امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد پاکستان آئے بظاہر انہوں نے طالبان کوسفری سہولیات دینے کے لئے پاکستان سے درخواست کی۔ امریکہ کا خیال ہے کہ پاکستان اگر طالبان کو امریکہ سے مذاکرات پر آمادہ کر سکتا ہے تو پھر طالبان کو افغان حکومت سے بات کرنے پر بھی رضا مند کر سکتا ہے۔ زلمے خلیل زاد پاکستان سے یہی بات کرنے آئے۔ ایک انگریزی معاصر کا کہنا ہے کہ اگلے چند روز میں شروع ہونے والے تازہ مذاکراتی مرحلے میں افغان حکومت کے نمائندے شرکت کریں گے۔ دوسری طرف طالبان ذرائع اس خبر کی تردید کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ بات نہیں کریں گے تاہم مذاکراتی بیٹھک میں افغان قوم کے نمائندے اور وہ سیاستدان حصہ لے سکتے ہیں جو ماضی میں افغان حکومت کا حصہ رہے ہیں مگر فی الوقت اپوزیشن میں ہیں۔ گزشتہ دنوں امریکی ذرائع ابلاغ نے طالبان کی نئی مذاکراتی ٹیم کے ناموں کی فہرست کا ذکر کیا۔ مذاکراتی سائنس سے آگاہ حلقے اس بات کو اہمیت دے رہے ہیں کہ دونوں فریقین کی نمائندگی کون لوگ کر رہے ہیں۔ ہمارے ذرائع نے امریکی اور افغان حلقوں میں گردش کرنے والے ناموں کو طالبان کا نمائندہ ماننے سے انکار کیا ہے۔ طالبان کی طرف سے ملا برادر اخوند نمایاں مذاکرات کار ہوں گے۔ ملا برادر سینئر طالبان کمانڈر ہیں۔ امریکی جارحیت کے خلاف ان کی جدوجہد کو افغان طالبان نہایت احترام سے دیکھتے ہیں۔ قبل ازیں وہ سوویت یونین کے خلاف بھی برسر پیکار رہے ہیں۔ ملا برادر کو 2003ء میں ملا عمر نے اپنا معاون مقرر کیا تھا۔ طالبان کے دور حکومت میں وہ سٹریٹجک اہمیت کے حامل صوبے ہرات کے گورنر اور ڈپٹی آرمی چیف رہے۔ ان کی کوششوں سے بامیان کا علاقہ فتح ہوا۔ افغان طالبان کی قیادت کو مارنا یا گرفتار کرنا امریکہ کی پالیسی تھی۔ ملا برادر گرفتار کر لئے گئے اور 9برس قید رہے۔ دوران قید امریکہ نے ان سے کئی بار مطالبہ کیا کہ وہ کابل انتظامیہ اور طالبان کے درمیان امن عمل اور مذاکرات کی بحالی میں کردار ادا کریں مگر ملا برادر نے افغان حکومت کو امریکہ کی اتحادی قرار دے کر اس کی مدد سے انکار کیا۔ ایسے اصول پسند شخص کو افغان حکومت سے بات کرنے پر اس وقت آمادہ کرنا جب وہ قیدی نہیں رہا۔ بہت مشکل ہے۔ طالبان کی ممکنہ مذاکراتی ٹیم کے ایک اور اہم رکن شیر محمد عباس ستانگزئی ہیں۔ ان کا تعلق لوگر صوبہ سے ہے۔ انہیں طالبان مذاکرات کاروں میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل سمجھا جاتاہے۔ جس کی ایک وجہ غالباً ان کا تعلیمی پس منظر ہے۔ ستانگزئی نے کالج کی تعلیم افغانستان سے حاصل کی۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے سکالر شپ پر بھارت گئے جہاں سے انہوں نے ملٹری سکول سے ڈگری پائی۔ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد شروع ہوا تو شیر محمد عباس ستانگزئی پاکستان آ گئے۔ وہ برہان الدین ربانی کی جماعت جمعیت اسلامی میں شامل رہے تاہم بعد میں عبدالرب رسول سیاف کی اتحاد اسلامی کا حصہ بن گئے۔ طالبان نے افغانستان کا انتظام سنبھالا تو وہ طالبان تحریک میں شامل ہو گئے۔ طالبان نے انہیں نائب وزیر خارجہ بنایا۔ وہ فوجی امور کے ماہر ہیں۔ عرصہ تک طالبان کے سیاسی معاملات کے نگران رہے ہیں۔ مختلف زبانوں پر مہارت نے انہیں ہر دور کی ضرورت رکھا ہے۔ ایک اور مذاکرات مولوی ضیا الرحمان مدنی ہیں۔ ان کا تعلق افغانستان کے صوبے تخار سے ہے۔ وہ نسلاً تاجک ہیں۔ مولوی ضیاء الرحمان مدنی تخار کے گورنر رہ چکے ہیں نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو شمالی علاقوں میں کئی اہم طالبان کمانڈر پھنس گئے۔ گھیرے میں ان کمانڈروں کو نکالنے کا مشن مولوی ضیاء الرحمان مدنی نے انجام دیا۔ شمالی علاقوں میں انہیں ایک بااثر شخصیت مانا جاتا ہے۔ مولوی عبدالسلام حنفی طالبان حکومت میں نائب وزیر تعلیم رہے ہیں۔ ان کا تعلق جوزجان صوبے سے ہے۔ وہ ابتدا سے تحریک طالبان کا حصہ رہے ہیں تاہم طالبان میں ان کی شہرت ایک عالم دین کی ہے۔ انہوں نے مختلف دینی مدارس سے تعلیم حاصل کی، کچھ عرصہ کراچی کے ایک مدرسے میں پڑھے۔ا نہوں نے کابل یونیورسٹی میں کچھ دیر پڑھایا۔ طالبان کی طرف سے امریکہ سے بات چیت میں شیخ شہاب الدین دلاور کی شمولیت کئی لحاظ سے اہم ہے۔ ان کا تعلق لوگر صوبہ سے ہے۔ پاکستان کے دارالعلوم حقانیہ سے فارغ التحصیل ہیں۔ کافی عرصہ پشاور میں درس و تدریس کا کام انجام دیتے رہے۔ طالبان تحریک ابھری تو یہ اس میں شامل ہو گئے۔ پاکستان اور سعودی عرب میں سفیر رہے ہیں ۔ پشاور میں افغان قونصلیٹ جنرل کی حیثیت سے انہوں نے خاصا کام کیا۔ ایک اور مذاکرات کار ملا عبدالطیف منصور ہیں۔ ان کا تعلق پکتیا سے ہے۔ مشہور جہادی کمانڈر مولوی نصراللہ منصور کے بھتیجے ہیں۔ وہ طالبان دور میں لوگر صوبہ کے گورنر اور طالبان سیاسی کمیشن کے اہم رکن رہے ہیں۔ ان کی طرح ملا عبدالمنان عمری کا نام بھی مذاکراتی ٹیم میں شامل ہونے کی اطلاع ہے۔ عبدالمنان عمری کا تعلق صوبہ اورزگان سے ہے۔ وہ ملا عمر کے بھائی ہیں۔ انہیں ملا اختر منصور کے دور میں کچھ اہم ذمہ داریاں تفویض کی گئی تھیں تاہم وہ زیادہ وقت منظر سے اوجھل رہے۔ مولوی امیر خان متقی صوبہ پکتیکا سے ہیں۔ جہاں کسی زمانے میں وہ مولوی محمد نبی محمد کی جماعت کا حصہ رہے۔ طالبان حکومت میں وزیر اطلاعات رہے۔ طالبان کے تمام ترجمان ان کے ماتحت ہیں۔ وہ طالبان کے مختلف کمشنوں کے سربراہ رہے۔ ان پر امریکہ اور اقوام متحدہ کی طرف سے اب تک سفری پابندیاں ہیں۔ دیگر مذاکرات کاروں میں ملا محمد فاضل مظلوم‘ ملا خیر اللہ خیر خواہ، مولوی مطیع الحق‘انس حقانی‘ ملا نور اللہ نوری اور ملا عبدالحق وثیق شامل ہیں۔ اس فہرست میں موجود طالبان مذاکرات کاروں کا تعارف بتاتا ہے کہ وہ اتنے ناخواندہ‘ ناتجربہ کار اور حالات سے بے خبر نہیں جتنا امریکہ اور اس کے اتحادی انہیں سمجھ رہے ہیں۔ امریکہ ان مذاکرات کے لئے زلمے خلیل زاد پر انحصار کر رہا ہے۔ باقی مذاکرات کاروں کی اہلیت تکنیکی نوعیت کی ہے۔ افغان طالبان کی ٹیم دراصل وہ قیادت ہے جو نائن الیون کے بعد کسی نہ کسی طور بچ گئی۔ ان لوگوں کے پاس سوویت جہاد‘ افغان امریکہ تعلقات‘ خطے کے ممالک اور افغانستان کے سکیورٹی مسائل‘ افغانستان کے قبائلی طرز فکر اور مزاحمتی تحریک کا ایک طویل تجربہ ہے۔ اس صورت حال میں امریکہ بلیک میلنگ اور دبائو کی کوششوں کو عادتاً استعمال کر رہا ہے مگر آخر کار اسے کرنا وہی پڑے گا جس پر طالبان نمائندے رضا مند ہوں گے،پاکستانی سفیر کو بار بار افغان وزارت خارجہ میں طلب کر کے جو پیغام دیا جا رہا ہے وہ کارآمد نہیں ہو گا۔