اکتیس اکتوبر تو چھ دن میں ہو گزرے گا، لانگ مارچ یا دھرنا اس حکومت سے استعفی لیے بغیر گھر کا ہو لے گا۔طوفان تھم جائے گا، گرد بیٹھ جائے گی۔ دعوے ، نعرے اور تقریریں دو دن میں بے اثر ہونے لگیں گی۔ مگر پھر کیا ہو گا، کیا دھرنے کی ناکامی کے ساتھ ہی حکومت کے اچھے دن شروع ہو جائیں گے؟ کیا اعتماد میں اضافے کے ساتھ ہی دیرینہ مسائل ازخود حل ہونے لگیں گے؟ کیا دھرنے کی ناکامی حکومت کی کامیابی سے تعبیر ہو پائے گی ؟نہیں جناب پانچ بڑے داخلی چیلنجز یکم نومبر کو سر اٹھائے ویسے ہی کھڑے ہوں گے جیسے دھرنے کے شور سے پہلے کھڑے تھے۔عوام کی عینک کے ذریعے حکومتی کارکردگی پانچ زاویوں سے دیکھی جا سکتی ہے ۔ایک یہ کہ پہلے اور اب کے سرکاری سکولوں کی حالت میں کیا فرق آیا ہے۔ دوسرا ، ہسپتالوں میں پہلے اور اب کی دستیاب سہولتوںمیں کتنی بہتری آئی ہے ۔تیسرا ،پولیس کے بوسیدہ نظام سے اکتائے لوگوں کو اب تھانوں میں عزت اور انصاف ملنے لگا ہے یا نہیں۔ چوتھا، افسر شاہی کے مزاج کو عوامی خدمت پر مائل کیا جا سکا ہے یا نہیں اور پانچواں یہ کہ کیا اب ایک عام آدمی کو اپنی کم سے کم تنخواہ سترہ ہزار روپے میں اپنی بنیادی ضرورت کی تمام چیزیں دستیاب ہو پا رہی ہیں یا بازار جا کر اسے مزید مہنگائی کا احساس ہونے لگاہے۔ شاید انہی پیمانوں پر تبدیلی کے نعرے کو پرکھا جا سکتا ہے اور انہی پیمانوں پر اپنی جیت کا دعوی کیا جا سکتا ہے۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر حکومتی وزرا تبدیلی کے وعدے پورے نہ ہونے کے باعث متفکر دکھائی نہیں دیتے ۔وعدے پورے ہونا تو دور کی بات ،تبدیلی کا آغاز نہ ہونے پر بھی متفکر دکھائی نہیں دیتے ۔تبدیلی کا آغاز تو دور کی بات اس ضمن میں لائحہ مکمل کے کاغذ پہ تیار نہ ہونے پر بھی متفکر دکھائی نہیں دیتے ۔اور تبدیلی کے لائحہ عمل کا کاغذ پر منتقل ہونا تو دور کی بات ، تبدیلی کے منصوبوں کا وجود ذہن تک میں موجود نہ ہونے پر بھی متفکر دکھائی نہیں دیتے ۔جگتوں ، پھکڑ بازیوں ، طفل تسلیوں اور ڈیزل ڈیزل کے نعروں سے داد وصول کر کے دل بہلا رہے ہیںاور اسی بات پر خوش ہیں کہ دھرنا ناکام ہونے جا رہا ہے۔آپ دیکھ لیجے گا یکم نومبر کو کئی روایتی حکومتی شخصیات اور وزرا ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوں گے پھیپھڑوں کازور لگا کر شور مچائیںگے کہ دیکھیے عوام نے دھرنا دینے والوں کو مسترد کر دیا ہے۔دیکھیے دھرنے والے وزیر اعظم سے استعفی نہیں لے سکے ۔نہیں جناب عوام کے ردعمل کو جانچنے کا پیمانہ مولانا کا دھرنا ہر گز نہیں ۔عوام کے مسائل کا حل مولانا کے دھرنے کی ناکامی میں مضمر نہیں۔دھرنے کی ناکامی کو اپنی کامیابی قرار دینے کا نعرہ عقل کے اندھے روایتی سیاستدانوں کا تو ہو سکتا ہے لیکن عوامی مسائل کا ادراک رکھنے والے سنجیدہ سیاستدان کا ہر گز نہیں۔یہ نعرہ کرسیاں گن کر جلسے کو جلسی قرار دینے والے کسی کج فہم غیر سنجیدہ سیاستدان کو تو ہو سکتا ہے تبدیلی کا منظر پیدا نہ کر سکنے کے باعث بے چین رہنے والے وزیر کا ہر گز نہیں۔ کیا وزیر اعظم کو ادراک ہے کہ انہوں نے ایسے ایسے غیر سنجیدہ وزیر پال رکھے ہیں جو اپنے سیاسی مخالف کے پلیٹ لیٹس دس ہزار تک گر جانے پر جملے کستے اور مذاق اڑاتے ہیں کہ مرغن کھانے کھانے کے باعث ایسا ہوا۔کیا وزیر اعظم کو ادراک ہے کہ حکومت ایسے مشیروں کے نرغے میں ہے جو حریم شاہوں کے نرغے میں ہیں۔