مخالف وکیل بیرسٹر محمد علی جناح کا مذاق اڑاتے تھے کہ وہ بانس کی طرح لمبے ہیں اور ہر وقت مقدمات میں گھسے رہتے ہیں۔بانیء پاکستان خوبصورت اور پُر کشش نوجوان تھے اورممبئی کے مشہور مسلمان وکیل۔انہیں اپنی ذات پر مکمل اعتماد تھا۔وہ تنقید سے دلبرداشتہ نہیں ہوتے تھے۔یہ نہیں کہ انہیں غصہ نہیں آتاتھا،لیکن وہ اسکااظہار جچے تلے انداز میں کرتے تھے ۔قائد اعظم کی بہن لکھتی ہیں کہ ان کے بھائی مغرورتھے لیکن وہ غصّے کی حالت میں بھی آپے سے کبھی باہر نہیں ہوئے۔تحریک پاکستان کے دنوں میں ہندو پریس میں قائد اعظم ؒکے بارے میں بہت منفی پروپیگنڈا چھپتا تھا ۔ کانگریسی مسلمان قائد اعظمؒ پر کفر تک کے فتوے لگاتے تھے لیکن قائد اعظم ؒکے بدترین مخالفین نے بھی کبھی قائد پر بدکلامی یا ہذیان کا الزام نہیں لگایا۔ بانیٔ پاکستان پر شائع ہونے والی تمام کتابوں کا مطالعہ کر لیجئے کہیں آپ کو ایساکوئی واقعہ نہیں ملے گا جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ قائد اعظمؒ نے کبھی عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران کسی مخالف پر پھبتی کسی ہو ،کسی سیاسی مخالف کی نقل اتاری ہو یا تحریک پاکستان کے مخالفوں پر ذاتی حملے کئے ہوں۔حد تو یہ کہ مسلمانوں کے اس قائد نے کبھی نجی محفل میں بھی کسی کا مذاق نہیں اڑایا۔قائد اعظم اپنی زبان کو اپنے کنڑول میں رکھتے تھے ۔وہ الفاظ کے نہیں الفاظ ان کے غلام تھے ۔انہوں نے اپنے لفظوں اور خیالات کو اپنے عظیم مقصد کے تابع کررکھا تھا۔قائداعظم خوشامد پسند تھے نہ کسی کی خوشامد کرتے تھے۔لیکن وہ قوم کیلئے انتہائی دلنواز تھے ۔بدترین حالات میں بھی وہ قومی مورال کو گرنے نہیں دیتے تھے۔ان کی یہی خو تھی جس نے مسڑ اورمولوی،تعلیم یافتہ اور ان پڑھ سب کو ایک لڑی میں پرو دیا تھا اورقیام پاکستان کیلئے یہ قوم بنیان مرصوص بن گئی تھی۔ بانیان پاکستان میں کسی کی وجہ شہرت بدکلامی کبھی نہیں رہی ۔پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نواب لیاقت علی خان تو انتہائی نفیس انسان تھے ۔گالی تو دور کی بات وہ تو اپنے ملازمین کو بھی آپ جناب کہہ کر پکارتے تھے۔پھر خدا جانے اس ملک کی سیاست کو کس کی نظر لگ گئی ۔جوں جوں ملک میں خوشحالی آتی گئی ہمارے سیاسی اخلاق میں گراوٹ بڑھتی گئی۔کسی نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا کہ ہم تو مسلمان ہیں اور خاتم النبیںؐ کے امتی ہیں۔ ہمارے پیغمبر مہربانؐنے فرمایا تھا کہ آپؐ کو انسانوں کے اخلاق سنوارنے کیلئے بھیجا گیا ہے۔ ہمارے لیے اسوہ رسولؐ سے بڑھ کر کوئی اسوہ نہیں۔ ہمیں ’’قولو الناس حسنہ‘‘ کا حکم دیا گیا ہے۔حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور اس کی زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ایسا کیوںہوا کہ اپنے سیاسی مخالفیں کو دبانے اور رگڑا دینے کیلئے ہم نے اخلاق اور کردار کی خوبصورتیوں کو چھوڑ کر بداخلاقی اور بدکلامی کی بدصورتیوںکو گلے لگا لیا۔