چیئرمین حامد انصاری نے آدھے گھنٹے کیلئے اجلاس ملتوی کیا۔ مگر ہنگامہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا کہ کلاک نے رات کے 12بجادیے اور انصاری نے اعلان کیا کہ ایوان کی نشست 29دسمبر تک ہی تھی، اسلئے اب کارروائی غیر معینہ مدت تک ملتوی کی جاتی ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سارا ڈرامہ احمد بھائی کی ایما پر ہی تشکیل دیا گیا تھا ، تاکہ لوک پال کی تقرری کسی طرح فی الحال ٹل جائے۔ کہتے ہیں کہ جب 2004میں بی جے پی کی زیر قیادت قومی جمہوری اتحاد کو انتخابات میں شکست ہوئی اور من موہن سنگھ برسراقتدار آگئے، تو سبکدوش وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے نئی حکومت سے درخواست کی تھی کہ ان کے چارمنصوبوں جن میں امریکہ کے ساتھ اسٹریٹیجک پارٹنرشپ، پاکستان کے ساتھ امن مساعی، ملک میں دریاوئں کو آپس میں جوڑنا اور شمال ۔جنوب، مشرق سے مغرب تک ہائی وے کی تعمیر کے پروجیکٹس کو جاری رکھا جائے۔ بس دریاوٗں کے منصوبے کو چھوڑ کر بقیہ سبھی ایشوز پر من موہن سنگھ نے کام جاری رکھ کے خاصی پیشرفت حاصل کی۔ ان انتخابات سے بس چند ماہ قبل واجپائی اسلام آباد کے دورہ کرکے پاکستانی صدر پرویز مشرف سے ملاقات کرکے لوٹے تھے۔ امن مساعی کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے 2007میں طے ہوگیا تھا کہ چونکہ سائچن گلیشیر اور سرکریک کے معاملے پر خاصی پیش رفت ہو چکی ہے اس لئے ان پر ایگریمنٹ کرکے باقی مسائل کو حل کروانے کیلئے عوامی سطح پر ماحول تیار کیا جائے۔ فروری 2007کو پاکستان کے سیکرٹری دفاع طارق وسیم غازی جب معاہدے پر دستخط کرنے کیلئے دہلی وارد ہوئے اس سے چند روز قبل الیکشن کمیشن نے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کی صوبائی اسمبلی کے انتخابا ت کا اعلان کردیا تھا۔ مذاکرات سے ایک روز قبل سونیا گاندھی کی رہائش گاہ پر کانگریس کی اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس ورکنگ کمیٹی کا اجلاس اتر پردیش میں امیدوار طے کرنے کیلئے بلایا گیا تھا۔ مگر اس میں سونیا گاندھی کی موجودگی میں احمد پٹیل نے من موہن سنگھ کو سیاچن پر مذاکرات اور وہاں سے فوجوں کے انخلاکے سوال پر خوب آڑے ہاتھوںلیا۔ میٹنگ میں موجود افراد کا کہنا ہے کہ اسطرح کی صورت حال میں سونیا گاندھی اکثر من موہن سنگھ کی حمایت میں کھڑی ہوجاتی تھی، مگر اس وقت و ہ خاموش رہی۔ احمد بھائی نے من موہن سنگھ کو بتایا کہ پاکستان کے ساتھ کسی ایگرمینٹ کرنے سے اتر پردیش میں پارٹی کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ اجلاس جاری تھا کہ معلوم ہوا کہ شمال مشرقی ریاستوں کا دورہ کرتے ہوئے فوج کے سربراہ جنرل جے جے سنگھ نے سیاچن سے فوجوں کے انخلا کی مخالفت کی ہے۔ جبکہ چند روز قبل کابینہ کی سلامتی سے امور کمیٹی کے اجلاس میں انہوں نے اس معاہدے کو منظوری دی تھی۔ احمد پٹیل کی یہ مخالفت پاکستان کے ساتھ امن مساعی کے تابوت میں ایک کیل ثابت ہوئی۔ اسکے فوراً بعد پاکستان میں وکلا ء کی ایجی ٹیشن نے مشرف کو داخلی طور پر الجھائے رکھا۔ کانگریس کے اندرون ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی نے من موہن سنگھ کو چوائس دی تھی، کہ پاکستان کے ساتھ امن مساعی یا امریکی کے ساتھ نیوکلیر ڈیل میں کسی ایک ایشو پر ہی وہ عوامی سطح پر رائے عامہ بنائے گی۔ اور وزیر اعظم نے نیوکلیر ڈیل کو ہی ترجیح دی ۔