کیا وزیر اعظم جانتے ہیں کہ حریم شاہ کسی ایک شخصیت کا نام نہیں بلکہ حریم شاہ وزرا، مشیران اور حکومتی شخصیات کے کمزور رویوں کا نام ہے جس سے غیر سنجیدگی ، اقربا پروری اورقانون شکنی جیسی لعنتوں کے راستے پھوٹتے ہیں اور انہی کمزور راستوں کے ذریعے کرپٹ عناصر حریم شاہی بن کر اپنا راستہ بناتے ہیں کبھی رشوت کے سہارے ، کبھی تعلقات کے سہارے اور کبھی محض اپنی اداؤں کے سہارے۔ دھرنا ناکام بنا دینا توکوئی کامیابی نہیں جناب ،وہ تو نواز شریف نے بھی ناکام بنا دیا تھا۔نواز شریف نے تو اس سے زیادہ مشکل دھرنا ناکام بنایا تھا بلکہ اس وقت ناکام بنایا تھا جب ہوا دھرنا دینے والے کے موافق تھی۔دھرنا تو پیپلز پارٹی نے بھی ناکام بنا دیا تھا اور وہ بھی ایسا دھرنا جس میں مائوں نے اپنے بچوں کو ڈی چوک میں لا بٹھایا تھا۔آپ حکومت ہیں ،آپ چاہیں تو چار سو کی بجائے چار ہزار کنٹینرز لاکھڑے کریں ، آپ چاہیں تو صرف اسلام آباد راولپنڈی ہی نہیں پورے پاکستان کی کیٹرنگ سروس والوںپر سامان دینے کی پابندی لگا دیں اور ضرور کریںکہ ملک افرا تفری کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔مگر ذہن میں رکھیں یکم نومبر کو جب دھرنے کے بادل چھٹیں گے تو لوگ پولیس نظام کی بات کر رہے ہوںگے، پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ یاد دلا رہے ہوں گے ۔ اپنے ووٹ کا حساب مانگ رہے ہوں گے۔ اور معاملہ صرف پانچ داخلی مسائل کا ہی نہیں ، خارجی محاذ بھی سنجیدہ چیلنجز لیے ہوئے ہے۔ایف اے ٹی ایف پر آخری وارننگ دی جا چکی ہے ۔کشمیر پر بھارتی جارحیت اور آئین میں تبدیلی پورا زور لگانے کے باوجود رول بیک نہیں کرائی جا سکی۔ کرفیو نہیں کھلوایا جا سکا۔دنیا نے ہماری تقریر پر تالیاں بجا کر چپ سادھ لی ہے۔ افغان امن مذاکرات نتیجہ خیز مرحلے میں داخل نہیں ہو پا رہے ۔سعودی عرب اور ایران کی ثالثی کا ہم نے بیڑا اٹھایا ہے مگر نتیجہ اب تک ندارد۔منی لانڈری کا ذکر ہم نے اقوام متحدہ میں چھیڑا تھا، شہزاد اکبر غائب ہو چکے ہیں ۔ دس ملکوں سے سات سو ارب انہوں نے واپس لانے تھے۔بے تحاشا مسائل راستے میں پڑے ہیں۔اور ہم ہیں کہ دھرنے کی ناکامی کا جشن منانے کو تیار بیٹھے ہیں۔کئی پراجیکٹس بھی تو کھٹائی میں پڑے ہیں۔ پشاور کا بی آر ٹی منصوبہ روز سبکی کا باعث بنتا ہے ، لاہور کی اورنج ٹرین پٹری پر دوڑنے کا نام نہیں لے رہی۔نااہلی پنجاب کی دیواروں پہ بال کھولے سو رہی ہے ۔بیورو کریسی کا برا حال ہے ، اٹھارویںاور انیسویں گریڈ کے افسران کو بیسویں کی مراعات دے کر نوازا جا رہا ہے ، میرٹ اور سنیارٹی کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہے۔من پسند افسروں کو انہی پراجیکٹس کے اضافی چارج دوبارہ دیے جا رہے ہیں جن میں پرانی انکوائیریاں فائلوں میں گم ہیں۔ اور ہم ہیں کہ دھرنے کی ناکامی کا جشن منانے کو تیار بیٹھے ہیں۔لانگ مارچ یا دھرنا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں جس میں آپ اپنا سر کھپاتے ہیں۔ وہ توہونے سے پہلے ناکامی سے دوچار ہے۔آپ کے چیلنجز بڑے ہیں۔اکتیس اکتوبر تو چھ دن میں ہو گزرے گا، لانگ مارچ یا دھرنا اس حکومت سے استعفی لیے بغیر گھر کا ہو لے گا۔گرد بیٹھ جائے گی۔ دعوے ، نعرے اور تقریریں دو دن میں بے اثر ہونے لگیں گی۔ مگر پھر کیا ہو گا حضور؟؟