شمالی افریقہ کے ملک مراکش کے حالیہ عام انتخابات میں مذہب پسند حکمران جماعت کو بہت بُری طرح شکست ہوگئی ہے جبکہ آزاد خیال ‘ بادشاہ کی حامی جماعتوں نے اکثریتی ووٹ حاصل کیا ہے۔ ملک میں آٹھ ستمبر کوہونے والے انتخابات میں حکمران جماعت ‘حزب ِعدل و ترقی ‘ کاتقریباً صفایا ہوگیا ہے۔ اسکی دس سالہ حکومت ختم ہوگئی ہے۔حتیٰ کہ پارٹی کے قائد اور انکے نائب تک اپنی نشستیں ہار گئے ہیں۔ سات دیگرجماعتوں نے اس سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں جن میں سب سے زیادہ کامیابی لبرل ‘ آزاد خیال جماعتوں کو ملی ہے۔ پونے چار کروڑ آبادی پر مشتمل مراکش کے ایوان نمائندگا ن کی مجموعی طور پر395 نشستیں ہیںِِِِ،جن پر متناسب نمائندگی کے تحت انتخاب کرائے جاتے ہیں۔پونے دو کروڑ سے زیادہ رجسٹرڈ ووٹر ہیں۔ ساٹھ نشستیں خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔ حالیہ الیکشن میں کورونا وبا کے باوجود پچاس فیصد سے کچھ زیادہ رائے دہندگان نے ووٹ ڈالا۔مقامی بااثر سیاستدانوں پر مشتمل لبرل پارٹی قومی اجتماعِ احرار (نیشنل ریلی آف انڈی پنڈینٹس) نے سب سے زیادہ 102سیٹیں جیتی ہیں۔ یُوں وہ بھی سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکی۔ اسے دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرکے حکومت بنانا پڑے گی۔ آئین کے مطابق مراکش کے بادشاہ محمد ششم نے اس جماعت کو پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت ہونے کے ناطے حکومت بنانے کی دعوت دی ہے۔حکومت میں رہنے والی اسلام پسند حزبِ عدل و ترقی (پی جے ڈی) صرف تیرہ نشستوں پر کامیاب ہوسکی۔ گزشتہ الیکشن میں اِسکی 125 سیٹیں تھیں۔ دس دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی نشستیں جیتی ہیں۔ الیکشن نتائج آنے کے بعد وزیراعظم سعدالدین العثمانی نے وزارتِ عظمیٰ اور پارٹی قیادت سے فوراً استعفیٰ دیدیا۔ پارٹی نے ایک بیان میں کہا کہ الیکشن کے نتائج سمجھ سے بالاتر‘ غیر منطقی ہیں اور مراکش کے سیاسی منظر نامہ میں پارٹی کی حیثیت کو منعکس نہیں کرتے۔ قومی اجتماع احرار کے نامزد وزیراعظم عزیز اخنوش نے اعلان کیا ہے کہ حزب اصالہ و معاصرہ (جدیدیت پسند پارٹی) اور استقلال پارٹی ان کے ساتھ ملکر مخلوط حکومت بنانے پر رضامند ہوگئی ہیں۔ان تینوں جماعتوں کے ملا کر 270 ارکان ہیں یعنی سادہ اکثریت سے بہت زیادہ۔ حزب عدل و ترقی (پی جے ڈی) کو مراکش میں مصر کی اخوان المسلمین طرز کی جماعت سمجھا جاتا ہے۔ اسکی ناکامی دنیا بھر میں اسلامی تحریکوں کے لیے ایک بڑا صدمہ ہے۔پارٹی کی حالیہ شکست کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو پارٹی کے اندر اختلافات شدید ہوگئے تھے۔ دوسرے‘ پارٹی اپنے منشور پر عمل نہیں کراسکی۔ اس کے دور میں لوگوں کوو ہ سہولتیں مہیا نہیںکی گئیں،جسکا اس نے و عدہ کیا تھا۔ وہ تعلیم اور صحت کی سہولتوں کو بہتر نہیں بنایا گیا۔ کورونا وبا سے معاشی صورتحال مزید خراب ہوگئی۔ بے روزگاری بڑھ گئی تھی۔ امیر اور غریب کے درمیان فرق وسیع تر ہوگیا۔ معاشی اصلاحات نہیں کی جاسکیں۔ بلکہ اس نے سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ کیلیے ملازمت کے دو سالہ کنٹریکٹ کی توثیق کی جس سے لوگوں کا ایک بڑا طبقہ ناراض ہوگیا۔اسے تعلیمی نظام کی مکمل نجکاری قرار دیا گیا۔ عام لوگوں کا خیال تھا کہ یہ اسلام پسند جماعت مقامی عربی زبان کو فروغ دے گی لیکن بادشاہ کی مرضی کے مطابق سائنسی تعلیم فرانسیسی زبان میں دینے کا قانون منظور کرلیا گیا۔کرپشن ختم کرنے کے منشور پر بھی عمل نہیں کروایا جاسکا۔عوام کامعتدل مزاج طبقہ اس بات سے بھی نالاں تھا کہ حکمران جماعت کی جانب سے اخلاقی پابندیاں نافذ کرانے میں سخت گیری سے کام لیا۔ایک سبب یہ بھی ہے کہ لبرل پارٹیوں کے امیدواروں‘نوجوان کارکنوں نے جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا اپنے حق میں بہتر استعمال کیا جو مذہبی سیاسی جماعت نہیں کرسکی۔ ملک کی تیس فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جنکا سب سے بڑا مسئلہ روزگار ہے۔ حزب ِعدل و ترقی کے حامیوں کا موقف ہے کہ انکی شکست کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مراکش میں اصل اقتدار بادشاہ اور مقتدرہ (ریاستی اداروں) کے ہاتھ میں ہے۔(مراکش میں مقتدرہ کو مخزن کہا جاتا ہے۔) انکی حکومت نے جو اچھے کام کیے انکا کریڈٹ بھی بادشاہ کو ملا جبکہ ناکامیوں کی ذمہ داری ترقی و انصاف پارٹی پر ڈالی گئی۔درحقیقت‘ دس برس پہلے جب مراکش میں بادشاہ کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں مظاہرے شروع ہوئے توبادشاہ نے کمال ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے مزاحمت نہیں کی تھی بلکہ آئین میں تبدیلی کرکے جمہوریت کیلیے راستہ کھول دیا تھا۔لیکن نئے آئین میںخارجہ پالیسی‘دفاع کے اختیارات بادشاہ کے پاس رکھے گئے۔منتخب حکومت کے پاس زیادہ تر تعلیم‘صحت اور سماجی بہبود کے شعبوں کے اختیارات ہیں۔گو ان میں بھی بادشاہ بالواسطہ طور پر دخل اندازی کرسکتا ہے کیونکہ معاشی ایجنڈا بادشاہ ہی طے کرتا ہے۔ اسلام پسند پارٹی حزب عدل و ترقی نے اصل طاقت لیے بغیر حکومت سنبھالی جو اسکی غلطی ثابت ہوئی کیونکہ بادشاہ اور مقتدرہ کے وسیع اختیارات کے ہوتے ہوئے معاشی اصلاحات کرنا ممکن نہیں تھا۔پارٹی بادشاہ کی پالیسیوں پر عمل پیرا رہی اور اسکی مددگار بن گئی۔ مراکش کے انتخابی نتائج میں پاکستان کے حکمرانوں اورمذہبی سیاسی جماعتوںکے لیے بھی کچھ سبق پوشیدہ ہیں۔ اگر کوئی جماعت حکومت میں آنے کے بعد اپنے منشور پر عمل نہ کرسکے بلکہ صرف زبانی جمع خرچ سے کام لے تو اُسے عوام الیکشن میں اسے مسترد کردیتے ہیں۔مزید لوگ صرف نظریات اور دعووںکی بنیاد پر کسی پارٹی کی حمایت نہیں کرتے بلکہ روزگار‘ غربت کا خاتمہ اور صحت و تعلیم کی سہولتیں عوام کے نزدیک زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