بھارت کے موجودہ وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر ، من موہن سنگھ حکومت کے دوران ایک سفارت کار تھے اور وزیر اعظم کے چہیتے افسروں میں تھے، کیونکہ نیوکلیر ڈیل کے حوالے سے انہوں نے امریکہ میں کافی کام کیا تھا۔ من موہن سنگھ انکو 2013میں خارجہ سیکرٹری بنانے والے تھے۔ مگر جب کئی وزراء نے احمد پٹیل سے شکایت کی کہ ایک ڈھیٹ امریکہ نواز افسر کو خارجہ سیکرٹری بنانا کانگریس حکومت کو زیب نہیں دیگا، تو انہوں نے اس تقرری پر روک لگوا دی اور سجاتا سنگھ کے سر پر یہ تاج سجا۔ مگر 2015میں نئے وزیر اعظم نریندر مودی نے انکو معزول کرکے جے شنکر جو بس کئی روز بعد ریٹائرڈ ہونے والے تھے کو سیکرٹری خارجہ بنادیا۔ چونکہ گجرات میں برپا 2002کے مسلم کش فسادات کے بعد ہی سیکولر اور لبرل طاقتوں نے یکجا ہو کر کانگریس کا دامن تھا م کر اسکو اقتدار میں پہنچایا تھا، اس لئے کئی تنظیموں کا کہنا تھا کہ اس قتل عام میں ملوث سیاسی لیڈران خاص طور وزیر اعلیٰ نریندر مودی پر قانون کا شکنجہ کسنا چاہئے۔ کئی مقتدر کانگریسی لیڈران اور وزراء پی چدمبرم اور کپل سبل بھی مودی کو قومی تفتیشی بیورو کے حوالے کرنے پر مصر تھے، مگر بتایا جاتا ہے کہ کانگریس ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں احمد پٹیل نے دلیل دی کہ مودی کا سیاسی طور پر مقابلہ کرنا چاہئے۔ اس طرح سے کہتے ہیں کہ ایک گجراتی نے دوسرے گجراتی کو قانونی شکنجہ سے بچاکر کئی سال بعد اس کیلئے وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچنا آسان بنایا۔ بقول سونیا گاندھی وہ احمد بھائی کو تمام مسائل کو حل کرنے والا، مشکل کشا سمجھتی تھی۔ وہ انھیں ’احمد‘ کہہ کر پکارتی تھی۔ ان کی دوستی اور اثر کا دائرہ بے حد وسیع تھا ، جس کی وجہ سے وسری پارٹیوں کے رہنما ان پر اعتماد کرتے تھے۔ سینئر صحافی معصوم مراد آبادی کہتے ہیں کہ نئی دہلی کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کے وقت ایک دن پانی ختم ہو گیا۔ لوگ وہاں موجود واحد ٹیوب ویل کی طرف لپکے۔ احمد پٹیل اسکا ہینڈل گھما کر لوگوں کو وضو کرانے لگا۔ کئی افراد نے انکوکہا کہ وہ اب ہینڈل چلاتے ہیں۔ مگر و ہ تیار نہیں ہوئے، جب تک جماعت کھڑی نہیں ہوئی ، سبھی افراد کا انہوں نے وضو کروایا۔ وہ اکثر جمعہ کی نماز موتی لال نہرو روڈکی سڑک پر واقع مسجد میں پڑھتے تھے، جو کانگریس صدر دفتر اور سونیاگاندھی کی رہائش گاہ کے قریب واقع تھی۔ اگر کبھی کانگریس سے متعلق کسی خبر کی تصدیق کی ضرور ت ہوتی تھی، تو میں بھی اسی مسجد میں نماز ادا کرنے پہنچ جاتا تھا۔ نماز کے بعد وہ کانگرس دفتر یا سونیا گاندھی کی رہائش گاہ تک پیدل ہی جاتے تھے اور اسی دوران ان سے خبر کے متعلق گفتگو بھی ہو جاتی تھی۔ وہ تین بار لوک سبھا کے رکن اور متعدد بار راجیہ سبھا کے رکن رہے۔ وہ 1949کو گجرات میں بھروچ ضلع کے پیرامل گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔چند سال قبل راجیہ سبھا کے انتخابات میں انہیں شکست دینے کے لیے نریندر مودی اور امت شاہ نے بہت کوششیں کیں۔ مگر وہ انہیں شکست نہیں دے سکے۔احمد بھائی کی اپنے لیڈر کے تئیں وفاداری، ذاتی ایمانداری ، خود نمائی سے پرہیز ، عاجزانہ شخصیت، اور رواداری ایسی خوبیاں تھیں، جو سیاسی گذر گاہوں میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ موت کو سمجھتے ہیں غافل اختتام زندگی ہے یہ شام زندگی ، صبح دوام زندگی