کسی کی نیند اڑی اور کسی کے خواب گئے سفینے سارے اچانک ہی زہر آب گئے ہمیں زمیں کی کشش نے کچھ اس طرح کھینچا ہمارے ہاتھ سے مہتاب و آفتاب گئے اگر آپ کی اب بھی نیند نہ اڑی ہو اور خواب نہ ٹوٹے ہوں تو ہم عرض کریں گے کہ’ اداسیاں ہی وہ ہر سو بکھیر کر آئے۔ جہاں جہاں بھی ترے خانماں خراب گئے‘۔ اب بتائیے کہ ہمارے پاس کہنے کو اور کیا رہ گیا ہے۔ وہی کچھ ہمیں بیان کرنا ہے جو دیکھنا ہے۔ ہمیں زمانے نے سب کچھ سکھا دیا ورنہ۔ ہمارے پاس تو ایسا کوئی کمال نہ تھا۔۔ ہائے ہائے سخن آرائی کہاں آئی جہاں حسن و زیبائی بھی نہیں۔ خود ہی بتائیے کہ میں حالات حاضرہ پر کیا لکھوں۔ اخبار پر تو نظر ہی نہیں ٹھہرتی۔ یقین کیجئے دل بیٹھنے لگتا ہے۔ لکھا ہے بجلی صارفین پر 150 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالنے کا فیصلہ‘ وفاقی کابینہ سے آرڈیننس منظور‘ چالیس پیسے سرچارج فی یونٹ لگانے کا اختیار۔ تفصیل چھوڑیئے مقصد کے حصول کو یقینی بنایا جائے گا۔ آئی ایم ایف کی شر‘ 140 ارب کی ٹیکس چھوٹ ختم‘ یعنی حکومت کا تو اس میں کوئی دوش نہیں۔ مجھے دوش نہ دینا جگ والو‘ ہو جائوں اگر میں دیوانہ۔ پتہ نہیں یہ بھولا بسرا گیت کدھر سے یاد آ گیا۔ سٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ مہنگائی 9 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ یہاں شاعری کی بجائے ملا نصیرالدین یاد آ گئے جنہوں نے اپنے گدھے کو 13روز تک بھوکا رکھا تو وہ مر گیا۔ دوستوں نے تعزیت کرتے ہوئے پوچھا ملا جی کیا ہوا جناب کے گدھے کو‘ ملاں نے آہ بھر کر کہا جناب کیا بتائوں گدھے نے ہی ساتھ نہیں دیا۔ پوچھنے والوں نے کہا کیا مطلب‘ کہنے لگے ایک تجربہ میں کررہا تھا کہ گدھا بغیر چارے کے پانی پر کتنا چل سکتا ہے۔ بس تجربہ بیچ میں ہی رہ گیا اور گدھا کم ظرف تھا ساتھ چھوڑ گیا۔ ویسے بھی گدھا تو گدھا ہی ہوتا ہے۔ اسے کیا معلوم کہ یہ تجربہ ہورہا ہے۔ کیا کریں جانے والے آنے والے کو آئی ایم ایف کے سپرد کر کے گئے تھے اور جاتے جاتے چینی اور آٹا مافیا بھی چھوڑ گئے ۔ ہائے ہائے: سحر بن کے آنکھیں کھلیں تو حقیقت کا سارا سفر رائیگاں ہو گیا یہ کیا محبت میں اک شخص کی اپنا سارا سفر رائیگاں ہو گیا خان صاحب! ہم تو آپ کی محبت کے مارے ہوئے ہیں اور یقینا آپ بھی کسی کی محبت میں ہم جیسے ہو گئے۔ یہ فلسفہ نہیں حقیقت۔ تاہم ہماری محبت اختیاری تھی اور آپ کی جبری یعنی لازمی۔ مزہ آ گیا: میں محبت کو زندگی سمجھا اس محبت نے مار ڈالا مجھے خان صاحب! اب آگے چلیے کہ اپوزیشن یعنی پی ڈی ایم تو اپنی موت ماری جا چکی۔ ویسے پی ڈی ایم کی ناکامی میں بھی ہاتھ آپ کا نہیں اور یہ آپ بھی جانتے ہیں۔ خدارا تعلیم کو برباد نہ کریں۔ وگرنہ آنے والے ہمارے بچے ہمیںمعاف نہیں کریں گے۔ اب پھر مراد راس نے ہماری امید کو نامراد کر دیا ہے کہ وہ اٹھائیس مارچ کو بھی حالات دیکھ کر سکولوں کے کھلنے کا اعلان کریں گے۔ آپ مغرب کے حوالے دیتے ہوئے نہیں تھکتے اور اب آپ مغرب کی مثال جو ہم پیش کرتے ہیں ماننے کے لیے تیار نہیں۔ جناب امریکہ‘ برطانیہ اور دوسرے ممالک میں تمام تر صورتحال میں بھی سکول اور تعلیمی ادارے کھلے ہیں۔ یہ بچے پڑھیںگے نہیں تو کیا کریں۔ مجھے تو اپنا مستقل دیکھ کر خوف آتا ہے۔ عام لوگوں کے بچے اسمبلیوں میں تو جا نہیں سکتے اور حکومتی سیٹوں پر بھی ایڈجسٹ نہیں ہو سکتے۔ آپ دیکھتے جائیں کہ ہوتے ہوتے گرمیوں کی چھٹیاں آن ملیں گی۔ کس کو دکھائیں اپنا کلیجہ کٹا ہوا۔ آپ تو جانتے ہیں کہ جاپان نے سرنڈر کرتے وقت بھی کہا تھا کہ ان کے تعلیمی نظام کو نہ چھیڑا جائے۔ ہمارے پاس تو خیر سے تعلیمی نظام سرے سے ہے ہی نہیں۔ یکساں نظام تعلیم کے نام پر غریب کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیاہے۔ ہمارے ہیروز خاص طور پر اقبال ٹارگٹ پر ہے۔ اقبال حکومت میں آنے سے پہلے عمران خان کو بہت پسند تھے اور وہ نوازشریف پر نکتہ چینی کرتے تھے کہ یوم اقبال کی چھٹی کیوں ختم کی گئی۔ اس پر کبھی لکھوں گا۔ قبلہ تحسین فراقی نے اقبال پر اپنی کتب مرحمت فرمائی ہیں۔ تحسین فراقی نے کتاب کے آغاز میں اقبال کا شعر درج کیا ہے جسے پڑھ کر میں سچ مچ حیرت میں گم ہو گیا کہ اقبال ایسی دور اندیشی کس کے پاس ہوگی: درمیان کار راز کفر و دین ترکش مارا خذنگ آفریں انشاء اللہ پر میں سیر حاصل لکھوں گا۔ اب یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ تعلیم کے ہم وارث ہیں۔ ہمارے پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد ؐ تو پہلی وحی ہی اقرأ بسم سے آغاز ہوتی ہے کہ پڑھ اپنے رب کے نام سے۔ اس نے اپنے بندے کو وہ سکھایا جو وہ پہلے نہیں جانتا تھا۔ میرے نبیؐ کو معلم بنا کر بھیجا گیا۔ تعلیم ہماری ترجیحات میں اولین مرتبے پر ہونی چاہیے۔ ذہانت ہمارے بچوں کے پاس۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جو باہر جاتے ہیں ان کے جوہر کھلتے ہیں۔ اس لیے کہ وہاں ایسی فضا ہے اور مواقع ہیں۔ ہمارے ہاں انصاف اور میرٹ کا خون ہوتا ہے۔ ہماری ترجیحات میں آخری جگہ تعلیم کے لیے ہے۔ کچھ قصور ہمارا بھی ہے۔ ایک تعلیم ہی نہیں صحت کے ساتھ بھی حکومت کا ایسا ہی معاملہ ہے۔ ایک کردار ڈاکٹر محمد امجد کو میں بھی جانتا ہوں کہ جو اس شعبہ کی درخشندہ مثال ہے کہ جس نے کہا تھا کہ تین چار ماہ میں یہ ہو جائے گا کہ غریب مریض دوائی نہیں خریدے گا۔ اس نے پروفیسروں کے ساتھ مل کر اپنی جیبوں سے ایک فنڈ بھی قائم کیا مگر پتہ چلا کہ اس شریف النفس کو برداشت نہیں کیا۔ کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے یہ معاملہ وائرل ہے اور آپ جانتے ہیں۔ ۔ بس گانے کی حد تک میں صاف چلی شفاف چلی ہے۔ چلیے چھوڑیئے میں آپ کو مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا۔ ایک شعر عباس تابش کا: دہائی دیتا رہے جو دہائی دیتا ہے کہ بادشاہ کو اونچا سنائی دیتا ہے