وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے بھارتی صحافی کرن تھاپرکو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ بھارت نے کشمیر پر پاکستان کو مذاکرات کا پیغام بھیجا ہے۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی کا کہنا ہے کہ پاکستان دہشتگردی سمیت ہر مسئلے پر بات کرنے کے لیے تیار ہے۔ ان کے مطابق پاکستان امن کا خواہاں ہے اور ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔معید یوسف نے اپنی ٹویٹ میں اس انٹرویو پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ انھوں نے خطے میں امن قائم کرنے سے متعلق بات کی ہے اور بھارت کی طرف سے پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات کو بے نقاب کیا ہے۔معید یوسف نے کہا کہ اگر بھارت مقبوضہ کشمیر پر بامعنی مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہے تو نئی دہلی کو پہلے کشمیر کے تمام سیاسی قیدیوں کی فوری رہائی کرنا ہو گا اور غیر انسانی فوجی محاصرے کو ختم کرنا ہو گا۔معید یوسف نے مطالبہ کیا کہ بھارت کشمیر میں آبادی کے تناسب کی تبدیلی سے متعلق لاگو قانون کو منسوخ کرے اور ادھر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگست 2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے جیسے اقدامات کو بھارت کا داخلی مسئلہ نہیں قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق یہ معاملات اقوام متحدہ سے متعلقہ ہیں۔ ان کے بقول پاکستان جو بھی کرے گا اقوام متحدہ کی قراردادوں سے باہر نہیں نکلے گا اور نہ بھارت کی طرح ان قراردادوں کو پامال کرے گا۔انھوں نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ پاکستان امن کی خواہش رکھتا ہے اور انڈیا کے ساتھ مذاکرات کا خیر مقدم کرے گا مگر شرائط یہ ہیں کہ انڈیا کشمیر میں شہریوں کی زندگی معمول پر لائے، کشمیریوں کو مذاکرات میں پرنسپل پارٹی تسلیم کرے اور پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی سرپرستی بند کرے۔وزیراعظم کے معاون خصوصی نے انٹرویو میں واضح کیا کہ پاکستان کے پاس ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں انڈیا کے ملوث ہونے کے ثبوت موجود ہیں اور یہ کہ بھارت نے پشاور میں آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) حملے کو سپانسر کیا، جس میں معصوم بچوں کا خون ہوا۔ بھارت کی انتہا پسند حکومت اور وزیر اعظم نریندر مودی پاکستان دشمنی میں خطے کو خطرات کا شکار بنا رہے ہیں ۔سفارتی، سیاسی، تجارتی اور کھیلوں کی سرگرمیاںان کی بھڑکائی ہوئی آگ میں خاکستر ہو رہی ہیں۔ عمران خان وزیر اعظم منتخب ہوئے تو پہلی تقریر میں ابہوں نے پاک بھارت تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ عمران خان نے اعتماد سازی کے لئے خود وزیر اعظم مودی کو بات چیت کی پیشکش کی، کرتار پور راہداری کھولنے کا اعلان کیا ۔اس طرح کی پیشکشوں پر بھارت کا رد عمل نا صرف مایوس کن تھا بلکہ کئی موقع پر اشتعال انگیزی بھی کی گئی۔23 ستمبر 2019 کوامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیویارک میں وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران امید ظاہر کی کہ پاکستان اور بھارت کشمیر کے مسئلے پر مل کر اپنے اختلافات دور کریں۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ’میں مدد کرنے کے لیے تیار ہوں اور یہ دونوں رہنماؤں پر منحصر ہے کہ یہ کیا ثالثی چاہتے ہیں، یہ گمبھیر مسئلہ ہے جو طویل عرصے سے جاری ہے لیکن میں مدد کرنے کے لیے تیار ہوں۔‘یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ بھارت کی طرف سے پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی بلیک لسٹ میں شامل کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان نے ہر موقع پر بھارت کے امن دشمنعزائم کو ناکام بنانے کی ہرممکن کوشش کی اور نہ صرف بروقت ردعمل دیا بلکہ جنگ سے متعلق خدشات کو مسترد کرتے ہوئے اس حوالے سے پہل نہ کرنے کا بھی واضح اعلان کیا۔پاکستان کی جانب سے بھارت،ر خطے کے دیگر ممالک اور عالمی طاقتوں کو یہ باور کرایا جاتا رہا ہے کہ پاکستان کسی صورت حملے میں پہل نہیں کرے گا لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا کہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ نریندر مودی پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لئے اپنے اس موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات سے قبل پاکستان دہشت گردی کیخلاف جنگ میں مزید کردار ادا کرے اور اس کے ذریعے سے وہ خطے کے طاقتور شخص کے طور پر اپنا تشخصقائم کرنا چاہتے ہیں۔۔ مودی پاکستان پر عالمی دباؤ ڈالنے کیلئے بین الاقوامی اجلاسوں میں اس موقف کو مسلسل دہرارہے ہیں کہ ‘‘مذاکرات اور دہشتگردی ساتھ ساتھ جاری نہیں رہ سکتے’’۔ ان کے دوبارہ انتخاب کے بعد پہلا بیرون ملک دورہ مالدیپ کا تھا، جہاں انہوں نے دہشت گردی کیخلاف بین الاقوامی کانفرنس کا مطالبہ کیا۔ کرغزستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے موقع پر مودی نے پاکستان پر ڈھکے چھپے الفاظ میں حملہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ریاستیں جو دہشتگردی کی معاونت، امداد اور رقوم فراہم کرتی ہیں ان کو قابو میں کیا جائے۔ ، مودی نے گزشتہ برس چینی صدر زی چن پنگ کو پیغام دیا کہ پاکستان کو دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے فیصلہ کن اقدام اٹھانا ہوں گے۔ماہرین بھارت کی جانب سے تازہ پیشکش کو چین بھارت کشیدگی کے تنناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔معاون خصوصی برائے قومی سلامتی نے بجا طور پر مقبوضہ کشمیر، پاکستان میں دہشت گردی اور بھارت کے مذاکرات سے فرار کی روایت کو پیش نظر رکھتے ہوئے معقول شرائط رکھی ہیں ،جب تک بھارت معقولیت اور امن پسندی کا ثبوت نہ دے مذاکرات بے معنی رہیں گے ۔