رموز مملکت خویش خسرواں داند۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ بہترین نتائج کا انحصار بہترین مردانِ کار پہ ہوتا ہے۔ سعودیہ روانگی سے چند روز پہلے، جنرل بلال اکبر سے اتفاقاً بات ہوئی تو ایک سوال ان سے پوچھا۔ بلال ابھی ایک نوجوان افسر تھے، جب پہلی بار ان سے ملا۔ نمایاں تو تب ہوئے جب سندھ رینجرز کے سربراہ بنائے گئے۔ پرلے درجے کی بدامنی سے انہیں نمٹنا تھا۔ پہلی بار حاضر ہوا تو ایک عجیب بات کہی: آپ کی آمد کے خیال نے مجھے پریشان کیے رکھا۔ کیا اس خیال سے کہ اخبا رنویس چبھتے ہوئے سوال پو چھے گا، ناتراشیدگی کا مظاہرہ؟ ایسے معقول اور کھرے آدمی کے ساتھ کیونکر یہ رویہ اختیار کیا جا سکتاہے۔ خیر، جب وہ بات پوچھی تو ان کا جواب یہ تھا: Now I am a diplomat۔خود کو نئی ذمہ داریوں کے لیے وہ تیار کر رہے تھے۔ کامیاب آدمی کی علامت یہی ہوتی ہے۔۔۔یکسوئی! ہمہ وقت تفویض کردہ فرائض کے بارے میں وہ سوچتا ہے۔ بہترین طور پر کیسے وہ انہیں انجام دے گا۔ سندھ رینجرز کے سربراہ کی حیثیت سے ایسا کارنامہ سرانجام دیا، جس پر ہمیشہ وہ یاد رکھے جائیں گے۔ ایم کیو ایم ایک خوں خوار جماعت تھی۔ بھارتی خفیہ ایجنسی کے علاوہ امریکہ اور برطانیہ کے زیرِ اثر۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شہری سندھ کے ساتھ ریاست کا رویہ ظالمانہ رہا۔ صرف سرکاری ملازمتوں کا کوٹہ ہی نہیں، قومی معیشت کے انجن سے سندھی وڈیروں نے بہراعتبار ناروا سلوک کیا۔ اس کا علاج مگر خواں ریزی نہیں، سیاسی جدوجہد تھی۔ دلدوز تفصیلات سے سبھی واقف ہیں، دہرانے سے کیا حاصل۔1995ء میں ڈاکٹر شعیب سڈل نے امن بحال کر دیا تھا۔ یکے بعد دیگرے پھر بڑی سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ، بالخصوص جنرل پرویز مشرف نے باغیوں کی مدد کی۔ عارضی سیاسی مفادات کو پیپلزپارٹی اور نون لیگ نے ملحوظ رکھا۔ اسٹیبلشمنٹ میں احتیاط کی حدود اکثر خوف سے جا ملتیں۔ تین عشروں میں کراچی کے سولہ ہزار معصوم شہری قتل کیے گئے۔ پھر وہ دن آپہنچا،’’را‘‘ کے ایجنٹ نے جب ’’پاکستان مردہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا اور ٹی وی چینلز پر چڑھائی کی۔ مسلسل اور متواتر قاتلوں کا تعاقب کرنے والے جنرل نے اس پر وہ جرات مندانہ فیصلہ کیا کہ حالات یکسر بدل گئے۔ فضا اب ایم کیو ایم کے خلاف تھی۔ غم و غصے سے قوم بھری تھی۔ ایم کیو ایم کی پوری قیادت گرفتار کر لی گئی۔ انہیں اب سزا بھگتنا تھی۔ بچ نکلنے کے لیے انہوں نے ’’را‘‘ کے ایجنٹ سے لا تعلقی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ ’’ایم کیو ایم پاکستان‘‘وجود میں آئی۔ زمانہ گزر چکے گا، عہدِ رواں کے تعصبات کی گرد بیٹھ جائے گی، تب قوم جن لوگوں پہ فخر کرے گی، جنرل بلال اکبر ان میں سے ایک ہوں گے۔ لیفٹیننٹ جنرل بنے تو جونئیر ہونے کے باوجود چیف آف جنرل سٹاف بنائے گئے۔ تعجب کی اس میں کوئی بات نہ تھی۔ اس لیے کہ فرض شناس ہی نہیں، وہ ایک ریاضت کیش آدمی ہیں۔ ان کی امانت و دیانت اور اخلاقی جرات پہ ہمیشہ اعتماد کیا جا سکتا تھا۔ پھر وہ گیارھویں کور کے کمانڈر بنائے گئے، کشمیر کی کنٹرول لائن پر جب آگ برس رہی تھی۔ ایسی شاندار منصوبہ بندی اور شجاعت کے ساتھ اپنے فرائض ادا کیے کہ جاننے والے اش اش کر اٹھے۔ احتیاط اور سلیقہ مندی بھی۔ جنرل میں ایک جذباتی توازن پایا جا تا ہے۔ ایک بار بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت کو انہوں نے سرحد کے قریب پایا، توپیں جب آگ اگل رہی تھیں، تو اسے پیغام بھیجا: فوراً یہاں سے چلے جائیے ورنہ اپنے انجام کے آپ ذمہ دار ہوں گے۔ جنرل فرار ہو گیا۔ پاکستان واہ کمپلیکس کے سربراہ کی حیثیت سے ان کی خدمات ہمیشہ ایک مثال رہیں گی۔ ایک قابلِ فخر ادارہ، قومی دفاع کی خود کفالت میں جس کا کردار غیر معمولی ہے۔ کرونا کی وبا پھیلی تو ایک عام ماسک کی قیمت سو روپے کے لگ بھگ تھی۔ Senitizerبھی کئی گنا قیمت پر مہیا تھا۔ اس میدان میں انہوں نے کام کیا۔قیمتوں کو معمول پر لانے میں ان کا بھی ایک کردار تھا۔ سعودی عرب میں ایک سفیر کی حیثیت سے ایک نہیں، کئی چیلنجز کا انہیں سامنا تھا۔تعلقات میں سرد مہری تھی۔ گھل مل جانے اور اپنائیت کے ساتھ بات کرنے والے آدمی نے اہم شخصیات کے ساتھ ملاقاتوں کا آغاز کیا۔ رفتہ رفتہ بتدریج برف پگھلنے لگی۔ حربے اور حیلے بھی کام آتے ہیں۔ صداقت شعار آدمی کی راہ لیکن آسانی سے کشادہ ہوتی ہے۔ ظاہر و باطن کی ہم آہنگی اعتماد عطا کرتی اور بند دروازے کھول دیتی ہے۔ غیر قانونی طور پر سعودی عرب میں مقیم پاکستانی ایک بڑا مسئلہ تھے۔سفیر نے سلجھانے کی کوشش کی تو حیرت زدہ رہ گیا۔ پاکستانیوں کی کل تعداد کا وہ بیس فیصد تھے۔ با ایں ہمہ مملکت کو نرمی اختیار کرنے پر آمادہ کر لیا گیا۔ سیدھا سادہ آدمی بعض اوقات وہ کر دکھاتا ہے جو بزرجمہر نہیں کرپاتے۔ اس پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ اس کی بات سنی جاتی ہے۔ دلوں کے دروازے اس کے لیے کھول دیے جاتے ہیں۔ مشکل حالات میں سعودی عرب کی یونیورسٹیوں کو اس نے پاکستانی طلبہ کے لیے وظائف جاری کرنے پر آمادہ کیا۔ اس پروگرام پر عمل جاری ہے۔ جیسا کہ سرکارؐ نے ارشاد کیا تھا: اعمال کا دارومدار حسنِ نیت پر ہوتا ہے۔ زعم اور خبطِ عظمت سے اللہ تعالیٰ اسے محفوظ رکھے۔ اس کی نیت کے سچے ہونے میں کیا کلام۔ پاکستان سعودی عرب کے تعلقات میں بتدریج بہتری آتی گئی۔ دوسرے عامل بھی کارفرما ہوئے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے سے بے نیاز نہیں رہ سکتے۔ ہمہ وقت مصروفِ عمل رہنے والے سفیر کا بھی ایک کردار تھا۔ اخبار کہتاہے کہ جنرل کو واپس بلایا جا رہا ہے۔ ایک اطلاع یہ ہے کہ ہنگری یا کسی دوسرے ملک میں سفیر بنانے کے لیے۔ دوسرے یہ کہ نیب کی سربراہی سونپ دی جائے گی۔ دونوں باتیں قابلِ فہم نہیں۔ ہنگری ایسی غیر اہم ملک میں وہ کیا کریں گے۔ ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ رہنے والے تو ہیں نہیں۔ نیب کے لیے ہرگز وہ موزوں نہیں۔ یہ ان کے لیے ایک نیا میدان ہوگا۔ پھر یہ کیا رو رعایت کے وہ قائل ہیں اور نہ سفارش ماننے والے۔ ایک خبر نگار کا خیال یہ ہے کہ سعودی عرب کی پاکستانی برادری میں وہ کچھ زیادہ مقبول نہیں۔ جی نہیں، وہ مردم بیزار واقع نہیں ہوئے، انسان دوست ہیں۔ نظم و ضبط کی اگرچہ بہت پابندی کرنے والے۔ رموز مملکت خویش خسرواں داند۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ بہترین نتائج کا انحصار بہترین مردانِ کار پہ ہوتا ہے۔