہی۔ ایئر پورٹ پر رش تھا۔ اچھا یہ ہوا کہ اس مرتبہ وزارت حج کی طرف سے کچھ ایسا اچھا انتظام تھا کہ اس نامساعد موسم کی ٹینشن یہاں آ کر ختم ہو گئی۔ ایک دو دوست بھی مل گئے اور حج کے ڈائریکٹر ریحان کھوکھر صاحب بھی آئے ہوئے تھے۔ اچھا لگا کہ وہ حاجیوں سے فرداً فرداً مل رہے تھے کہ اگر کوئی دشواری ہو تو دور کی جائے۔عصر کی نماز ادا کی تو امامت ہمارے حصے میںآئی۔ ہماری مدینہ کے لئے فلائٹ تھی۔ بہت خوشگوار سفر تھا چار گھنٹے اور تیس منٹ کی پرواز کے بعد مدینہ کے ایئر پورٹ پر ہم پہنچے تو پیارے دوست محمد علی ظہوری یاد آئے کہ جب دیار نبیؐ میں یہ اشعار پڑھتے تو سماں باندھ دیتے: جب مسجد نبویؐ کے مینار نظر آئے اللہ کی رحمت کے آثار نظر آئے بس یاد رہا اتنا سینے سے لگی جالی پھر یاد نہیں کیا کیا انوار نظر آئے مدینہ ایئر پورٹ پر اترتے ہی لائن بنوائی گئی اور ایک برقع پوش خاتون ہاتھوں پر گلوز چڑھائے سب کو باری باری پولیو کے قطرے پلاتی جاتی۔ ہمیں تو عجیب لگا کہ اس نے بے رحمی سے تین چار قطرے ویکسین ہمارے منہ میں پچکار دی۔ یک دم دوائی کی کڑواہٹ نے ہمارے رگ و پے کڑوے کسیلے کر دیے۔ حالانکہ ہم لاہور حاجی کیمپ سے ویکسین کروا کے اور پیلے کارڈ سنبھال کر ساتھ لائے تھے ایسے لگتا ہے کہ انہیں ہماری کسی بات پر اعتبار نہیں رہا اور وہ ہماری ویکسی نیشن پر یقین نہیں کرتے۔ یا پھر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی دوائی اصلی اور خالص ہے جو بھی آتے ہی مہمانوں کا منہ میٹھا کروانے کی بجائے کڑوا کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔ ایسے ہی انور مسعود کا شرارتی شعر ذہن میں آ گیا: مجھ کو شوگر بھی ہے اور پاس شریعت بھی ہے میری قسمت میں ہے میٹھا نہ ہی کڑوا پانی وزارت حج کے لئے ہمارے دل سے دعا نکلی کہ وہ جو کہتے تھے ویسے ہی ہوا کہ ہمیں یہاں چنداںپریشانی نہیں ہوئی اور ہم بآسانی پاس آئوٹ ہو گئے۔ یہاں جو تبدیلی دیکھنے میں آئی وہ یہ کہ عورتیں حجاب پہن کر احسن انداز میں اپنا چیکنگ پاسپورٹ کا کام نبھا رہی تھیں حتیٰ کہ جب ہم آ کر بسوں میں بیٹھے تو ایک خاتون نے نہایت مستعدی سے ہمارے پاسپورٹ اکٹھے کئے اور ان کے پہلے صفحہ کی تصویر بنائی۔ وزارت حج کی طرف سے ایک ایک تحفہ بھی تھا۔ دیکھا تو اس میں کھانے کی کچھ اشیاء تھیں۔ ایک بات بتانا تو میں بھول ہی گیا کہ لاہور حج کیمپس میں گئے تو ہمیں کچھ رقم واپس کی گئی۔ میاں بیوی کو 26ہزار روپے فی کس واپس ملے۔ کچھ حاجیوں کو 55ہزار روپے بھی واپس ملے اور وہ بہت خوش تھے مگر انہیں بتایا کہ یہ آپ کی رہائش کے مطابق ہے جن کو پیسے زیادہ واپس ہوئے ہیں ان کی رہائشیں دور ہوں گی اور دوسروں کی قریب ہمیں سن کر تسلی ہوئی۔ چونکہ تمام حاجیوں کو بسوں میں بھر کر چلنا تھا لہٰذا یہاں ایک ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا تو یہ ان کی بھی مجبوری تھی۔ ہماری رہائش گاہ پر ہمیں پہنچایا گیا تو وہاں بھیڑ لگ گئی۔ حکومت پاکستان نے یہ اچھا کیا کہ مسجد نبوی کے قریب ہی ملٹی سٹوری بلڈنگ میں انتظام کیا گیا تھا۔ مسجد کے اردگرد بڑی بڑی عمارتیں ہیں جس میں ہزاروں لوگ سما جاتے ہیں۔ ہماری خوش قسمتی کہ ہمارے ہوٹل سے مسجد نبوی دو تین فرلانگ کے فاصلے پر ہے پھر یہ ایک قسم کا سامنے والا حصہ بنتا ہے’’باب بدر‘‘ بالکل سامنے آغاز میں وہ جگہ ہے جہاں کبوتر دانہ چگتے ہیں۔ یہ منظر بھی دیدنی ہے۔ لوگ ان کے لئے دانہ پھینکتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے حضورؐ کے مہمانوں کو پہلے کبوتر خوش آمدید کہتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ شام کے وقت سب کبوتر اپنی اپنی پناہ گاہوں میں چلے جاتے ہیں اور رات گزار کر علی الصبح پھر وہیں آن بیٹھتے ہیں۔ اتنی اونچی اونچی عمارتوں میں نہ جانے وہ کہاں بسیرا کرتے ہیں۔ اپنی قیام گاہ میں پہنچے تو ہمارا سامان بھی پہنچ گیا۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ غدر مچ گیا۔ اپنا اپنا سامان ڈھونڈنا اتنا آسان نہیں۔ ہمارے ٹیگ تو وہاںبے معنی ہو گئے۔ اپنے سامان کی شناخت خود کرنا پڑی خیر ہم بری طرح تھک گئے مگر وہ جو شوق و ذوق ہوتا ہے کہ کبوتروں کی طرح اڑ کر روضہ رسولؐ پر پہنچا جائے۔ ہم اپنی بادریشن کو پس پشت ڈالتے ہوئے مسجد نبویؐ کی طرف روانہ ہوئے۔ وضو کیا اور آگے جا کر صحن میں جا بیٹھے اور دیکھا تو چاروں طرف حضورؐ ان کے چار یاروں اور دوسرے صحابہ کرامؓ کے نام تحریر ہیں۔ وقت کا اندازہ کوئی نہیں تھا۔ کچھ دیر بعد تہجد کی اذان ہوئی۔ ہم نے تہجد ادا کی۔ اس کے بعد اذان اور فجر کی نماز۔مسجد نبوی کی نماز جس کا ثواب پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور مسجد احرام میں ایک لاکھ نمازوں کا۔ ایک احساس کتنا خوشگوار تھا کہ اللہ کے محبوب سے منسوب مسجد نبویؐ میں ہم آ گئے ہیں اور خوش الحان امام کی تلاوت نماز میں سن رہے ہیں۔ ایک سرشاری اور لطف جو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ مسجد تو پہلے ہی بھر گئی تھی۔ عمرہ کے دنوں میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ حج کا موسم تو بہت ہی بھر پور ہوتا ہے۔ ذہن میں تھا کہ روضہ رسول ؐ پر سلام پیش کریں گے مگر نہیں صاحب رش کا وہ عالم تھا کہ کچھ نہ پوچھئے۔ باحسرت و باش واپس اپنے ہوٹل میں لوٹ آئے۔ اکثر نے یہ سوچ کر کہ رات بارہ ایک بجے رش نہیں ہو گا زیارت کا قصد کیا مگر پتہ چلا کہ ہر کوئی یہ سوچ کررات گئے گیا کہ لوگ کم ہونگے۔ مگر یہاں تو ایک دنیا ہے جو سمندر کی موجوں کی طرح رواں دواں ہے۔ ساری دنیا کے ممالک سے آئے ہوئے وضع قطع‘ لباس اور شکل و صورت میں الگ تھلگ ۔ بڑا ہی اچھا لگتا ہے کہ سب کے سب اللہ اور رسولؐ کی محبت میں کشاں کشاں یہاں چلے آتے ہیں۔ سب کچھ دین مصطفی ؐ نے جوڑ رکھا ہے۔ اگلے روز یعنی آج جب کالم لکھ رہا ہوں روضۂ رسولؐ پر جانے کا موقع بن گیا تو وہاں دوستوں کے سلام پہنچائے اور آپؐ پر درود و سلام پڑھا۔ آپؐ کے خیال میں ڈوب گیا ؎ یقین کچھ بھی نہیں ہے گمان کچھ بھی نہیں جو تو نہیںہے تو سارا جہاں کچھ بھی نہیں ترے ہی نام سے پہچان ہے مرے آقاؐ وگرنہ اپنا تو نام و نشان کچھ بھی نہیں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے مگر جگہ کم پڑ رہی ہے ایک چیز میں ریحان کھوکھر صاحب کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں کہ وہاں کی اس عظیم رہائش گاہ میں صرف چار لفٹیں تھیں اور نماز کے بعد مسجد نبویؐ سے آ کر اپنے کمروں میں جانے کے لئے لفٹ سے باہر لمبی لائنیں لگانا پڑتی ہیں جو تکلیف دہ ہیں خاص طور پر عورتوں کے لئے باہر تک ان لمبی لائنوں کو دیکھ کر کچھ نہ پوچھئے کہ کیا کوئی چیز بانٹی جا رہی ہے۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان میں ہم شاید قطار نہ بھی بناتے مگر ہم مدینہ میں ایسا نہیں کر سکتے کہ اندر سے اجازت نہیں ملتی۔ خیر یہ تو میں نے نوٹس میں لانے کے لئے تذکرہ کر دیا۔ باقی اتنے بڑے رش میں کچھ نہ کچھ مسائل تو پیدا ہوتے ہیں اور انہیں برداشت کرنا کتنے بڑے اجر کے حصول کا ذریعہ ہوتا‘ یہ ہم نہیں جانتے کہ ہم آٹھ یا دس روز مدینہ ٹھہریں گے اور 80نمازیں جماعت کے ساتھ پوری کریں گے۔ دادا حضور حبیب اللہ شاہ کے شعروں کے ساتھ اجازت: اے نبیؐ امی لقب اے وارث ام الکتاب اے عرب کے ماہِ روشن اے عجم کے آفتاب آیۂ انا فتحنا شانِ محبوبی تری حسن کی معراج ہے ہر حسن ہرخوبی تری تیرؐے آنے سے اندھیروں میں اجالا ہو گیا تیرےؐ دم سے دین حق کا بول بالا ہو گیا