مکرمی! وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کورونا وائرس کی صورتحال اور ملک بھر میں جاری لاک ڈائون کی وجہ سے کاروبار کی بندش کے باعث ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لاک ڈائون کی وجہ سے دو سے سات کروڑ افراد خط غربت سے نیچے جا سکتے ہیں۔ پاکستان میں کورونا وائرس کی صورتحال کا اگر یورپ , امریکا اور سپین سے موازنہ کریں تو انکے مقابلے میں اتنی شدت نہیں۔کورونا کو مکمل ختم کرنا ممکن نہیں اس کا پھیلائو کم کیا جا سکتا ہے۔ کورونا نے مضبوط ترین عالمی معیشتوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان کو بھی معیشت کا چیلنج درپیش ہے جبکہ پچھلے تقریباً دوسالہ موجودہ دورِاقتدارمیں معاشی صورتحال پریشان کن ہی رہی ہے۔روزافزوں مہنگائی اوربڑھتی ہوئی بیروزگاری نے عوام کا جینا محال کردیا ہے۔ کئی ممالک میں کرفیو نافذ کیا گیا پاکستان میں مکمل لاک ڈائون کی پالیسی سے گریز کیا گیا۔ جزوی طور پر کاروبار کھولے جارہے ہیں۔ لیکن جوں جوں لاک ڈاؤن میں نرمی کی جارہی ہے کرونا وائرس کی صورتحال بد سے بدترہوتی جارہی ہے۔عام آدمی کے ساتھ ساتھ اس مہلک بیماری سے نبرد آزماء طبی عملہ بھی اس جان لیوا بیماری کا شکارہورہا ہے ۔چند روز قبل تک صورتحال بہتر تھی اگر خدانخواستہ متاثرین میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا اور اموات ہوتی رہیں تو وائرس کو کنٹرول کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائیگا۔اربابِ حکومت کوگومگو کی کیفیت سے نکل کرتمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد ایک ٹھوس،مربوط اورقابلِ عمل پالیسی نافذ کرنی چاہئے۔ (جمشیدعالم صدیقی لاہور)