’’مذہبی تعمیراتی ورثہ ‘‘کی تاریخ بھی اُتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ برصغیر میں صوفیا کی تشریف آوری اور اسلام کی آمد کی۔ حضرت داتا گنج بخشؒ کا وصال پانچویں صدی ہجری (465ھ) میں ہوا، آپ کے مزار کی اولین تعمیر محمود غزنوی کے بعد ، سلطنتِ غزنہ کے تاجدار ظہیرالدولہ سلطان ابراہیم غزنوی کے عہد میں، اس کی خصوصی توجہ اور حکم سے ہوئی، جس میں بالخصوص روضہ کی عالی شان عمارت کا تذکرہ کتب تاریخ میں محفوظ ہے۔ اسلامی ہند کے اوائل دور میں ’’قطب مینار‘‘کی تعمیر خالصتاً اسلامی رنگ سے آراستہ ہے، جس کو حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒسے خصوصی نسبت میسر اور جس کی تکمیل کا سہرا شمس الدین التمش کے سر ہے، مینار۔۔۔اور اس کی عظمت، خطاطی ، نقاشی اوراسلامی اسلوبِ تعمیر سے پوری طرح آراستہ ہے۔ ’’ساداتِ اُچویہ بخاریہ ‘‘اور مشائخِ سہروردیہ ملتان کے مزارات کی تاریخ کم و بیش 800سال پرانی ہے۔ حضرت ابوالفتح شاہ رکن الدین عالم ؒکے مزار کی عمارت اور پُرشکوہ مقبرہ بھی تقریباً1300عیسوی میں غیاث الدین تغلق نے، اپنی تدفین کے لیے، حضرت بہاء الدین زکریا ؒملتانی سے عقیدت و ارادت کی بنا پر، ان کے قدموں میں بنوایا۔ لیکن اسے یہاں دفن ہونا نصیب نہ ہوا، اور اس کے جانشین سلطان محمد تغلق نے ، اسے حضرت شاہ رکن عالم ؒکی خدمت میں پیش کیا۔از خود حضرت بہاء الدین زکریاؒ کا مقبرہ بھی تغلق شاہانِ سلطنت کا شاہکار ہے،جبکہ پاکپتن میں حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کے مزار کے بائیں جانب، آپ کے نبیرہ عظمیٰ میں حضرت علاؤ الدین گنجِ علم کا مقبرہ بھی سلاطین کی یادگار ہے، اس گنبد میں مابعد کے دیگر سجادگان کی بھی قبور ہیں۔ ہندوستان میں مسلم فنِ تعمیر مغلوں کے عہد میں اپنے نقطۂ کمال پہ پہنچا، مغل امیرتیمور کی نسل میں سے ہونے کے باوجود، فکروفن کے بڑے قدر دان تھے، اکبر نے اسلامی، ایرانی اور مقامی فنِ تعمیر کے آمیختہ سے ایک نئے اسلوبِ تعمیر کی بنیاد رکھی، جس میں کشادگی، وسعت، رواداری اور بلندی کا پہلو نمایاں تھا، اورنگ زیب اگرچہ اپنے فقر و درویشی اور مذہبیت کے سبب اسراف اور فضول خرچی کا قائل نہ تھا، اس کے باوجود سنگِ سرخ اور سنگِ مرمر سے آراستہ’’بادشاہی مسجد‘‘اسی بادشاہ کے حکم پر تعمیر شدہ ہے، جو اپنی وسعت اور شکوہ کے اعتبار سے اپنے عہد کی سب سے عظیم یادگار ہے۔ ’’مذہبی تعمیراتی ورثہ۔سیاحت تزئین و آرائش /بحالی (Restoration)‘‘کے عنوان سے آراستہ، ایوانِ اوقاف لاہور میں، گذشتہ ہفتے، منعقد ہونے والی عظیم الشان کانفرنس میں موجود ماہرین کی یہ بات بڑی خوش گوار بلکہ مسحور کن تھی کہ قونیہ میں حضرت مولانا روم کا مزار ساڑھے سات سو سال گزرنے کے باوجود اپنی اصل حالت میں ۔۔۔ اسی طرح برقرار ہے کہ حاضری کی پُرکیف ساعتوں میں ۔۔۔ ایک زائر خود کو ’’حضرت مولانا ‘‘کے عہد میں محسوس کر سکتا ہے۔۔۔ تو پاکپتن میں ’’ڈھکی ‘‘کے اوپر حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کا مزار ، اپنے قدیمی رنگ میں کیوں"Restore"نہیں ہوسکتا۔ مولانا روم کے مزار پر ہمہ وقت بانسری کی نَے اور لَے مُدھر اور پُرکیف سُر میں حاضری کے لمحات میں آپ کی رفیق ودَم ساز ہوسکتی ہے، تو چشتیہ درگاہوں پر سماع کے کیف آور لمحات زائرین کو میسر آنے میں کیا رکاوٹ ہے۔ اگرچہ پاکپتن میں حضرت بابا صاحب کے مزار پر، آج بھی حاضری کے دوران قوال۔۔۔ اپنی موجودگی کا احساس تو دلاتے ہیں۔۔۔ کہ خانقاہوں کی یہ قدیم روایت، ذوق کی آبیاری کے کئی پہلو فراواں کیے ہوئے ہوتی ہے، مگر اُس اعلیٰ معیار تک پہنچنے کے لیے درکار طاقت اور توانائی ۔۔۔ شاید سرِدست میسر نہ ہو۔ قونیہ میں مزار شریف سے ملحق ’’حضرت مولانا‘‘کا مدرسہ۔۔۔ اس کے کلاس روم اور طلبہ کا کچن۔۔۔ آج بھی اس کاریگری سے آراستہ ہے کہ آپ کو صدیاں۔۔۔ پیچھے کی طرف سمٹتی محسوس ہوں۔ بہرحال حضرت بابا صاحب کا بھی، پاکپتن میں ایک مدرسہ تھا، جس میں خواجہ نظام الدین اولیاؒ اور بدر الدین اسحاق جیسی نابغۂ روزگار شخصیات، آپ سے براہِ راست اکتسابِ علم اور کسبِ فیض کرتیں ، اور اگر چھوٹی اینٹ سے بنے ہوئے راستے اور "ڈھکی"پر چڑھتی ہوئی قدیم گلیاں، اب بھی بحال ہوں، جن پر چلتے ہوئے دربار شریف کا رعب اور سطوت و شکوہ آنے والے زائر پر نزول کرے، تو کیا ہی کہنے۔ میرے ذہن پہ حضرت بابا صاحب کے مزار شریف کا قدیم نقشہ بھی موجود ہے اور بالخصوص عرس کے موقع پر آراستہ ہونے والی سماع کی محافل اور رسومات کی ادائیگی کی مجالس کے تذکرے بھی صاحبانِ ذوق کے قلب وذہن میں محفوظ ہیں، میرے ہمدم دیرینہ خواجہ غلام قطب الدین فریدی کے دادا خواجہ محمد یار فریدیؒ پاکپتن شریف کی ’’سماع‘‘ میں حاضر ہوتے تو محفل کا رنگ ہی بدل جاتا ہے،پیر صاحب آف گولڑہ شریف حضرت بابو جیؒ جیسی شخصیات سماع کی محافل میں، ان کے منتظر رہتے اور پھر کسی خاص اور کیف آفریں لمحے میں، کسی مصرع خاص سے حَظ اُٹھاتے ہوئے، رقصاں ہوتے تو درودیوار آپ کے ساتھ وجد کرتے محسوس ہوتے۔تاریخ تصوّف میں مولانا روم کی طرح۔۔۔ حضرت بابا صاحبؒ کا تذکرہ بھی قلب ونظر میں مٹھاس اورحلاوت بھر دیتا ہے۔ حُسنِ اتفاق کہ تین سال قبل ایسے ہی یخ بستہ موسم میں مولانا روم ؒکے عرس میں حاضری کے لیے موصولہ دعوت پر قونیہ جانے کا شرف میسر آیا تودیگر مقتدر شخصیات کے ساتھ حضرت بابو جی کے پوتے سیّد معین الحق گیلانی پیر آف گولڑہ شریف کی رفاقت میسر آئی، حضرت بابو جی کو مولانا روم سے از حد محبت وعقیدت تھی، اور چشتیہ روایات اور بالخصوص ’’سماع‘‘سے خصوصی شغف بھی، آپ تقریباً نصف صدی قبل جب حضرت مولانا روم کے مزار پر حاضری کے لیے گئے تھے تو آپ نے وہاں بھی سماع کا اہتمام فرما دیا جس کی خوشبو اور لذت ہمیں اس دورے میں بھی میسر رہی۔ بہر حال ۔۔۔ بات ذرا زیادہ طویل ہوگئی۔ اس ورثہ کانفرنس میں اوریا مقبول جان ، نیّر علی دادا، کامل خان ممتاز، راشد مخدوم، سیف الرحمن ڈار، پرویز لطیف قریشی اور ترکی کے رمضان قِسقَر۔۔۔ جیسے ماہرین فکروفن کے علاوہ علمی اور تحقیقی حلقوں کی معتبر شخصیات اور متعلقہ اداروں کے نمائندگان نے موضوع کی مناسبت سے اپنی آراء اور تجاویز پیش کیں۔۔۔ اس وقت محکمہ اوقاف و مذہبی امور اس عظیم تہذیبی ، دینی اور تعمیراتی ورثے کا امین اور نگہبان ہے، جس کا قیام وقف پراپرٹیز آرڈی نینس 1959ء کے تحت یکم جنوری 1960ء کو عمل میں آیا۔ محکمہ اوقاف نے مزارات اور مساجد کے نظام کو مؤثر اور بہترین بنانے کے ساتھ، مدارس میں اسلوب تعلیم کوقرآنی اور اسلامی خطوط پر استوار کیا۔ نیز خانقاہی رسومات کو طریقت اور شریعت کے دائرہ میں رکھتے ہوئے مؤثر بنایا، تاکہ ملّت کی نگہبانی اور راہنمائی کا وہ فریضہ جو ان مساجد، مدارس، آستانوں اور خانقاہوں کی بنیادی ذمہ داری ہے، کا فیضان عام ہوسکے۔ بلاشبہ مزار ات اور مساجد۔۔۔ ہماری مقامی آبادی اور معاشرت کا ’’نیوکلس‘‘ اور ایک مؤثر اور معتبر دینی اور معاشرتی ادارے کے طور پر معروف اور معتبر ہے۔ ان خانقاہوں کا وجود اپنے گردوپیش کے ماحول کو بھرپور طریقے سے متاثر کرتا ہے۔ بالخصوص ’’درگاہ‘‘برصغیر کے مسلم معاشرے کا واحد ادارہ ہے۔ جہاں چوبیس گھنٹے زائرین کی آمدو رفت کا سلسلہ جاری رہتا، روحانی طمانیت اور تسکین کا سامان فراواں، اور پریشان حال، منتشر الخیال ، عدم تحفظ اور محرومی کے بوجھ تلے دبے ہوئے انسانوں کو زندگی کی شاہراہ پر گامزن ہونے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔ محکمہ اوقاف کی موجودہ لیڈر شپ جہاں ایک طرف مزارات اور مساجد کو سوسائٹی کا مرکز بناتے ہوئے، عام آدمی کی ویلفیئر کے اہتمام کی طرف متوجہ ہے وہیں ایسے بزنس ماڈل کی طرف بھی جا رہی ہے، جہاں موجودہ گورنمنٹ کے ویژن کے مطابق ، ’’اپنی مددآپ‘‘ کے فارمولے کے مطابق اپنے وسائل سے اتنے فنڈز دستیاب ہو سکیں، جس سے فلاحی اور رفاعی منصوبہ جات کی عملی تعبیر اور تشکیل ممکن ہوسکے۔