یوں تو اس عمر تک آتے آتے انسان لاتعداد پیاروں کو دنیا سے جاتے دیکھتا ہے، صدمات برداشت کرتا ہے، سنبھل کر پھر کاروبارزندگی میں مصروف ہو جاتا ہے۔ لیکن اب کہ تو جانے والوں کا یوں تانتا بندھ گیا ہے کہ سیدالانبیاء ﷺ کی وہ حدیث جس میں آپؐ نے اس دنیا کی ایک جامع کی تعریف کی ہے، وہ روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی ہے۔سید الانبیاء ﷺ نے فرمایا یہ دنیا ’’عابرِ السبیل‘‘ ، یعنی ایک عبوری پڑاؤ (Transit Lounge) ہے۔ گذشتہ چند ماہ سے ایک ایسا عالم ہے کہ جیسے ریلوے کے کسی پلیٹ فارم پر انتظار گاہ کے دروازے پر کھڑا ہوں اور اچانک کسی ٹرین کی آمد کا بگل بجتا ہے اور ایک پیارا اور محبوب شخص، کشاں کشاں ٹرین کی جانب روانہ ہو جاتا ہے۔ تیز رفتاری کا عالم یہ ہے کہ رخصت ہونے کی اجازت کا مرحلہ بھی نہیں آنے پاتا۔ دنیا جب پرسکون اور پرامن تھی، تو وہ جنہیں اللہ نفسِ مطمئنہ کی موت نصیب کرتا تھا، ایسے لوگ موت کے ہنگام میں کسقدر پرسکون ہوا کرتے تھے۔ ہر کسی سے اجازت طلب کرتے اور اپنے پیاروںسے اگلی زندگی میں اللہ کے فضل و کرم اور عنائت کے سہارے ملنے کا وعدہ کرکے ایسے رخصت ہوتے جیسے جہاز کی بورڈنگ کا اعلان ہوا، اعمال کی گٹھڑی ہاتھ میں پکڑی، آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے تولا اور اپنے اللہ کی رحمت پر بھروسہ کرتے ہوئے آخرت کے جہاز پر سوار ہو گئے۔لیکن سید الانبیاء ﷺ نے آج کے دور یعنی آخر الزمان کی تیز رفتاری کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے، فرمایا،’’اس وقت تک قیامت نہیں آسکتی جب تک زمانہ آپس میں بہت قریب نہ ہو جائے‘‘، یعنی سال مہینے کے برابر، مہینہ ایک ہفتہ کے برابر، ہفتہ ایک دن کے برابر اور دن ایک گھڑی یا گھنٹے کے برابر اور گھنٹہ ایسے جیسے چنگاری جلی اور بجھ گئی(ترمذی، ابنِ حبّان)۔ دنیا کی تیز رفتاری اور وقت کی کمیابی آج ہمیں وہیں پر لے آئی ہے‘‘ اور دنیاوی دوڑدھوپ میں ہمارا حال بالکل سورۃ ’’التّکاثُر‘‘ کی ابتدائی آیات والا ہو چکا ہے، ’’تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے۔ یہاں تک کہ تم اسی فکر میں غلطاں قبروں کے کنارے پہنچ جاتے ہو (التکاثر: 1,2)۔ دنیا کی ایسی ہی مصروفیت ہم پر مدتوں سے غالب تھی کہ اللہ نے ہمیں جھنجھوڑنے اور موت کی یاد دلانے کے لئیے ’’کرونا‘‘ بھیجا اور ہمارے پیاروں کو اپنے پاس بلانا شروع کر دیا۔ میری عمر کے لوگوں پر ایک وقت میں یہ عالم تو ضرور آتا ہے کہ یارانِ سفر ایک ایک کر کے رخصت ہونے لگتے ہیں، لیکن اتنی تیزی سے ایک ساتھ اتنے لوگوں کے جانے کے دکھ کا زندگی میں پہلی دفعہ تجربہ کر رہا ہوں۔ ماضی میں بھی جب شہر وبائوں کے غلبے میں انسانوں سے خالی ہو تے تو لکھنے والوں کا قلم دکھ اور کرب کی جو کہانیاں لکھتا تھا، ان میں بیان کی گئی کیفیت آج کے ماحول جیسی ہے۔ موجودہ کرونا وائرس خاندان کا سربراہ، جب 1918ء میں ’’ہسپانوی فلو‘‘ کے نام سے آیا تو کیتھرین این پورٹر (Katharine Anne Porter) کے ناول کی ہیروئن مرنڈا کے جو روز و شب اس نے ناول میں دکھائے گئے ہیں وہ در اصل مصنفہ کی اس اذیت ناک زندگی کا آئینہ دار ہیں جو اس نے وبا کے دوران گزاری تھی۔ مرنڈا قرنطینہ میں ہوتی ہے اور پورے ناول میں شہر کا نقشہ ویسا ہی دکھایا گیا ہے جیسا آج کے کسی شہر کا عالم، ماسک پہنے، ایک دوسرے سے دور زندگی گزارتے انسان۔ ناول کی مصنفہ کیتھرین جب فلو کے خاتمے کے بعدگھر سے باہر نکلی تو اس نے ایک انٹرویو میں کہا، ’’ایسا لگتا تھا جیسے میں لوگوں سے ملنا جلنا، دوست بنانا، ایک ساتھ اٹھنا بیٹھنا، سب کچھ بھول گئی ہوں‘‘۔ کچھ مہینوں یا سالوں بعد جب کرونا ختم ہو جائے تو شاید ہم لوگوں کی بھی حیرت کا یہی حال ہو۔ لیکن اسوقت تک ہماری بزم سے پتہ نہیں کتنے لوگ کوچ کر جائیں۔ چند دن پہلے طارق عزیز اور اسحاق نور کا نوحہ تحریر کیا، تو لاتعداد ایسے دوستوں کا ذکر چھوڑ گیا کہ ان کی موت تو میرا ذاتی دکھ تھا۔ لیکن کسے معلوم تھا کہ صرف چند دن بعد ہی اس موسم غم میں ماتم گساری کے لئے ایک اور فہرست تیارہوجائے گی۔ یارِ خوش گفتار ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کہ جسے میں نے زندگی میں کبھی ڈاکٹر کہا اور نہ شیخ۔ میرے لئے تو وہ پنجاب یونیورسٹی کا قاری مغیث تھا جس کے پیچھے نماز پڑھنے اور اس کے لحنِ داؤدی کے سحر کا عین عالم شباب میں بھی لطف آتا تھا۔ ایک بڑا آدمی تھا، چند کمروں والے شعبہ صحافت کو ابلاغ عامہ کے اتنے بڑے ادارے میں تبدیل کر گیا۔ کون تھا جو اس ادارے میں آکر طلبہ سے مخاطب ہونے کو خوش نصیبی شمار نہیں کرتا تھا۔ مفتی نعیم چلے گئے، کہ زندگی بھر جن سے براہِ راست آمنا سامنا نہ ہو سکا لیکن ٹی وی شوز میں جب کبھی سیکولر لبرل بوچھاڑ ہوتی، دین کا مضحکہ اڑانے والے میدان میں اترتے، مفتی صاحب اپنا کل اثاثہ لئیے میدان میں کود پڑتے۔ لاتعداد شوز میں ان کی ہمر کابی کا شرف حاصل ہوا۔ ایک ایسا سچا اور کھرا مومن جسے دین کے دفاع کے لئے کبھی جبّہ و دستار کی فضیلت کی پرواہ رہی اور نہ ہی اپنے مقام و مرتبہ کی۔ جو کچھ تھا اس نے اس جنگ پر قربان کر دیا۔ سوچتا ہوں کہ جب مفتی صاحب کی روح اللہ کے حضور حاضر ہوئی ہو گی تو وہ تمام دشنام، طعنے جو انہوں نے ان ٹاک شوز میں برداشت کئے تھے، یہ سب کے سب دامن کے داغ بن کر کیسے بارگاہ ایزدی میں روشن ہوئے ہوں گے۔ ٹیلی ویژن کی مجلس شامِ غریباں کہ جسے بچپن میں علامہ رشیدترابی کے علمی جلال کے ساتھ سننا شروع کیا تھا، 1973ء میں ان کے انتقال کے بعد بے کیف سی ہوگئی تھی، چند سال کے وقفے میں بہت سے لوگ اس مسند پر آئے، لیکن جس شخص نے علامہ رشید ترابی والے علم کی تلاش میں سرگرداں لوگوں کی پیاس بجھائی وہ علامہ طالب جوہری تھے۔ دونوں کا کمال یہ تھا کہ اپنے موضوع کو قرآن اور صرف قرآن کی حکمت سے سجاتے اور سنوارتے تھے۔ علامہ طالب جوہری جیسی فصاحت اب کہاں سننے کو ملے گی۔کیا المیہ ہے، موت نے ہمارا گھر ہی دیکھ لیا ہے، یہ سطریں لکھ رہا ہوں اور سامنے ٹیلی ویژن پر سید منور حسن کے رخصت ہو جانے کی خبر چل رہی ہے۔ ایک دم ایسے لگا، جیسے جماعتِ اسلامی کا دامن بالکل خالی ہو گیا ہے۔ ایک سکتے کا عالم ہے۔ اتنا بڑا آدمی چلا گیا۔ وہ کہ جو آج کے دور میں ایک مردِ حق کی جیتی جاگتی تصویر تھا۔ میں نے پینتالیس سال اس شخص کے چہرے پر عجروانکساری کی عاجزی اور غیرت و حمیت کی گرم جوشی کو باہم رنگ آمیزی کرتے ہوئے دیکھا۔ ان دونوں کا ملاپ اس مردِ مومن کا چہرہ تھا۔ ایک مجسّم سجدہ چہرہ۔۔ لیکن اللہ کے نام کی غیرت پر شعلے کی صورت روشن۔ عابدِ شبِ زندہ دار، کہ جس کی خلوتیں اللہ کے روبرو عاجزی میں گذرتیں اور دن اس کے نام کی سربلندی کے لئیے شمشیرِبے نیام کی طرح مسلسل جہاد میں رہتا۔ منور حسن تو اپنی ذات میں ایک ایسی انجمن تھے کہ جن کے جانے سے اس اقبال کے ساقی نامے والے مئے خانے کا دروازہ ہی بند ہو گیا۔ اب اس ساقی خانے کے وہ متوالے زندہ ہی نہیں، جو ہتھیلیوں پر سروں کے چراغ روشن لئے پھرا کرتے تھے اور پھر ایک دن وہ انہیں روشن چراغوں کے ساتھ زمین کا رزق ہو گئیے۔ منور حسن کو دفنانے والے یہ راز خوب جانتے ہیں کہ اندر بھی زمیں کے روشنی ہو مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے جدید دور کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ جن صاحبان علم و گفتار کو سننا چاہو تو ان کی ہزاروں ریکاڈنگز موجود ہیں۔ جب چاہا انہیں دیکھ کر پیاس بجھالی۔ لیکن عمرِعزیز کے وہ ساتھی کہ جو تصویر میں محفوظ تھے نہ تقریر میں۔ وہ سب بھی یوں ہی چلے جارہے ہیں، جیسے درختوں سے آفتوں کے موسم میں پرندے کوچ کیا کرتے ہیں۔ ان کی یاد تو دہرا عذاب ہے، کہ ہر دفعہ آنکھیں بند کر کے ان محفلوں میں لوٹنا پڑتا ہے جہاں وہ ہنس بول رہے تھے اور واپس آنکھیں کھولو تو چہرہ یاد کے آنسوئوں سے تر ہو جاتا ہے۔