چند لمحے جو ملے مجھ کو ترے نام کے تھے سچ تو یہ ہے کہ یہی لمحے مرے کام کے تھے سعدؔ پڑھنا پڑی ہم کو یہ کتاب ہستی باب آغاز کے تھے جس کے نہ انجام کے تھے دل چاہتا ہے کہ کسی اور مسئلے کو مس کرنے سے پہلے ایک دلچسپ خبر پر بات ہو جائے کہ اداسی کے اس موسم میں بھی اپنے قارئین کو ذرا سا لطف اندوز کر دیا جائے۔ ویسے تو ’’ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق‘‘ اور لوگ بھی دیکھتے ہیں کہ ’’ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا‘‘ مگر یہی سب سے بڑی گھبراہٹ ہے کہ آخر ہو گا کیا۔ ایسے اندوہ ناک حالات میں کہ ملکی معاملات دگرگوں ہو رہے ہیں۔ ہمارے شیخ رشید کس اعتماد اور وارفتگی میں بیان داغتے جاتے ہیں۔ یہ دلچسپ خبر ہی انہیں کے حوالے سے ہے۔ عطاء اللہ تارڑ نے ان کی بابت کہا ہے کہ ’’شیخ رشید کو فال نکالنے کا کام کرنا چاہئے بہت کمائی ہو گی‘‘بظاہر یہ طنز ہے یا مزاحیہ جملہ ہے مگر اس کے پس منظر میں جھانکیں تو بہت کچھ ہے جو یقینا تارڑ صاحب کے دل و دماغ میں نہیں ہو گا۔ ان کے پیش نظر تو صرف اتنی بات ہو گی کہ موصوف وزیر باتدبیر اپنے محکمے کی طرف توجہ دینے کی بجائے ایسے ہی اوٹ پٹانگ بیانات داغتے رہتے ہیں۔شیخ رشید کا پسندیدہ ڈائیلاگ ہے کہ بس جھاڑو پھرنے والا ہے۔ اب بھی انہوں نے جھاڑو پھرنے کا مژدہ سنایا ہے جولائی سے پہلے پہلے جھاڑو پھر جائے گا یعنی نیب پرفام کرنے جا رہی ہے۔ پتہ نہیں جھاڑو شیخ صاحب کی زبان پر اس قدر کیوں ہے۔ چلیے چھوڑیں اصل بات کی طرف آتے ہیں کہ وہ فال نکالنے کا کام کریں اور یہ بھی کیا ہے کہ وہ ایک عدد طوطا خرید لیں۔میرا خیال ہے کہ فال نکالنے والے کے سامنے ایک بورڈ بھی لکھا جاتا ہے کہ پروفیسر فلاں ابن فلاں تو اس طرح شیخ صاحب مفت میں پروفیسر بھی بن جائیں گے مگر میرا کہنا کچھ اور ہے کہ خود شیخ صاحب سے کوئی فال نکلواتا ہے۔ ان کو اشارہ کیا جاتا ہے اور وہ ایک لفافہ کھول کر فال سنا دیتے ہیں۔ ہر دور میں ان قوتوں کے پاس ایک طوطا ضرور ہوتا ہے اور شیخ صاحب تو مستقلاً کافی عرصہ سے یہی کام کر رہے ہیں۔ موصوف کو عمران خان بھی تبدیل نہیں کر سکتے حالانکہ ایک پرانے پروگرام میں خان صاحب نے کہا تھا کہ وہ تو ان کو اردلی بھی نہیں رکھ سکتے۔ پھر وہ وقت آیا کہ انہیں اس اردلی کو وزیر بنانا پڑا اب دیکھتے ہیں کہ ریلوے کے کتنے حادثات ہو چکے مگر شیخ صاحب ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ وہی اعتماد اور وہی پھکڑ پن۔ عدلیہ کا ان کے محکمے کے حوالے سے کمنٹس کس قدر خوفناک تھے مگر وہ چند دن کے لیے بھی شرمندگی سے سکرین سے آئوٹ نہیں ہوئے۔ میرال خیال ہے کہ بات کچھ لمبی ہو گئی۔ کیا کروں دل دکھتا ہے کہ ہم کس قدر بے بس ہیں اور حالات کے رحم و کرم پر ہیں۔ اب ذرا سنجیدہ بات ہو جائے کہ وہی لمحے جو ہمیں مل بیٹھ کر کام کرنے کے میسر آئے وہ بھی ہماری لڑائی جھگڑے کی نذر ہو گئے۔ جب بھی قوموں پر آفت پڑتی ہے تو وہ انہیں یکجان کر دیتی ہے کہ اپنے اپنے ڈر اور خوف سے سب جڑ جاتے ہیں۔ منیر نیازی نے تو مکانوں تک کے حوالے سے کہہ دیا تھا کہ ’’اپنے اپنے خوف نال جڑے ہوئے نیں، شہر دے مکان‘‘ ہمیں بھی ایسے لمحات ماضی میں میسر آئے۔ زلزلہ اور سیلاب کے دنوں میں، لوگوں نے دل نکال کر باہر رکھ دیئے۔ متاثرین کی امداد کرنے میں ہر حد سے گزر گئے۔ اب کے بھی وہ جذبہ آغاز میں پیدا ہوا مگر وہ عوامی سطح پر تنظیموں کی حد تک، حکومت اور اپوزیشن کہیں بھی ہم آواز نہیں ہوتی۔ عمل کی بات تو بہت بعد کو ہے، منیر نیازی نے تو صرف ایک چیل کی بات کی تھی مگر ادھر تو! ’’اک چیل ایک ممٹی پہ بیٹھی ہے دھوپ میں گلیاں اجڑ گئی ہیں پاسباں تو ہے‘‘ کچھ دکھائی دے رہا ہے نہ سجھائی، ہم نے مانا کہ کرپشن کے نعرہ پر پوری قوم خان صاحب کے ساتھ کھڑی ہو گئی مگر ان کے ٹائیگرز بھی تو ن لیگ کے شیروں کی طرح نکلے۔ اتنے شور شرابے کے بعد حاصل حصول کچھ بھی نہیں۔ مغالطہ ضرور رہا، سراب کی طرح مگر پانی ندارد، جتنے خواب دکھائے تھے تعبیروں کو ترستے رہے: جاگتی سی آنکھ سے کتنے خواب دیکھتے دشت پار کر گئے ہم سراب دیکھتے وہ شکار پر جھپٹتے ضرور ہیں مگر شکار ان کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ غالباً وہ اپنے شکار کو صرف زخمی کرتے ہیں اور ان کے پاس صرف اتنی ہی صلاحت رہے۔ سب معاونین اور مشیران یہی کچھ کرتے نظر آتے ہیں کہ ’’حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ‘‘ بلکہ سفر تو ہے ہی نہیں، دوسروں کو تو چھوڑیں اپنوں کا محاسبہ بھی ان کے بس میں نہیں۔ وہی جو ایک باز نے چیل سے پوچھا تھا کہ تم مجھ سے زیادہ بھاری بھرکم ہو اور ممکن ہے طاقت بھی تمہارے پاس ہو گی مگر کہیں کبھی شکار کرتے نہیں دیکھا، چیل نے کہا کہ ابتدا میں میں نے کوششیں کی تھیں مگرجب اس میں اپنے شکار کے قریب پہنچتی تو میری ہنسی نکل جاتی۔ پھر آپ یہ بھی تو دیکھیے کہ چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں۔ یہ ایک حادثہ کہ ہم اپنے شکار کے تعاقب میں تھک چکے تو خود کورونا کا شکار ہو گئے۔ اب تو ہم اپنا بچائو کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے اس بچائو میں بھی ہماری حکمت عملی نہیں بدلی کہ فی الحال سیاسی دشمنیاں موقوف کر دینی چاہیے تھیں۔ دھیان سارا مسئلے کو حل کرنے کی طرف ہونا چاہیے تھا مگر کیا کیا جائے۔ آصف شفیع کا شعر یاد آ گیا: دیکھ مت دل کی طرف اتنی فراوانی سے یہ کسی دام میں آتا نہیں آسانی سے