شیخ جی کے حقیقی مقام و مرتبے سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ عمران خان قدرے قدرشناس ہیں لیکن باقی تو بالکل نہیں۔ سچ یہ ہے کہ وہ اتنی بلند پایہ ہستی ہیں کہ ان کے پائے کے بلند پائے بہت کم پیدا ہوئے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عظیم المنزلت، شاہ بلند پائیگاں قبلہ شیخ جی کے ملفوظات اس قابل ہیں کہ ہر خاص و عام تک تشریحی حاشیوں کے ساتھ پہنچائے جائیں۔ تازہ نکتہ معرفت یوں ارشاد ہوا کہ جب کبھی ضمیر پر بوجھ ہوا تو استعفیٰ دے دوں گا۔ ملاحظہ فرمائیے، کیا سچائی بیان کی۔ بوجھ ایک اضافی شے ہے۔ ایک دھان پان، دق زدہ آدمی کے لیے اڑھائی کلو کا تھیلا بھی بوجھ کہلاتا ہے اور اگر کوئی رستم پنجاب ہو، نامی گرامی پہلوان ہو تو وہ اڑھائی من کی بوری بھی گلاب کے پھول کی طرح اٹھا لے گا۔ مطلب یہ نکلا کہ شیخ جی کا ضمیر کوئی دق زدہ ضمیر نہیں، رستم و سہراب قسم کا ضمیر ہے۔ یہ بات انہوں نے اپنے دور وزارت کے دس مہینوں میں ریلوے کے ستر عدد کہ نصف جن کی پینتیس ہوتا ہے حادثات پر ہونے والے نادان تبصروں کے جواب میں کہی۔ نادانوں کو علم نہیں کہ ستر کیا سات سو حادثات ہو جائیں، ریلوے کا بھٹہ پہلے بیٹھے، پھر لپٹ جائے، خسارہ بڑھ کر الخسارہ ہوجائے، تب بھی شیخ جی کے لحیم شحیم ضمیر پر اس کا اتنا بوجھ بھی نہیں پڑے گا جتنا جھیل کی سطح پر گلاب کی پتی کا پڑتا ہے۔ شیخ جی رستم پنجاب ہیں، تو ان کا ضمیر رستم زمان، نادانوں کو ان کے مقام بلند کاذرا بھی علم ہوتا تو استعفیٰ کے مطالبے کی نادانی کبھی نہ کرتے۔ ٭٭٭٭٭ شیخ جی معرفت کی دنیا کے امام ہیں، پوری تحریک انصاف کے جملہ ارباب طریقت ان کے ہاتھ پر بیعت ہیں۔ تازہ عارفانہ کلام انہوں نے یوں ارشاد فرمایا ہے کہ سکینڈل زدہ جج ارشد ملک کا فیصلہ کالعدم ہوا اور نواز شریف رہا ہو گئے تو کوئی بات نہیں، دوسرا مقدمہ تیار ہے، ادھر رہا ہوئے، ادھر دوسرے میں اندر ہو جائیں گے۔ یہ بات انہوں نے ازراہ احتیاط کی ہے۔ اس لیے کہ جج سکینڈل زدہ کے بعد استعفیٰ زدہ یا برطرفی زدہ ہو جائے تب بھی نواز شریف رہا نہیں ہوں گے۔ کاتبان تقدیر کے فیصلے اٹل ہیں۔ پھر بھی شیخ جی کی بات کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ کیا فیصلہ ہو چکا ہے، کیا ہونے والا ہے، شیخ جی کو سب پتہ ہے۔ ٭٭٭٭٭ اور یہ کوئی پہلی بار نہیں کہ شیخ جی کا کشف ایک سو ایک فیصد سچ ثابت نہ ہوا ہو۔ پانامہ کیس ابھی چلا نہیں تھا کہ شیخ جی نے نوشتے کو قسط وار ارشاد فرما کے سب تک پہنچا دیا تھا اور پھر دنیا گواہ ہے۔ جس جس طرح شیخ جی نے ارشاد فرمایا تھا، سب اسی اسی طریقے سے ہوا۔ ٭٭٭٭٭ ذرا ایفیڈرین کیس کو یاد کیجئے۔ اس میں نو ملزم تھے۔ ایک مرکزی ملزم تھا۔ باقی آٹھ میں چھٹے ساتویں نمبر پر حنیف عباسی تھے۔ ان پر ڈالی گئی ایفیڈرین کی مقدار بہت کم تھی۔ شیخ جی نے بار بار الہامات عام کیے کہ سب چھوٹ جائیں گے۔ حنیف عباسی کو عمر قید سے کم سزا نہیں ہو گی۔ منکرین معرفت انکار کر رہے تھے، مان کر نہیں دے رہے تھے۔ ان کی ظاہر بین نظر ظاہر پر تھی اور ظاہر یہ کہتا تھا کہ کیس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ شیخ جی کی نظر ظاہر پر نہیں، بادی النظر پر تھی۔ پھر وہی ہوا کہ نہیں؟ سب نجات پا گئے، حنیف عباسی عمر قید کی نذر ہوئے۔ مرکزی ملزم حکومتی ایوانوں میں اہم عہدے پر فائز ہوا۔ ٭٭٭٭٭ شیخ جی نے پرویز مشرف کے دنوں میں دو سیٹوں پر الیکشن لڑا اور عوام سے یہ کہہ کر ووٹ لیے کہ جیت کر دونوں سیٹیں نواز شریف کے قدموں پر نچھاور کر دوں گا۔ عوام نے ووٹ دیئے، شیخ جی جیت گئے اور دونوں سیٹیں پرویز مشرف کے قدموں پر نچھاور کر دیں۔ عوام چیں بچیں ہوئے۔ مقامات معرفت میں سے ایک مقام اس ’’صنعت‘‘ کا ہے جسے مجاز بول کر حقیقت مراد لینا کہا جاتا ہے۔ یعنی پرویز مشرف ۔ ٭٭٭٭٭ دو عشرے پہلے کی بات ہے۔ اچھرہ موڑ پر ایک عامل کامل کا دفتر تھا۔ اپنے صحافی ساتھی کے ہمراہ وہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ بہت غیب کی خبریں سنائیں۔ دیر تک بتاتے رہے، ایک بار یہ کہا، وہی ہوا، دوسری بار یوں کہا، ویسے ہی ہوا۔ میری خبر، میرا کشف، میرا عمل کبھی خطا نہیں کرتا۔ کام میرے ساتھی کو تھا۔ اس نے بتایا۔ عامل نے فرمایا، فکر مت کرو، یہ تو کوئی کام ہی نہیں۔ چٹکی بجاتے کروں گا لیکن آج رات دہلی جانا ہے۔ عاملوں(جادوگروں) کی کانفرنس ہے۔ ہفتے بعد واپسی ہو گی، پھر تمہارا کام سب سے پہلے۔ دلی پہنچے اور پہنچتے ہی حراست قلبی کا حملہ ہوا اور چل بسے(نوٹ:یہ سطریں یونہی لکھ دیں) ان کا مقامات رشیدیہ سے کوئی تعلق نہیں)۔