ولیم جیمز پہلے امریکی محقق ، فلسفی اور ماہرِ نفسیات ہیں، جن کا یورپ میں سکّہ چلا اور لوہا مانا گیا،اس سے قبل روایت یہی تھی کہ یورپ کے مفکرین اور محققین ہی امریکی یونیورسٹی میں لیکچر دینے کے لیے مدعو ہوتے۔ فکر و فن اور علم و ہنر میں اہل امریکہ ، اہلِ افرنگ سے کمتر ہی متصوّر ہوتے رہے ، تآنکہ اس نابغہ روزگار کی باکمال شخصیت کے سبب علم کی گنگا اُلٹی بہی،یورپ والوں نے بھی ایک امریکی کا لوہا مانا ولیم جیمز 11؍جنوری 1842ء کو نیویارک میں پیدا ہوا،اڑسٹھ برس کی عمر میں26اگست 1910ء کو امریکہ ہی میں ،اس کی وفات ہوئی۔ ولیم جیمز روحانی تجربات ،وحی والہام ، کشف و کرامات پر،کسی مخصوص مذہب ، کسی خاص طبقہ فکر اور محدود علاقے کے اجارے کا قائل نہ تھا۔ وہ کہتا ہے کہ :اگر یہ سوال کیا جائے کہ انسانی زندگی کو سب سے بڑھ کرکونسی خاص چیز کی طلب ہے ۔۔۔؟، تو اس کا ایک ہی جواب ہو گا کہ ہر انسان خوشی اور "مسرت"کا دلدادہ ہے،پر آدمی سکون اور اطمینان چاہتا ہے۔ انسان کے احوال و اعمال اور سوچ و بچار کا راز یہی’’مسرّت اور آسودگی ‘‘ہے۔ انسان ہمیشہ سے یہی سوچتا چلا آ رہا ہے کہ کس طرح ان نعمتوں کو حاصل کیا جائے، اور پھر کس طرح انکا دائمی استقرار اور استحکام قائم رہے، اگر یہ کہیں کھو گئیں، تو اسے کس طرح دوبارہ حاصل کیا جائے ،وہ کہتا ہے کہ مذہب اور مسرت میں ایک خاص قسم کا قریبی تعلق ہے ، عقائد کی صداقت کا یہی معیار کافی ہے کہ اگر کوئی عقیدہ ۔۔۔سچائی،صداقت اور راستی پر مبنی ہے تو اس میں ضرور راحت، خوشی ، اطمینان اور مسرت موجود ہو گی ۔ انسان اسی عقیدے اور مذہب کو اختیار کرتا ہے، جس میں اس کو طمانیت محسوس ہو ۔ آر ۔ ڈبلیو ۔ٹرائن "In Tune with the Infinite"میں بھی یہی تحریر کرتا ہے کہ : "مذہب صداقت کا نام ہے او رصداقت ، مسرّت اور خوشی ہی کا ہم معنی ہے ، مذہب اس سرور وکیف کا نام ہے جو استغراق و محویت سے جنم لیتا ہے ، وہ مزید لکھتا ہے کہ ہم عبادت ، ریاضت ، محنت ، توجہ اور اخلاص کے ساتھ خدائی طاقت کے ساتھ وہ تعلق اور ہم آہنگی استوار کر سکتے ہیں، جس سے وہ ہمارے لئے ہدایت، نور اور قوت کا سرچشمہ بن جائے۔ اس دانش اعلیٰ سے متاثر ہونے کے بعد ہم خدائے حیی و قیوم کی صفات کا مظہر بن جاتے ہیں، کائنات میں ایک ایسی توانائی موجود ہے کہ اگر ہم اسے حاصل کرنے کے بعد اس کا صحیح استعمال کریں، تو اس سے ہماری ہستی میں وسعت و رفعت پیدا ہو جائے گی اور اگر یہی قوت ہماری محرک و رہبر ہو، تو ہمارے قومی اور بین الاقوامی تعلقات نئی بنیادوں پر استوار ہو جائیں گے۔خدائی مشیت کے سانچے میں ڈھل جانا ہی دراصل مذہب ،اس کی پہچان۔ محبت ہے،محبت فطری و بنیادی چیز ہے۔ اسی کے انقطاع کو "نفرت"کہتے ہیں۔ محبت تمام نیکیوں کا سرچشمہ اور تمام جذباتِ عالیہ کی خالق ہے ۔ اسی سے آواز میں رچاؤ ، گفتگو میں شیرینی ، چہرے پہ حُسن ، رفتا اور چال ، ڈھال میں انکسار اور کردار میں وسعت آتی ہے۔ دوسری طرف غصہ، نفرت ، انتقام اور حسد ۔۔۔ دل کی دنیا کو ویران ، چہرے کو بے نور او رسراپاکوخوفناک بنا دیتے ہیں، حاسد اور سازشی کی زندگی ناہمواریوں سے عبارت اور وہ ہر جگہ تخریب اور فساد کا موجب بنتے ہیں، اہل محبت۔ نفرت کا جواب بھی محبت سے دیتے اور دنیا کو ہمیشہ اس امر کی تلقین کرتے ہیں کہ : "دنیا سے بہترین سلوک کرو اور جواباً تم سے بہترین سلوک کیا جائے گا "۔ جن لوگوں کے دلوں میں اللہ کی یاد جاگزیں ہو جائے ، ان کی عام اور سادہ سی پہچان ہی ہے کہ وہ ہر شخص سے محبت کرتے ،خطاکاروں کی خطائیں معاف کرتے ، گالیوں کا جواب دعاؤں سے دیتے ہیں،ہمارے صوفیاء کا بھی یہی طرۂ امتیاز تھا ، قرآن پاک کی میں بھی یہی ارشاد ہے: اِدْفَعَ بِالَّتِی ھِیِ اَحْسَنُ ۔۔۔۔ ایک یورپین دانشور اور حکیم کا بھی یہی قول ہے کہ : "نفرت ، نفرت سے ختم نہیں ہوتی ، اس پر محبت سے غلبہ حاصل کرو۔ دنیا کو محبت کرنا سکھاؤ، ’’جنت‘‘ اپنی تمام تر رنگینیوں اور رعنائیوں کے ساتھ یہیں نمودار ہو جائے گی۔ ترکِ محبت ، موت ہے،جو شخص سب سے محبت کرتا ہے، اس کی زندگی بھرپور،شاندار اور کامل اور اس کی زیبائی ، توانائی اور پذیرائی میں سدا اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے"۔ دراصل مذہب اور محبت کا سب سے بڑا وصف۔ توازن ، تواضع اور انکسارہے ، ان کے بول میٹھے ، چال دھیمی اورطبیعت خوش گوارہوتی ہیں، دوسروں سے نفرت کرنے والے ۔۔۔ کرخت ، مغرور ، تندخُو اور بدمزاج، غروروتکبر، حماقت سے لبریز قرآن سمیت دیگر الہامی کتب میں بھی ان اوصاف کو "آسمانی دانش"سے تعبیر کیا گیا،کسی دانا نے بھی اپنے ماننے والوں کو یہی نصیحت کی تھی کہ اگر دانش حاصل کرنا چاہتے ہو تو انکسار پیدا کرو، اور اگر حاصل کر چکے ہو تو اور زیادہ خاکسار بنو ۔ اسی طرح آر۔ڈبلیو۔ٹرائن اپنی معروف کتاب میںبھی لکھتا ہے کہ : "Give the world the best, you have and the best will come back to you".یعنی دنیا کو بہترین چیزدو ، جواباً تمہیں بہترین چیز ملے گی ۔ اسی طرح ایک اور دانشور کا قول ہے : "Those who live by hate, die by hate and those who live by sword, die by sword""یعنی جو لوگ زندگی کی بنیاد نفرت پر رکھتے ہیں، وہ نفرت ہی سے ہلاک ہوتے ہیں، اسی طرح تلوار کے زور پر زندگی بسر کرنے والے تلوار ہی سے مرتے ہیں"۔برصغیر میں قافلۂ علم و حکمت اور شریعت و طریقت کے سرخیل حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو دریا جیسی سخاوت، آفتاب جیسی شفقت اور زمین جیسی تواضع پیداکرنی چاہیے۔۔۔ کہ اِن کی فیاضیاں اور کرم گستریاں اپنے اور پرائے کا فرق نہیں کرتیں اور ہر کس ناکس کے لیے عام ہوتی ہیں۔ آپ ؒ سیرالاولیاء میں "حقیقی عبادت" کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’در ماند گاں را فریاد رسیدن و حاجت بیچارگان روا کردن و گرسنگاں را سیر گردانیدں‘‘’’عاجزوں کی فریاد کو پہنچنا، ضعیفوں اور بیچاروں کی حاجت روائی کرنا اور بھوکوں کا پیٹ بھرنا ہی حقیقی عبادت ہے۔ ‘‘جمنا کے کنارے پانی کا ڈول کھینچتی۔۔۔ لاغر اور بیمار عورت کے احوال معلوم ہونے پر سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین ؒ اپنے خادم کو حکم فرماتے ہیں کہ جب تک اس عورت کے حالات درست نہیں ہو جاتے ۔۔۔ اس کا خاوند صحت یاب اور برسرِ روز گار نہیںہوجاتا، اس وقت تک ہر ماہ اس کے گھر میں سامانِ خوردونوش کی فراہمی ہماری خانقاہ کی ذمہ داری ہے۔ یہی سلطان المشائخ ؒاپنے شیخ اور پیرومرشد حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کی مجلس کے احوال اور ملفوظات بیان کرتے ہوئے ’’فوائد الفواد‘‘ میںلکھتے ہیں کہ حضرت بابا صاحبؒ کی خدمت میںجب ایک عقیدت مند نے قینچی پیش کی تو آپؒ نے فرمایا:"مجھے قینچی نہ دو کہ مَیںکاٹنے والا نہیں ہوں، مجھے سُوئی دو کہ مَیںجوڑنے والا ہوں۔"برصغیر میں صوفیاء کرام نے محبت، انسان دوستی اوررواداری کا جو خوبصورت نظام مرتّب اورمدوّن کیا ،حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ؒ نے اپنے حُسنِ عمل سے اُس کے نقش و نگار کو اتنا اُجالا کہ اُس کی چمک رہتی دنیاتک انسانیت کو روشنی اور راہنمائی عطا کرتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو اتنا عروج، بلندی اورمقبولیت عطا کی کہ ہر وقت عقیدت مند پروانوں کی طرح آپ ؒ کے گرد جمع رہتے۔ رات گئے خانقاہ کا دروازہ کھلا رہتا، اپنے پرائے، مسلم ،غیر مسلم یہاں تک کہ ہندو جوگی بھی خدمت میں حاضر ہوتے۔ بابا صاحبؒ ہر شخص کو اس کی صلاحیت، سمجھ اور ظرف کے مطابق فیض سے نوازتے۔۔۔بالعموم ظہر کی نماز کے بعد حجرے کا دروازہ عام مخلوق کے لیے کھلتا، سائلوں اور حاجت مندوں کا انبوہِ کثیر ہوتا۔ حضرت بابا صاحبؒ بلند آواز سے ارشاد فرماتے: سنو! میرے پاس ایک ایک کرکے تسلی سے آئو ،تاکہ ہر ایک کو حسب ِ ضرورت توجہ دے سکوں۔مزید فرماتے:"جب تک میرے حجرے کے باہر ایک بھی سائل بیٹھا ہے، مجھے عبادت میں لطف نہیں آتا۔" شمالی ہندوستان میںآپ کی خانقاہ بین المذاہب مکالمے کی اوّلین درسگاہ کے طور پر بھی تاریخ میں ہمیشہ محفوظ اور تابندہ رہے گی۔ آپؒ کے ’’جماعت خانے‘‘میں لنگر کے لیے بچھنے والا دستر خوان رنگ و نسل اور طبقات کی تفریق کو مٹانے کا مؤثر ذریعہ اور خطہ کے بسنے والوں کے لیے محبت اور اخوت کا عالمگیر پیغام تھا،جہاں مختلف ذات اور برادریوں کے افراد کا اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھانا ممکن نہ تھا"الخلق عیال اللّٰہ"پر محکم یقین کے ساتھ، اس آستاں سے انسانی برادری کو ایک رشتۂ الفت میں پرونے کا فیض اتنا عام ہوا کہ پورا ہندوستان اس فکر کی خوشبو میں نہاگیا۔