کیا گندی سیاست اعلی اخلاق سے زیادہ قیمتی شے ہے؟ برصغیر میں مسلمانوں کے کئی ادوار آئے ۔کسی دور میں بھی کسی بداخلاق وزیر کا ذکر نہیں ملتا۔مغل دور ساڑھے تین سو برس پر محیط ہے ۔اگرمغل دربارمیں کسی وزیر ،مشیر کے بارے میں مخبر خبر لاتے کہ اس نے کسی کو گالی دی ہے تو اسے بعد از تحقیق عہدے سے ہٹا دیا جاتا تھا ۔یہ تھا ہمارا سیاسی کلچر لیکن قوم رسول ہاشمی ﷺ کو سفلی اقتدار کی ہوس نے خوشامدی بنادیا ،ہجو گو بھی بنادیا ،بدکلام بھی بن گئے اور بدگمان بھی ہوگئے۔ میڈیا نے ہماری اخلاقی برائیوں کو ہوا دی۔ اسکرین کو دلکش بنانے کیلئے دل شکنی کو فروغ دیا۔ جوں جوں معلومات تک رسائی آسان ہوتی گئی ہمارا شعور ناقص ہوتا چلا گیا۔ بقول ڈاکٹر نعیم غنی ، ٹی وی چینلز ہمارے بیڈ روم میں گھستے چلے گئے اور باہمی اعتماد ،رواداری،وضع داری اورہمدردی کے ساماں گھروں سے نکلتے چلے گئے ۔آج ہم ایک بیمار معاشرے کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔ایک ایسا معاشرہ جس میں کسی کو کسی پر اعتماد نہیں۔ انسانوںکیلئے اس سے بڑی سزا اور کیا ہوگی! ملک میں جوںجوں جمہوریت بڑھتی جارہی ہے سیاسی تلخیاں بھی عروج پر ہیں۔ اب تو ہم ایک دوسرے کے گھروں پر باقائدہ حملہ آور بھی ہونے لگے ہیں۔اور اس قبیح عمل کو بھی جمہوریت کا حسن کہا جارہا ہے ۔جو انسانی زندگی کی بدتہذیبی ہے وہ جمہوریت کا حسن قرار پارہی ہے ۔پہلے ہم تیمارداری کو ثواب سمجھتے تھے ،اب کسی بیمار کو اپنی بیماری ثابت کرنے کیلئے ڈاکٹروں کے بورٖڈ سے سرٹیفیکیٹ لینا پڑتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو مرنا پڑتا ہے ۔اسلامی معاشرے میں اخلاقی کرپشن کو سب سے بڑی کرپشن سمجھا جاتا تھا ۔اب اخلاقی کرپشن قابل قبول ہوگئی ہے اور مالی بدعنوانی کو قومی تنّزل کی واحد وجہ بتایا جارہا ہے۔’’کرپشن کرپشن‘‘کا اتنا واویلاہوا کہ غیر ملکیوں کو بھی یقین ہوگیا کہ یہ پوری قوم ہی کرپٹ ہے ۔اگر اپوزیشن کیخلاف الزامات کی بھر مار ہے تو حکمران جماعت کے بارے میں بھی ریاستی ادارے کرپشن کی کہانیاں سنا رہے ہیں۔ہم روز ایک دوسرے کے ستر پھاڑتے ہیں اور پھر خوش ہوکر بتاتے ہیں کہ اس حمام میںہم سب ننگے ہیں ۔ہم بکھرتے جا رہے ہیں۔کارواں سے ٹوٹتے جارہے ہیں ۔ قوموں اور معاشروں کی تعمیر خوئے دلنوازی سے ہوتی ہے ۔جب رہنما کے لفظوں میں محبت نہ رہے تو تخریبی تحریک تو چل سکتی ہے قومی تعمیر کی منزل حاصل نہیں کی جاسکتی۔اگر آج کا حکمران واقعی ریاست مدینہ بنانا چاہتا ہے تو پھر اسوہ رسول ﷺکو اپنانے کاعہد کرے ۔اور نہیں تو قائد اعظم ؒکی زندگی سے ہی سبق حاصل کرے ۔اگر خواتین رہنماؤں کی دہن یوں ہی شعلہ بار رہے اور مردوں کی زبانیں ایسے ہی آگ اگلتی رہیں تو’’ ریاست مدینہ‘‘ کا رومانس بھی ختم ہوجائے گا اور شاعر ماتم کرتا پھرے گا، کوئی کارواں سے ٹوٹا ،کوئی بدگماں حرم سے کہ میر کارواں میں نہیں ،خوئے دلنوازی