وُہ مجھے بھول چکا ہو گا مگر میں نے اُسے یاد رکھا ہے سدا دس کے پہاڑے کی طرح ٭ اے خدا دوسرے جنم میں اسے حسن کم ‘ عقل کچھ زیادہ دے ٭ کل سوا آٹھ بجے دل نے تجھے کیا قیمتی وقت مرا مفت میں برباد کیا ٭ یہ شیخ آ تو گیا ہے ہماری محفل میں خرابیوں کا تسلسل خراب کر دے گا ٭ میں نے تو یہ کہا تھا کہ تصویر بھیج دو یہ تو نہیں کہا تھا کہ تقریر بھیج دو ٭ سرف والا دودھ اس امید پر پیتا ہوں میں دل سے شاید دُھل ہی جائیں تیری یادوں کے نقوش ٭ کبھی کہتا ہے دل مجھ سے تِرا اک پیچ ڈھیلا ہے کبھی محسوس ہوتا ہے کہ دِل بکواس کرتا ہے ٭ میرا دل شاپر میں رکھ لو‘ ہاتھ سے گر جائے گا صرف مٹی کا نہیں‘ خطرہ کرونا کا بھی ہے ٭ مجھے ایسا لگا وہ آ رہی ہے جو دیکھا واقعی وہ آ رہی تھی ٭ آپ جس کو سمجھ رہے ہیں عشق محترم! یہ دماغی خارش ہے ٭ پُوچھا تھا اتفّاق سے کل اُس نے اپنا حال تب سے ہمارا حال زیادہ خراب ہے ٭ کُچھ تو کہیے مزاج کیسا ہے کل تو گڑبڑ تھی آج کیسا ہے ٭ اندر مِری امّی ہے، باہر تری امّی ہے اب تُو ہی بتا جاناں، جائوں تو کہاں جائوں ٭ نیا محبوب ملنے تک پُرانا یاد رکھوں گا جو اُس کے ساتھ گُزرا ہے زمانہ یاد رکھوں گا ٭ ہُوا ہے ابھی اُس کی شادی کو ہفتہ اُسے بھول جائو گے تُم رفتہ رفتہ ٭ اللہ دتّہ اے ڈی گوہر بن گیا اک حسیں بیوی کا شوہر بن گیا ٭ فائل کسی کے پیار کی کھولی نہیں کبھی میں نان فائلر ہی رہا ہوں تمام عمر ٭ جہاں جاتا ہے کوئی چیز اُٹھا لاتا ہے ’’بس یہی بات ہے اچھی مرے ہر جائی کی‘‘ ٭ کوئے محبوب میں تھانہ بھی ہے اُس جگہ ایک مصیبت تو نہیں ٭ اب اتنی دور کوئے یار تک جانا نہیں پڑتا ہمارے گھر کے پچھواڑے میں کمرہ لے لیا اُس نے ٭ ’’ہم کو اُن سے وفا کی ہے اُمید‘‘ ایک نمبر کے جو حرامی ہیں ٭ گُم ہوا ہے جب سے موبائل مرا ایسا لگتا ہے کہ طوفاں تھم گیا ٭ قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا آنے جانے کے علاوہ وہیں کھانا کھانا ٭ تیری خاطر تو میں طوفانوں سے لڑ جائوں گا آج گرمی ہے مری جان! میں کل آئوں گا ٭ سارے محبوب غور سے سنُ لیں یہ مہینے کا آخری دن ہے ٭ کیا کہوں آپ سے اب ترکِ تعلق کا سبب اس نے پوچھا تھا‘ ’’میں کیسی ہوں؟‘‘ میں خاموش رہا ٭ مولوی صاحب کا دل دوزخ میں بھی لگ جائے گا خوبصورت عورتیں دیکھا کریں گے رات دن ٭ دریا کنارے سیر کی خاطر گیا تھا وہ آیا ہے اُس کا فون مگر مچھ کے پیٹ سے ٭ کوتوال اب مجھے گھر بھی نہیں جانے دیتا میں تو زنجیر ہلانے کے لئے آیا تھا ٭ عشق کا ہے یہ سیاست پہ اثر کوئے محبوب میں ہڑتال ہے آج اُس چاند سے چہرے پر بس ایک نظر کرنا بے شرمی کی یہ حرکت مت بارِدگر کرنا ہم نے موٹی کو سر آنکھوں پہ بٹھا رکھا ہے ویٹ لفٹنگ میں بھی قدرت نے مزا رکھا ہے محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں پتنگ وقت کرتا نہیں کسی کو معاف وقت کر دیتا ہے طبیعت صاف اب بھاگ کے جائو گی کہاں جانِ تمنا ؟ آ پہنچا ہے مردان سے اک خانِ تمنّا ہر ایک گائوں، ہر اک شہر، ہر دیار میں جنگ ’’وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ انسانیت سے عاری بس ایک میں ہوں ورنہ ہر شخص اِس گلی میں اللہ کا ولی ہے