جنوبی ایشیاء کو استحکام کی طرف گامزن کرنے کی ایک موہوم سی امید،پیدا ہونے کے چند ساعتوں کے بعد ہی دم توڑ گئی۔ جس طرح پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے خط کے جواب میں بھارتی نریندر مودی حکومت نے نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقعہ پروزراء خارجہ کی ملاقات پر آمادگی ظاہر کرکے سبھی کو حیرت زدہ کردیا، پھر 24گھنٹے بعد اسکو منسوخ کرکے سفارت کاروں و تجزیہ کاروں کو مزید حیران و پریشان کرکے رکھ دیا۔ ستم ظریفی تو یہ تھی کہ 21ستمبر کو جب وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار کی ہفتہ وار بریفنگ کا متن جاری کیا گیا، جس میں وہ ملاقات کا اعلان کر رہے تھے، ٹھیک اسی وقت مذاکرات سے معذوری کا بیان بھی جاری کیا جا رہا تھا۔ پاور گلیاروں میں یہاں یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ منسوخی کی اطلاع وزیر خارجہ سشما سوراج کو نیویارک پہنچ کر ملی۔ 21 ستمبر کی صبح نیویارک روانہ ہونے سے قبل سوراج، وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ میٹنگ میں ملاقات کے مندرجات پر بریفنگ لے رہی تھی۔بالکل اسی طرح جب اسی سال جون میں کشمیر میں وزیرا علیٰ محبوبہ مفتی کی حکومت کر برخاست کرکے گورنر راج نافذ کرنے کا اعلان ہوا تو بتایا جاتا ہے کہ وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ کو اسکی اطلاع ٹی وی چینلوں کے ذریعے ملی۔ وہ خاصے آگ بگولہ تھے کہ اس حساس معاملہ پر ان سے مشورہ نہیں کیا گیا۔ویر اعظم مودی کے کام کرنے کا ایک جداگانہ طریقہ ہے۔ وہ اپنے کسی بھی کابینی رفیق پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں۔ نہ ہی ضروری ایشوز کابینہ میں زیربحث لاتے ہیں۔ حتیٰ کہ کابینہ کی سلامتی امور سے متعلق کمیٹی جس میں وزیر داخلہ، وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور وزیر خزانہ ہوتے ہیں کو بھی فیصلوں سے بے خبر رکھا جاتا ہے۔ دراصل موجودہ حکومت ایک تکون پر مشتمل ہے جس میں وزیر اعظم مودی ،پارٹی صدر امیت شاہ اور قومی سلامتی مشیر اجیت دوول ہی شامل ہیں اور ملک کی قضا و قدر کے فیصلے کرنے میں مختار ہیں۔ خیر مذاکرات پر آمادگی اور بعد میں منسوخی کے حوالے سے طرح طرح کی قیاس آرائیاں لگائی جا رہی ہیں۔ حکمران بھارتیہ جنتاپارٹی کے ایک مقتدر لیڈر کے مطابق بھارت اور پاکستان کے وزراء خارجہ کا نیو یارک میں ہاتھ ملانا یا خیر سگالی کا پیغام دینا کسی بھی طرح سے پارٹی کے الیکشن ایجنڈہ میں فٹ نہیں بیٹھتا تھا۔ عام انتخابات میں اب مشکل سے 6ماہ کا وقفہ باقی رہا ہے اور اس سے قبل دسمبر میں چار صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بھی ہونے والے ہیں، جہاں حکمرا ن پارٹی کا وقار دائو پر لگا ہوا ہے۔ پچھلے ماہ دہلی میں بی جے پی کی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں وزیر اعظم مودی نے شکوہ کیا کہ ان کی پارٹی کے اراکین حکومت کی فلاحی اسکیموں کو عوام تک پہنچانے میں ناکام رہے ہیں۔ وہاں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ’’ہندوتوا‘‘ کے ایجنڈا کو لیکر ایک بار پھر ہندو ووٹوں کو یکجا کرنے کا کام کیا جائے۔ مذاکرات کا اعلان ہوتے ہی اکثر نیوز چینلوں نے آسمان سر پر اٹھالیا ۔ ظاہر ہے کہ اسکی ترغیب کہیں سے دی جارہی تھی۔ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اس بی جے پی لیڈرنے مجھے بتایا کہ کہ چند روز قبل ہی انکوحکم آگیا تھا کہ انتخابات کے مدنظر اس سال 29ستمبر کو پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرئیکس کوسبھی حلقوں و بلاکوں میں بڑے ہی تزک و احتشام کے ساتھ منانا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جب وہ حلقوں و بلاکوں میں پاکستان کے خلاف ماحول بنا رہے ہونگے اور اسی دن نیویارک میں سشما سوراج اپنے ہم منصب شاہ محمود قریشی کے ساتھ ہاتھ ملارہی ہو گی ، تو ان کی جگ ہنسائی کا سامان نہیں تو اور کیا ہوگا۔ ایک حکومتی مراسلے میں سبھی تعلیمی ادارو ں اور یونیورسٹیوں کو بتایا گیا ہے کہ اس دن کی مناسبت سے اداروں میں سرجیکل اسٹرائیکس اور پاکستان کے رول پر مذاکرات کا اہتمام کریں۔ ایک طرف پاکستان کے خلاف ماحول بنانا اور دوسری طرف اسی دن نیویارک میں خیر سگالی کا پیغام اور اسکی تصویریں کی میڈیا کے ذریعے تشہیر کسی بھی طور سے پارٹی کے الیکشن ایجنڈا سے میل نہیں کھاتی تھی۔ ویسے بھی عام انتخابات تک دونوں ممالک کے تعلقات میں پیش رفت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ فی الحال مودی اور ان کے دست راست امیت شاہ اقتدار میں واپسی کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے بے قرار ہیں اور اس میں ووٹروں کو لبھانے کیلئے پاکستان کا ہوا کھڑا کرنا بھی شامل ہے۔ بھارت میں گائے، مسلمان اور پاکستان کا ایشو اٹھا کر ووٹ حاصل کرنا ایک آزمودہ فارمولہ بن چکا ہے۔بی جے پی کو ہزیمت کا سامنا فرقہ وارانہ لحاظ سے حساس صوبوں اتر پردیش اور مہاراشٹرا میں کرنا پڑ سکتا ہے اور ان دونوں صوبوں میں پاکستان کے خلاف ہوا بناکر ووٹ بٹورنا ایک آسان فارمولہ ہے۔ ویسے مودی حکومت نے مذاکرات سے انکار کرکے پاکستان کو اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل کی کشمیر پر رپورٹ کو استعمال کرکے بھارت کو کٹہرے میں لانے کی اب کھلی چھوٹ دی ہے۔ ہوسکتا تھا کہ مذاکرات کیلئے ایک سازگار ماحول پیدا کرنے کی خاطر پاکستان اس کو اتنے زور شور سے نہ اٹھا پاتا۔ حال ہی میں بھارت کے دورہ پر آئے سویڈن کے ڈائریکٹر ٹریڈ ٹیپو تاوریانین نے مجھے بتایا کہ ان کے ملک کو بھی یورپ کے دیگر ممالک کی طرح بھارت کی وسیع منڈی کی اشد ضرورت ہے، مگر اس کی وجہ سے حقوق انسانی یا اقلیتوں کے خلاف تشدد سے وہ چشم پوشی نہیں کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں ان کے ملک میں سبھی سیاسی جماعتوں اور سوسائٹی میں اتفاق رائے ہے کہ تجارتی مفادات کو انسانی حقوق کے معاملوں پر فوقیت نہیں دی جاسکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ عام انتخابات کے بعد بھارت میں نئی حکومت روایتی روش چھوڑکر خطے کے سیاسی مسائل کو حل کرنے کی طرف سنجیدہ کوشش کریگی۔ تب تک عمران خان کو تھوڑا صبر سے کام لینا چائے۔ نہایت ہوشمندی سے کام لیکر wait and watch کی پالیسی اپنا کر انکو بھارت کے عام انتخابات کے مکمل ہونے تک ملک کے دیگر اداروں اور سیاسی جماعتو ں کے ساتھ ملکر اتفاق رائے پیدا کرکے اور جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک نیز دیگر پڑوسیوں ایرا ن و افغانستان کے ساتھ تعلقات کو مزید بہتر بنانے اور ایک اقتصادی بلاک کو کھڑا کرنے کیلئے عملی اقدامات کی طرف گامزن ہونے کی ضرورت ہے ، چاہئے اسکے لئے کتنی ہی مراعات دینی پڑیں۔ ان حالات میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ بھارت میں موجودہ حکومت پر بیک چینل ذرائع سے توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ اپوزیشن اور دوسری جماعتوں کے راہنمائوںکو بھی اعتماد میں لے کرامن مساعی کے لیے راہ ہموارکرے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ عمران خان کسی مقتدر اور سفارتی اور سیکورٹی امور کے ماہر شخص کو قومی سلامتی مشیرمقرر کے اسکو یہ کام تفویض کرے۔ موجوہ حکومت فی الحال شاید ہی پاکستان کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرسکے گی۔اگرآئندہ کی متوقع حکومت کے ذمہ داروں سے تعلقات بنائے جائیں اورانہیں دیرپا امن کے قیام اور اس کے خوشگواراثرات کے بارے میں قائل کیاجائے توامید کی جاسکے گی کہ پاک بھارت رشتوں کی گاڑی یقیناپٹڑی پر دوڑنا شروع ہوجائے گی۔حکمران بی جے پی سمجھتی ہے کہ پاکستان کے خلاف عوامی جذبات کو ابھارکر اور پاکستان پر تنقید کرکے وہ زیادہ ووٹ حاصل کر سکتی ہے۔عمران خان نے اپنے ٹویٹ میں مودی کا نام لئے بغیر جس طرح کے الفاظ کا انتخاب کیا وہ جلد ہی یہاں انتخابی موضوع بننے والا ہے۔ دس سال قبل مودی نے مشرف کا فقرہ استعمال کرکے مغربی صوبے گجرات میں ووٹ بٹورے جیسے ان کے مقابل کانگریس نہیں بلکہ پرویز مشرف انتخاب لڑ رہے تھے۔ اب عمران خان کے ٹویٹ کا استعمال کرکے وہ یہی دائو کھیلنے کیلئے دوبارہ پر تول رہے ہونگے۔ ان کی اگلی انتخابی تقریر میں عمران خان کا فقرہ سننے کو ملے گا۔ دانشمندی اسی میں تھی کہ زمینی سطح پر بھارت کو کوئی ایسا موقع نہ دیا جایا جس سے حالات مزید کشیدہ ہوں۔ سفارتی ذرائع کا استعمال کرکے دنیا کو باور کرایا جائے کہ بھارت کے اقدامات سے جنوبی ایشیاء ایک نئے سنگین خطرے سے دوچار ہورہا ہے اور اسکا خمیازہ دنیا کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پاکستانی وزیر خارجہ کو اس ایشو کو بھر پور طریقے سے اٹھانے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی یا عدم استحکام سے نمٹنے کیلئے فوجی یا سفارتی ذرائع سے ہی قابو پایا جاسکتا ہے۔ امریکی افواج پچھلے 18سالوں سے افغانستان میں برسرپیکار ہیں اور دور دور تک کامیابی کے آثار کہیں نظر نہیں آرہے ہیں۔ اسکے پیش نظر امریکہ طالبا ن کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے پاکستان سے اپیل کر رہا ہے تاکہ کسی بھی طرح فا تح کا لقب حاصل کرکے جلدی اپنا بوریہ بستر لپیٹ سکے۔ بھارت بھی پچھلے 30سالوں سے کشمیر میں سکیورٹی فورسز کے ذریعے کسی حل کو نافذ کروانے میں ناکام رہا ہے۔بھارت کی حکمت عملی سے جو ں جوں عدم استحکام طول پکڑتا جا رہا ہے، اس میں دیگر عناصر بھی شامل ہوتے جا رہے ہیںجو حالات کو مزید پیچیدہ کر رہے ہیں۔ حریت قیادت کو مسلسل نظربندی سے دوچار کرکے اور دیگر ذرائع استعمال کرکے ان کے عوامی رابطوں کو محدود تو کر ہی دیا ہ گیا ہے وہیں دوسری طرف بھارت نواز سیاسی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی عوامی ساکھ کو بھی مودی نے ختم کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا ہے۔ کسی سیاسی کنٹرول کی عدم موجودگی کی وجہ سے اب نئے عناصر کشمیر کے گلی کوچوں کو اپنے ہاتھوں میں لیکر ایک انارکی کا ماحول پیدا کرکے خطہ کو مزید پریشانیوں میں مبتلا کررہے ہیں۔ دنیا کو باور کرانے کی ضرورت ہے کہ کشمیر ایک دہکتا ہوا لاوا ہے ، جو خطے کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ بھارت کو حالات کی سنگینی کا احساس کرواکے اسکو کسی حل کی طرف گامزن کروانے کی اشدضرورت ہے۔