خاتم النبیین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب مدینہ منورہ میں ورودِ مسعود فرمائے پانچ ماہ گزر گئے تو خاتم النبیین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو مہاجرین اپنے اہل و عیال،خویش و اقارب چھوڑ کر مدینہ منورہ پہنچے ان کو اور انصار ِمدینہ کو بھائی بھائی بنا دیا جس کو تاریخ میں’ مواخاتِ مدینہ ‘کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔یہ بھائی چارہ ایسا قائم ہوا کہ حقیقی بھائیوں سے بھی بڑھ کر مہاجرین و انصار نے پھر اس کا حق ادا کیا۔ رشتہ اخوت قائم ہونے کے بعد مہاجرین و انصار نے ایثار و قربانی کی ایسی ایسی مثالیں قائم کیں کہ دنیا کی کوئی قوم ان کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ یہ اسلامی بھائی چارہ اس لئے کروایا کہ مہاجرین اپنے وطن،اہل و عیال،حلقہ احباب اور اپنے اموال و اسباب سب کچھ چھوڑ کر مدینہ منورہ پہنچے تھے ۔یہاں کے رہنے والوں سے ان کی کوئی جان پہچان نہ تھی سوائے چند ایک کے ان میں باہم رشتہ داریاں بھی نہ تھیں وہ یہاں آکر اپنے آپ کو بے یارو مددگار خیال کرتے تھے ،وطن کی جدائی اہل و عیال کا فراق اس پہ بے یارومددگار ہونے کا احساس ان کے لئے بڑا روح فرسا تھا ۔ ان تمام مقا صد کے حصول کے لئے خاتم النبیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارے کا نظام قائم فرمایا۔مواخات کے اس نظام نے ان سب کو ایک امت میں تبدیل کر دیا جن کا نفع اور نقصان عزت اور ذلت،فتح اور شکست ایک تھی،اوران کو محبت و پیار کے ایسے رشتہ میں پرو دیا کہ ان میں مغایرت کا کو ئی نشان تک باقی نہ رہا۔اس نظام کی برکت سے اجنبیت کی جو دیواریں مہاجرین و انصار میں حائل تھیں وہ پیوند ِ خاک ہوگئیں اور یہ سب یوں یک جان ہو گئے کہ انصار خونی رشتہ داروں اور سگے بھائیوں سے بھی زیادہ اپنے مہاجر بھائیوں پر اپنا سب کچھ نثار کرنے کے لئے بے چین ہو گئے اور ان میں سے ہر ایک انصاری اپنے مہاجر بھائی کو ساتھ لے گیا اور گھر کا تمام سامان پیش کر کے کہا اس سے نصف آپ کا اور نصف میرا،وہ خود بھوکے رہے مگر اپنے دینی بھائیوں کو کھانا مہیا کیا،خود معمولی لبا س پہنا لیکن اپنے مہاجر بھائیوں کو عمدہ لباس مہیا کیا مثلاً حضرت سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کے بھائی قرار پائے تھے جو انصار میں سب سے زیادہ مالدار تھے انہوں نے اپنے تمام مال کا نصف پیش کر کے یہاں تک کہہ دیا کہ میری دو بیوبیاں ہیں ان میں سے ایک کو آپ کی خاطر طلاق دے دیتا ہوں آپ اس سے شادی کر لیں لیکن حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کچھ بھی لینے سے انکار کردیا اور کہا کہ مجھے صرف بازار کا راستہ بتادیجئے ، خاتم النبیین رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف مواخات مدینہ کے وقت ہی نہیں بلکہ ہر اہم موقع پر اخوتِ اسلامی پر زور دیا۔خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا:’’اے لوگو جان لو کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے سب اہل اسلام ایک برادری ہیں۔‘‘ایک اور موقع پر خاتم النبیین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ،وہ اس پر ظلم نہیں کرتا نہ ہی اسے بے یارو مددگار چھوڑتا ہے اور جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کی کسی ضرورت کو پورا کرتا ہے اللہ تعالی ٰ اس کی ضرورت کو پورا کرتا ہے اور جو کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی مشکل کو آسان کرتا ہے ،اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مشکلات میں آسانی پیدا فرمائے گا اور جو مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی پردہ داری کرتا ہے ،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔‘‘خاتم النبیین سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مواخاتِ مدینہ کے ذریعے امت کو یہ درس دے دیا کہ تمام دنیا کے مسلمان بلا لحاظ ِ رنگ و نسل،ملک و قوم دینی اخوت کے رشتے میں منسلک ہیں۔ لیکن امتِ مسلمہ کی موجودہ صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے ۔بقولِ الطاف حسین حالی جس دین نے دل آکے تھے غیروں کے ملائے اس دین میں خود بھائی سے اب بھائی جدا ہے انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی سطح تک ہم بحیثیت مسلم جذبہ اخوت سے بالکل عاری اور منقسم ہیں اس کے نتیجے میں گاہے بگاہے باہم بر سرِ پیکار بھی ہو جاتے ہیں اور بھائی بھائی کا گلا کاٹتا ہے ۔اکثر مسلم ممالک کے تمام تر وسائل دوسرے مسلم ممالک کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں اور انجام کاردونوں متحارب ممالک جانی،مالی،عسکری نقصان اٹھا کر بین الاقوامی برادری میں کمزور اور دوسروں کے دست نگر ہوجاتے ہیں۔اسلامی ممالک اپنی عددی کثرت اور وسائل کی فراوانی کے باوجود تاریخ عالم میں کوئی مؤثر اور مثبت کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ ماضی قریب میں جس کی مثالیں ایران عراق جنگ،عراق اور کویت تنازعہ اور اس کے نتیجے میں عراق کی تباہی ،اسی طرح عراق ، شام اور یمن میں متحارب مسلم گروہوں میں چپقلش اور اس کے نتیجے میں ان ممالک کی تباہی اخوتِ اسلامی سے گریز کا نتیجہ ہے ۔ تاریخ گواہ ہے جب تک مسلمان اخوتِ اسلا می کے جذبہ سے سرشار رہے اقوام عالم میں عزت و سربلندی ان کا مقدر بنی رہی جب سے نفسا نفسی اور خود غرضی میں مبتلا ہوئے تب سے ذلت وپستی کی گہرائی میں گرِتے چلے گئے ۔آج معاشرے میں خاندان،قبیلے اور قوم کے تفاخر نے ہمیں حسد، لالچ،بغض،کینہ پروری،قتل و غارت گری اور مسلمان بھائیوں کا ناحق مال غصب کرنے جیسی برائیوں میں مبتلا کر دیا ہے ضرورت اس اَمر کی ہے کہ مواخات کے عمل کو پھر سے دہرایا جائے ،جذبہ اخوت اور باہمی اتحاد و یگانگت کو فروغ دیا جائے کیونکہ جب اخوت و بھائی چارے کی بنیاد پر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی مدد کرتا ہے تو اسلامی معاشرے میں استحکام پیدا ہوتا ہے اور معاشرے میں امن و سکون اور جذبہ ہمدردی پیدا ہوتا ہے ۔ ہوس نے کردیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو اخوت کا بیاں ہو جا محبت کی زباں ہو جا (ماخوذ از ضیاء النبی،سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ودیگر کتب سیرت)